انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقائد اللہ تعالیٰ کی ذات اوراُس کی صفات پرایمان لانا مؤمن اپنی زندگی کس طرح گزارے؟ یعنی ایک ایمان والے کو کمالِ ایمان کے ساتھ اپنی زندگی کس طرح گذارنی چاہئے،اسلام اس پر جو جو فرائض وحقوق لاگو کرتا ہے، اُن تمام فرائض وحقوق کی ادائیگی مسنون طریقہ پر کس طرح کی جائے؟ اس کو ایک مرتب انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جارہا ہے۔ ایمان کی حقیقت سب سے پہلے ایمان کی حقیقت اور اس کا تعارف سمجھنا ضروری ہے اس لیے کہ بہت سارے لوگ ہیں جو ‘‘ایمان’’ کا مطلب نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے بہت ساری خرابیاں وجود میں آتی ہیں۔ ایمان کے اصل معنی کسی پراعتماد کرتے ہوئے اس کی بات کو سچ ماننے کے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَمَاأَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَاوَلَوْکُنَّا صَادِقِیْنَ"۔ (یوسف: ۱۷) "اور آپ ہمارا کاہے کو یقین کرنے لگے ؛ گوہم کیسے ہی سچے ہوں"۔ (ترجمہ تھانویؒ) اور دین کی خاص اصطلاح میں ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبرایسی حقیقتوں کے متعلق جو ہمارے حواس اور آلات ادراک(آنکھ، ناک، کان وغیرہ) کے ذریعہ نہیں جانی جاسكتی ہوں جو کچھ بتلائیں اور جو علم وہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں ہم ان کو سچا جان کر ان میں ان کی تصدیق کریں اور ان کو حق مان کر قبول کرلیں؛ بہرحال شرعی ایمان کا تعلق اصولاً امورِ غیب ہی سے ہوتا ہے "یؤمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ" (البقرۃ:۳) ‘‘یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر" (ترجمہ تھانویؒ) مثلاً اللہ اور اس کی صفات اور اس کے احکام اور رسولوں کی رسالت اور ان پر وحی کی عالم کی ابتداء وانتہاء کے متعلق ان کی اطلاعات وغیرہ، اس قسم کی جتنی باتیں امت کو رسول نے بیان فرمائی ہیں ان سب کو ان کی سچائی پر اعتماد کرتے ہوئے حق جان کر ماننے کا نام اصطلاح شریعت میں ایمان ہے اور پیغمبر کی اس قسم کی کسی ایک بات کو نہ ماننا یا اس کو حق نہ سمجھنا ہی اس کی تکذیب ہے جو آدمی کو ایمان کے دائرہ سے نکال کر کفر کی سرحد میں داخل کردیتی ہے؛ لہٰذا آدمی کے مؤمن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ "کُلُّ مَاجَاءَ بِہٖ الرَّسُوُلُ مِنْ عِنْدِاللہ" "وہ تمام چیزیں اور حقیقتیں جو اللہ کے پیغمبر، اللہ کی طرف سے لائے" اس کی تصدیق کی جائے اور ان کو حق مان کر قبول کیا جائے؛ لیکن ان سب چیزوں پر تفصیلی طور سے ایمان لانا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ نفس ایمان کے لیے اجمالی تصدیق بھی کافی ہے؛ البتہ کچھ خاص اور بنیادی چیزیں ایسی بھی ہیں کہ ایمانی دائرہ میں آنے کے لیے ان کی تصدیق تعیین کے ساتھ ضروری ہے۔ چنانچہ حدیث جبرئیل میں ایمان سے متعلق سوال کے جواب میں جن امور کو ذکر فرمایا گیا ہے (اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابیں، اللہ کے رسول اور قیامت اور ہرخیروشر تقدیر) تو یہ ایمانیات میں سے وہی اہم اور بنیادی امور ہیں جن پر تعین کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے اور اسی واسطے آنحضرتﷺ نے حدیث جبرئیل میں ان کا ذکر صراحتاً اور تعین کے ساتھ فرمایا اور قرآن پاک میں بھی یہ ایمانی امور اسی تفصیل اور تعین کے ساتھ مذکور ہیں: "اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ"۔ (البقرۃ: ۲۸۵) "اعتقاد رکھتے ہیں رسول اس چیز کا جو ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور مؤمنین بھی سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں اللہ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ اور اس کی کتابوں کے ساتھ اور اس کے سب پیغمبروں کے ساتھ"۔ (ترجمہ تھانویؒ) "وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللہ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا"۔ (النساء: ۱۳۶) "اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور روزِ قیامت کا تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جاپڑا"۔ (ترجمہ تھانویؒ) اِن چھ امور میں سے ‘‘تقدیر خیروشر" کا ذکر قرآن پاک میں اگرچہ ان آیات میں نہیں آیا ہے لیکن دوسرے موقع پر قرآن پاک نے اس کو بھی صراحتاً بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: "قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِاللہ"۔ (النساء:۷۸) "آپ فرمادیجئے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف ہے"۔ (ترجمہ تھانویؒ) اور دوسری جگہ ارشاد ہے: "فَمَنْ یُّرِدِ اللہٗ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًاحَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَآءِ کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ"۔ (الانعام:۱۲۵) "سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہتے ہیں اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کردیتے ہیں اور جس کو بے راہ رکھنا چاہتے ہیں اس کے سینہ کو تنگ بہت تنگ کردیتے ہیں جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہو، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر پھٹکار ڈالتا ہے"۔ (ترجمہ تھانویؒ) حدیث جبرئیل جس میں ایمانیات کو یکجا بیان کیا گیا وہ یہ ہے، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص سامنے سے نمودار ہوا، جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے اور اس پر سفر کا کوئی اثر بھی معلوم نہیں ہوتا تھا (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی بیرونی شخص نہیں ہے) اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص اس نووارد کو پہچانتا نہ تھا (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی باہر کے آدمی ہیں؛ بہرحال یہ حاضرین کے حلقہ سے گزرتا ہوا آیا) اور اپنے گھٹنے آنحضرتﷺ کے گھٹنوں سے ملاکر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ حضورﷺ کی رانوں پر رکھدیئے اور کہا: اے محمد! مجھے بتلائیے کہ اسلام کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے (یعنی اس کے ارکان یہ ہیں کہ دل وزبان سے) تم یہ شہادت ادا کرو کہ اللہ کے سوا کوئی "الٰہ" (کوئی ذات عبادت وبندگی کے لائق) نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور ماہ رمضان کے روزے رکھو اور اگر حج بیت اللہ کی تم استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو، اس نووارد سائل نے آپ کا یہ جواب سن کر کہا: آپ نے سچ کہا۔ راویٔ حدیث حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا بھی ہے اور پھر خود تصدیق وتصویب بھی کرتا جاتا ہے، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا: اب مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے رسول کو، اس کے فرشتوں کو، اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور یوم آخرت یعنی روزِ قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہرخیروشر تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو (یہ سن کر بھی) اس نے کہا آپ نے سچ کہا؛ اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا: مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت وبندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو؛ اگر تم اس کو نہیں دیکھ سکو تو یہ خیال کرو کہ وہ توتم کو دیکھتا ہی ہے؛ پھراس شخص نے عرض کیا مجھے قیامت کی بابت بتلائیے (کہ وہ کب واقع ہوگی) آپ نے فرمایا: جس سے یہ سوال کیا جارہا ہے وہ اس کے بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا؛ پھراس نے عرض کیا تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلایئے؟ آپ نے فرمایا (اس کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی (اور دوسری نشانی یہ ہے کہ) تم دیکھوگے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں ہے اور جوتہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے اور اس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کرکے یہ نووارد شخص چلاگیا؛ پھر مجھے کچھ عرصہ گزرگیا، تو حضور صلی اللہ نے مجھ سے فرمایا: اے عمر! کیا تمھیں پتہ ہے کہ وہ سوال کرنے والا شخص کون تھا ؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے تمہاری اس مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھادیں۔ (مسلم، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان،حدیث نمبر:۹۔ بخاری، باب سوال جبرئیل النبیﷺ، عن ابی ھریرۃ، حدیث نمبر:۴۸) اللہ کی ذات پر ایمان لانا ذاتِ باری پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات پر یقین کیا جائے کہ اللہ ایک ہے، اس کی ذات میں کوئی اس کا شریک نہیں نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے، وہی آسمانوں اور زمینوں کا بنانے والا؛ ہرچیز کا رب اور مالک ہے، اس کے سوا حقیقی معبود اور کوئی پالنے والا نہیں۔ (الاعراف:۵۴۔ طٰہٰ:۱۴۔ الانبیاء:۲۲۔ ھود:۶۔ یونس:۳۱،۳۲) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "آپ لوگوں سے کہدیجئے کہ وہ یعنی اللہ (اپنے کمال ذات وصفات میں) ایک ہے" (کمالِ ذات یہ ہے کہ واجب الوجود ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا او رکمال صفات یہ کہ علم قدرت وغیرہ اس کے قدیم اور محیط ہیں ) اللہ بے نیاز ہے (یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں اور اس کے سب محتاج ہیں) اس کے اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔ (الاخلاص، معارف القرآن: ۸/۲۰۲، مفتی محمدشفیع صاحبؒ، ولادت: ۲۰/شعبان ۱۳۱۴ھ مطابق جنوری ۱۸۹۷ء، وفات:…، مطبوعہ: مکتبہ اشرفی دیوبند) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اُس کو اُس کا حق نہیں تھا اور مجھے برابھلا کہا؛ حالانکہ اُس کو اُس کا حق نہیں تھا؛ بہرحال اس نے مجھے یہ کہکر جھٹلایا کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کرونگا؛ جیسا کہ پہلی بار کیا اور جو اس نے برابھلا کہا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اولاد ہے حالانکہ میں اس سے بے نیاز ہوں نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی میرے برابر کا ہے۔ (بخاری، باب قولہ اللہ الصمد، حدیث نمبر:۴۵۹۳) ارشادِ باری ہے: "اب تو مت ٹھہراؤ اللہ پاک کے مقابل اور تم تو جانتے بوجھتے ہو" (ترجمہ: تھانویؒ، البقرۃ: ۲۲) حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بیان کیا کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا؛ حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ (بخاری، باب قولہ فلاتجعلوا اللہ اندادا، حدیث نمبر:۴۱۱۷) اللہ کی صفات پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ کے تمام صفات کے حق ہونے پر ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام سینکڑوں ہیں، جو قرآن مجید اور احادیث میں وارد ہوئے ہیں؛ انہی کو اسماء حسنیٰ کہا جاتا ہے؛ ہم قرآن میں آئے ہوئے اسمائے حسنیٰ کی فہرست جو حافظ ابن حجرؒ نے ذکر کی ہے اسے یہاں ذکر کرتے ہیں: "اللہ، الرَّحْمٰنُ، الرَّحِیْمُ، الْمَلِکُ، الْقُدُّوْسُ، اَلسَّلَامُ اَلْمُؤْمِنُ، اَلْمُھَیْمِنُ، اَلْعَزِیْزُ، اَلْجَبَّارُ، اَلْمُتَکَبِّرُ، اَلْخَالِقُ، اَلْبَارِیُ، اَلْمُصَوِّرُ، اَلْغَفَّارُ، اَلْقَھَّارُ، اَلتَّوَّابُ، اَلْوَھَّابُ، اَلْخَلَّاقُ، اَلرَّزَّاقُ، اَلْفَتَّاحُ، اَلْعَلِیْمُ، اَلْحَلِیْمُ، اَلْعَظِیْمُ، اَلْوَاسِعُ، اَلْحَکِیْمُ، اَلْحَیُّ، اَلْقَیُّوْمُ، اَلْسَّمِیْعُ، اَلْبَصِیْرُ، اَللَّطِیْفُ، اَلْخَبِیْرُ، اَلْعَلِیُّ، اَلْکَبِیْرُ، اَلْمُحِیْطُ، اَلْقَدِیْرُ، اَلْمَوْلیٰ، اَلنَّصِیْرُ، اَلْکَرِیْمُ، اَلرَّقِیْبُ، اَلْقَرِیْبُ، اَلْمُجِیْبُ، اَلْوَکِیْلُ، اَلْحَسِیْبُ، اَلْحَفِیْظُ، اَلْمُقِیْتُ، اَلْوَدُوْدُ، اَلْمَجِیْدُ، اَلْوَارِثُ، اَلشَّھِیْدُ، اَلْوَلِیُّ، اَلْحَمِیْدُ، اَلْحَقُّ، اَلْمُبِیْنُ، اَلْقَوِیُّ، اَلْمَتِیْنُ، اَلْغَنِیُّ، اَلْمَالِکُ، اَلشَّدِیْدُ، اَلْقَادِرُ، اَلْمُقْتَدِرُ، اَلْقَاھِرُ، اَلْکَافِیُ، اَلشَّاکِرُ، اَلْمُسْتَعَانُ، اَلْفَاطِرُ، اَلْبَدِیْعُ، اَلْغَافِرُ، اَلْاَوَّلُ، اَلْاٰخِرُ، اَلظَّاھِرُ، اَلْبَاطِنُ، اَلْکَفِیْلُ، اَلْغَالِبُ، اَلْحَکَمُ، اَلْعَالِمُ، اَلرَّفِیْعُ، اَلْحَافِظُ، اَلْمُنْتَقِمُ، اَلْقَائِمُ، اَلْمُحیِی، اَلْجَامِعُ، اَلْمَلِیْکُ، اَلْمُتَعَالُ، اَلنُّوْرُ، اَلْھَادِیُ، اَلْغَفُوْرُ، اَلشَّکُوْرُ، اَلْعَفُوُّ، اَلرَّؤُفُ، اَلْاَکْرَمُ، اَلْاَعْلٰی، اَلْبَرُّ، اَلْحَفِیُّ، اَلرَّبُّ، اَلْاِلٰہُ، اَلْوَاحِدُ، اَلْاَحَدُ، اَلصَّمَدُ، اَلَّذِیْ لَمْ یَلِدْ، وَلَمْ یُوْلَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ، کُفُوًااَحَدٌ"۔ (فتح الباری، باب لِلّٰہ مأۃُ اِسْم غیرواحد، حدیث نمبر:۱۸/۲۱۵) بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء کو احادیث سے تلاش کرکے دوسو سے زائد بتلایا ہے، یہ سارے صفاتی اسماء حسنیٰ اللہ کے صفاتِ کمال کے عنوانات اور اس کو پہچاننے کے دروازے ہیں، ان سب پر یہ یقین رکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان تمام صفات سے مکمل طور پر متصف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ اسمائے حسنیٰ سے باری تعالیٰ کی جو صفات ملتی ہیں اس کو مختصراً اس طرح سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے، ہرچھوٹی، بڑی چیز کا عالم ہے، کوئی ذرّہ اس سے مخفی نہیں، قال تعالیٰ: "لَایَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَافِی الْاَرْضِ وَلَااَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَااَکْبَرُ اِلَّافِی کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ"۔ (سبا: ۳) "اس سے کوئی ذرہ باربر بھی غائب نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے اور نہ کوئی چیز بڑی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے"۔ (ترجمہ تھانویؒ) "اِنَّ اللہ لَایَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَافِی السَّمَآءِ" (آل عمران:۵) "بے شک اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز چپھی ہوئی نہیں ہے، زمین میں اور آسمان میں"۔ (ترجمہ تھانویؒ) "وَمَایَخْفٰی عَلَی اللہ مِنْ شَیْئٍ فِی الْاَرْضِ وَلَافِی السَّمَآءِ"۔ (ابراہیم: ۳۸) "اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہ زمین میں اور نہ آسمان میں"۔ (ترجمہ تھانویؒ) وہ قادرِمطلق ہے جس طرح جو چاہے جب چاہے کرسکتا ہے "اِنَّ اللہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ" (البقرۃ:۲۰) اور وہ عظمت والا ہے؛ ہرچھپی اور ہرکھلی چیز غائب وحاضر کا پوری طرح جاننے والا ہے؛ ہرعیب سے پاک اور ہرایسی چیز سے بری ہے جو اس کے شایانِ شان نہیں، امن دینے والا اور نگرانی کرنے والا ہے اور ہرٹوٹی ہوئی ناکارہ چیز کی اصلاح کرکے درست کردینے والا ہے اور ہربڑائی درحقیقت اللہ جل شانہ کے لیے ہی مخصوص ہے، جو کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں اور اللہ ہی نے تمام مخلوقات کو خاص خاص شکل وصورت عطافرمائی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہوئی اور پہچانی جاتی ہے، دنیا کی عام مخلوقات آسمانی اور زمینی خاص صورتوں ہی سے پہچانی جاتی ہیں؛ پھر ان میں انواع واصناف کی تقسیم اور ہرنوع وصفت کی جداگانہ ممتاز شکل وصورت اور ایک ہی نوعِ انسانی میں مردوعورت کی شکل وصورت کا امتیاز پھر سب مردوں سب عورتوں کی شکلوں میں باہم ایسے امتیازات کہ اربوں کھربوں انسان دنیا میں پیدا ہوے، ایک کی صورت بالکلیہ دوسرے سے نہیں ملتی، یہ کمال قدرت صرف ایک ہی ذات حق جل شانہ کی ہے، جس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ شرک کسے کہتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی ذات یااس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا شرک کہلاتا ہے، اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے: مذکورہ صفات میں ایمان کے لیے ضروری یہ ہے کہ اللہ کی کسی صفت میں کسی کی شرکت نہ سمجھی جائے، عام طور پر کچھ صفات ایسی ہیں کہ جن میں عوام اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرتی ہے جو شرک تک پہنچادیتا ہے اور انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ شرک ہورہا ہے، مثلاً انبیاء اور اولیاء اللہ سے محبت۔ اولیاء اللہ سے عقیدت ومحبت کا تقاضہ یہ حق ہے کہ انبیاء نے جو اعمال بتلائے ہیں اسے اپنایا جائے، عبادت کے جوطریقے سکھلائے ہیں اسے اختیار کیا جائے؛ اسی طرح اولیاء اللہ سے عقیدت ومحبت کا تقاضہ یہ ہے کہ انہوں نے جس طرح اپنی زندگی کو آخرت کے لیے بنایا تھا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مکمل طور پر کاربند ہوئے تھے اور حضورﷺ کی سنتوں کو اپنے کلیجہ سے لگاکر اس پر عمل کیا تھا اسی طرح ہم بھی اپنی زندگی بنائیں؛ مگرہوتا یہ ہے کہ جب مصائب وغیرہ آتے ہیں تو اس وقت پیغمبروں، اماموں، پیروں، شہیدوں اور فرشتوں کو پکارا کرتے ہیں انہیں سے مرادیں مانگتے ہیں انہیں کی منتیں مانتے ہیں، اپنی آرزوئیں پوری کرنے کے لیے انہیں پرنذرونیاز چڑھاتے ہیں اور بیماریوں سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو انہیں کی طرف منسوب کرتے ہوئے کسی کا نام عبدالنبی، یاعلی بخش، حسین بخش، یاپیربخش یامدار بخش یاسالاربخش وغیرہ رکھتے ہیں، کوئی کسی کے نام کی چوٹی رکھتا ہے، کوئی کسی کے نام کے کپڑے پہناتا ہے، کوئی کسی کے نام جانور کی قربانی کرتا ہے، کوئی مصیبت کے وقت اللہ کے علاوہ اور کو پکارتا ہے اور کوئی اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھاتا ہے، یہ ایسا ہی ہوا کہ غیرمسلم جو معاملہ اپنے دیوی دیوتاؤں سے کرتے ہیں وہی یہ نام نہاد مسلمان انبیاء، اولیاء، ائمہ، شہداء، ملائکہ اور پریوں سے کرتے ہیں، اس کے باوجود مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا: "وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّاوَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ"۔ (سوسف:۱۰۶) اکثر لوگ اللہ پر ایمان لاکر شرک کرتے ہیں۔ (ترجمہ تھانویؒ) یعنی اکثر ایمان کے دعویدار شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں؛ اگر کوئی ان سے کہے کہ تم دعوے تو ایمان کے کرتے ہو مگر شرک میں مبتلا ہو تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم شرک نہیں کررہے ہیں؛ بلکہ انبیاء واولیاء سے محبت رکھتے ہیں، شرک تو جب ہوگا جب ہم انہیں اللہ کے برابر سمجھیں، ہم تو انہیں اللہ کے بندے اور مخلوق ہی سمجھتے ہیں، اللہ نے انہیں قدرت دی ہے، یہ خدا ہی کی مرضی سے دنیا میں جس طرح چاہتے کرتے رہتے ہیں؛ لہٰذا ان کو پکارنا اللہ ہی کوپکارنا ہوا اور ان سے مددمانگنا اللہ ہی سے مدد مانگنا ہے یہ لوگ اللہ کے پیارے ہیں، جو چاہیں کریں، یہ ہمارے سفارشی اور وکیل ہیں، جتنا ہم انہیں مانیں گے اتنا ہی ہم اللہ کے قریب ہوتے جائیں گے؛ بہرحال یہ اور اس قسم کی واہیات باتیں کرتے ہیں، جن کا واحد سبب یہ ہے کہ یہ قرآن وحدیث چھوڑ بیٹھے ہیں، نقل میں عقل سے کام لیا، جھوٹے افسانوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور غلط رسموں کو دلیل میں پیش کرتے ہیں؛ اگران کے پاس قرآن وحدیث کا علم ہوتا تو ان کو معلوم ہوتا کہ حضور اکرم ﷺ کے سامنے بھی مشرک اسی قسم کی دلیلوں کو پیش کیا کرتے تھے، اللہ پاک کا ان پر غصہ نازل ہوا اور انہیں جھوٹا بتلایا: "وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ مَالَایَضُرُّھُمْ وَلَایَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللہِ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللہَ بِمَالَایَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَافِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّایُشْرِکُوْنَo"۔ (یونس:۱۸) "اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ اُن کو ضرر پہنچاسکیں او رنہ اُن کونفع پہنچاسکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں، آپ کہدیجئے کہ کیا تم خداتعالیٰ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو خداتعالیٰ کو معلوم نہیں نہ آسمان میں اور نہ زمین میں، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کوشرک سے"۔ (ترجمہ تھانویؒ) اَلَا لِلہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَاءَ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى اِنَّ اللہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَکٰذِبٌ کَفَّارٌ" (الزمر:۳) "یادرکھو! عبادت جو کہ خالص ہو اللہ ہی کے لیے سزاوار ہے اور جن لوگوں نے خدا کے سوا اور شرکاء تجویز کررکھے ہیں کہ ہم تو اُن کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنادیں تو ان کے باہمی اختلافات کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کردیگا، اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو راہ پر نہیں لاتا جو جھوٹا اور کافر ہو"۔ (ترجمہ تھانویؒ) "قُلْ مَنْۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّہُوَیُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ"۔ (المؤمنون:۸۸) "آپ یہ بھی کہیے کہ وہ کون ہے جن کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا اختیار ہے اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا اگر تم کو کچھ خبر ہے"۔ (ترجمہ تھانویؒ) ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں کوئی کسی کا ایسا سفارشی نہیں کہ اگر اس کو مانا جائے تو وہ فائدہ پہنچائے اور اگر نہ مانا جائے تو نقصان پہنچائے؛ بلکہ انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی سفارش بھی خدا ہی کے اختیار میں ہے، مصیبت کے وقت ان کو پکارنے اور نہ پکارنے سے کچھ نہیں ہوتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کو اپنا سفارشی سمجھ کر پوجنا شرک ہے۔ حق تو یہ ہے کہ اللہ انسان سے بہت ہی قریب ہے اور وہ براہِ راست (بغیر کسی واسطے کے) سب کی سنتا ہے اور سب کی امیدیں پوری کرتا ہے؛ لیکن مشرکین نے جس طرح بت کو سمجھا کہ یہ اللہ سے قریب کرینگے اور وہ ان کے حمایتی ہیں اسی طرح غیروں کو سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ سے قریب کردینگے اور وہ ان کی امیدوں کو پورا کرینگے اس پر طرّہ یہ کہ غلط اور نامعقول راستہ سے اللہ کا قرب تلاش کیا جاتا ہے اس ٹیڑھی راہ پر جتنا چلیں گے اتنا ہی سیدھی راہ سے دور ہوتے جائینگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیروں کو یہ سمجھ کر پوجنا کہ ان کے پوجنے سے خدا کی نزدیکی مل جائیگی وہ مشرک جھوٹا اور خدا کی نعمت کو ٹھکرادینے والا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو کائنات میں تصرف کرنے کی قدرت نہیں بخشی اور نہ ہی کوئی کسی کا حمایتی ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ عہد رسالت کے مشرک بھی بتوں کو خدا کے برابر نہیں جانتے تھے؛ بلکہ انہیں اسی کے بندے اور مخلوق سمجھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان میں خدائی طاقتیں نہیں ہیں؛ مگرانہیں پکارنا، ان کی منتیں ماننا، ان پر بھینٹ چڑھانا اور انہیں وکیل اور سفارشی سمجھنا ہی ان کا شرک تھا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ جو کوئی کسی سے ایسا ہی برتاؤ کریگا؛ گرچہ انہیں بندہ اور مخلوق ہی جانتا ہو پھر بھی دونوں شرک میں برابر ہیں شرک یہی نہیں ہے کہ کسی کو اللہ کے برابر یا اس کے مقابلے کا مانا جائے بلکہ شرک یہ بھی ہے کہ جو چیز اللہ پاک نے اپنی ذات وصفات کے لیے مخصوص فرمائی ہوں اور بندگی کی علامتیں قرار دی ہوں انہیں غیروں کے آگے بجالایا جائے مثلاً سجدہ، اللہ کے نام کی قربانی، منت، مصیبت کے وقت پکارنا، اللہ کو حاضروناظر سمجھنا، قدرت وتصرف وغیرہ؛ اگر ان میں سے کوئی بات غیراللہ میں ثابت کی جائے تو شرک ہے اس میں شیطان، بھوت، پریت اور پری وغیرہ سب برابر ہیں؛ چنانچہ اللہ پاک نے بت پرستوں کی طرح یہودیوں اور عیسائیوں پر عتاب کیا ہے؛ حالانکہ وہ بت پرست نہیں تھے؛ البتہ علماء اور اولیاء سے ایسا ہی معاملہ رکھتے تھے: "اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَآاُمِرُوْٓا اِلَّالِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًاوَّاحِدًا لَآاِلٰہَ اِلَّاھُوَ سُبْحٰنَہُ عَمَّایُشْرِکُوْنَo"۔ (التوبۃ:۳۱) "انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنارکھا ہے اور مسیح بن مریم کو بھی؛ حالانکہ ان کو صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود کی عبادت کریں، جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ ان کے شرک سے پاک ہے"۔ (ترجمہ تھانویؒ) "اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًاo لَقَدْاَحْصٰھُمْ وَعَدَّھُمْ عَدًّاo وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًاo"۔ (مریم:۹۳/۹۴/۹۵) "جتنے بھی کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب حداتعالیٰ کے روبرو غلام ہوکر حاضر ہوتے ہیں، اس نے سب کو احاطہ کررکھا ہے اور سب کو شمار کررکھا ہے اور قیامت کے روز سب کے سب اس کے پاس تنہا تنہا حاضر ہونگے"۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، نمونہ کے لیے چند آیتیں دی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات اب یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کون کون سی چیزیں اپنی ذات کے لیے مخصوص فرمائی ہیں؛ تاکہ ان میںکسی کو شریک نہ کیا جاسکے، ایسی چیزیں تو بے شمار ہیں ہم یہاں چند چیزیں قرآن وحدیث سے بیان کرینگے تاکہ ان کی مدد سے دوسری باتیں بھی سمجھی جاسکیں: اللہ تعالیٰ کےصفتِ علم میں کسی کو شریک کرنا: یعنی اللہ تعالیٰ کے علم کی طرح کسی اور میں ویسا علم سمجھنا(۱)پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر چیز سے ہروقت با خبر ہے؛ خواہ وہ چیز دور ہو یا قریب، سامنے ہو یاپیچھے، چھپی ہوئی ہو یاکھلی ہوئی، آسمانوں میں ہو یازمینوں میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہو یاسمندر کی تہوؤں میں، اب اگر کوئی اٹھتے بیٹھتے غیراللہ کا نام لے یادور ونزدیک سے اسے پکارے تاکہ وہ اس کی مصیبت کو دور کردے یادشمن پر اس کا نام لیتا ہو یادل میں اس کا تصور آتا ہو یااس کی صورت کا یا اس کی قبر کا دھیان کرتا ہو تو اسے اطلاع ہوجاتی ہے، میری کوئی بات اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور مجھ پر جو حالات آتے ہیں جیسے بیماری وصحت، فراخی وتنگی، موت وحیات اور خوشی وغم اس کو ان سب کی خبر رہتی ہے، جو بات میری زبان سے نکلتی ہے وہ اسے سن لیتا ہے اور میرے دل کے خیالات وتصورّات سے واقف رہتا ہے، ان تمام باتوں سے شرک ثابت ہوتا ہے یہ شرک فی العلم ہے یعنی حق تعالیٰ جیسا علم غیراللہ کے لیے ثابت کرنا، یقینا اس عقیدے سے انسان مشرک ہوجاتا ہے گرچہ یہ عقیدہ کسی بڑے سے بڑے انسان کے بارے میں رکھے یامقرب سے مقرب فرشتے سے متعلق رکھے چاہے ان کا یہ علم ذاتی سمجھے یااللہ تعالیٰ کا عطاکردہ ہرصورت میں شرکیہ عقیدہ ہے۔ ("وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ"الخ،الانعام:۵۹۔ "قُل لَّا یَعْلَمُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ"الخ، النمل:۶۵۔ "إِنَّ اللہَ عِندَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ"الخ، سورہ ٔلقمان:۳۴۔ "وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن یَدْعُو"الخ، احقاف:۵۔ "قُل لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعاً" الخ،اعراف:۱۸۸۔ بخاری، "عن الربیِعِ بِنتِ فمعوِذٍ قالت دخل علی النبِیﷺ غدا بنِی علی"الخ، باب شہودالملائکۃ بدراً، حدیث نمبر:۳۷۰۰ عن ربیع بنت معوذ۔ ترمذی، "عن الشعبِیِ قال لقِی ابن عباس کعبا بِعرفۃ فسأَلہُ عن شیٔ فکبر حتی جاوبتہ الجِبال"الخ، باب ومن والنجم، حدیث نمبر:۳۲۰۰عن ابن عباسؓ، بخاری، "عن أُم العلاِء امرأۃ مِن الأَنصارِ بایعت النبِیﷺ أَخبرتہ أَنہ اقتسِم المہاجِرون"الخ، باب الدخول علی المیت بعدالموت اذا ادرج فی اکفانہ، حدیث نمبر:۱۱۶۶ عن اُم العلاء) اللہ تعالیٰ کےصفتِ تصرف(اختیار) میں کسی کو شریک کرنا یعنی اللہ کی طرح دنیوی امور انجام دینا کسی اور کے اندر مان لینا (۲)کائنات میں ارادے سے تصرف کرنا، حکم چلانا، اپنی مرضی سے مارنا، جلانا، فراخی وتنگی، تندرستی وبیماری، فتح وشکست، ترقی یازوال دینا، مرادیں پوری کرنا، بلائیں ٹالنا، نازک حالات میں دستگیری کرنا اور ضرورت پڑنے پر مدد کرنا، اللہ ہی کی شان ہے کسی غیراللہ کی یہ شان نہیں ،چاہے وہ کتنا ہی بڑا انسان یافرشتہ کیوں نہ ہو، اب اگر کوئی شخص کسی غیراللہ میں ایسا تصرف ثابت کرے، اس سے مرادیں مانگے اور اس غرض سے اس کے نام کی منت مانے یاقربانی کرے اور مشکل حالات میں اسے پکارے تاکہ وہ اس کی بلائیں ٹال دے ایسا شخص مشرک ہے، اس کو شرک فی التصرف کہا جاتا ہے، یعنی اللہ کی طرح تصرف غیراللہ میں مان لینا شرک ہے چاہے یہ ذاتی مانا جائے یااللہ کا عطیہ سمجھا جائے ہرصورت میں یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ ("قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیءٍ" الخ المؤمنون:۸۸/۸۹۔ "قُلْ إِنِّیْ لَاأَمْلِک" الخ الجن:۲۱/۲۲۔ "وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہ"النحل:۷۳۔ "وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللہ" الیونس:۱۰۶۔ "قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُم" الخ سبأ: ۲۲/۲۳۔ ترمذی، "عن ابنِ عباس قال کُنت خلف رسولِ اللہﷺ یوما فقال یاغلامُ إِنی أُعلِّمُکَ" الخ، باب منہ بعد باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض، حدیث نمبر:۲۴۴۰ عن ابن عباسؓ۔ ابن ماجہ "عن عمرِو بنِ العاصِ قال قال رسول اللہﷺ إِن مِن قلبِ ابنِ آدم بِکُلِّ" الخ، باب التوکل والیقین، حدیث نمبر:۴۱۵۶ عن عمرو بن العاصؓ۔ ترمذی، "عن نس قال قال رسول اللہﷺ لِیسأَل أَحدکُم ربہ حاجتہ" الخ، باب لیسأل الحاجۃ مھما صغرت، حدیث نمبر:۳۵۳۶ عن انسؓ۔ مسلم، "عن أَبِی ہریر قال لما أُنزِلت ہذِہِ الآیۃ (وأَنذِر عشِیرتک الأَقربِینَ) دعا رسول اللہﷺ قُریشا" الخ، باب فی قولہ وانذر عشیرتک الاقربین، حدیث نمبر:۳۰۳ عن ابی ھریرۃؓ) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا (۳)اللہ تعالیٰ نے بعض کام اپنی بندگی کے لیے مخصوص فرمادیئے ہیں جن کو عبادات کہا جاتا ہے جیسے سجدہ، رکوع، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، اللہ کے نام پر خیرات کرنا، اس کے نام کا روزہ رکھنا اور اس کے مقدس گھر کی زیارت کے لیے دور دور سے سفر کرکے آنا اور ایسی ہیئت میں آنا کہ لوگ پہچان جائیں کہ یہ زائرین حرم ہیں (یعنی مخصوص لباس وغیرہ کے ساتھ) راستہ میں اللہ تعالیٰ ہی کا نام پکارنا، بیکار باتوں سے، شکار سے بچنا، پوری احتیاط سے جاکر اس کے گھر کا طواف کرنا اسی کی طرف سجدہ کرنا، اسی کی طرف قربانی کے جانور لے جانا، وہاں منتیں ماننا، کعبہ پر غلاف چڑھانا، کعبہ کی چوکھٹ کے آگے کھڑے ہوکر دعائیں مانگنا، دین ودنیا کی بھلائیاں طلب کرنا، حجر اسود چومنا، کعبہ کی دیوار سے منہ ملنا اور چھاتی لگانا، اس کے غلاف پکڑ کر دعائیں مانگنا، اس کے چاروں طرف روشنی کرنا، اس میں خادم بن کر رہنا جھاڑودینا، روشنی کرنا، فرش بچھانا، حاجیوں کو پانی پلانا وضو اور غسل کے لیے پانی مہیا کرنا، آبِ زم زم کو تبرک سمجھ کر پینا، بدن پر ڈالنا، کوکھیں تان کر پینا، آپس میں تقسیم کرنا، عزیزواقارب کے لیے لیجانا، اس کے آس پاس کے جنگل کا ادب واحترام کرنا وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا، گھاس نہ اکھاڑنا، جانور نہ چرانا، اللہ نے اپنی عبادت کے یہ سب کام مسلمانوں کو بتلائے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص نبی، ولی، بھوت، پریت، جن، پری، سچی یاجھوٹی قبر، کسی کے تھان وچلےّ یاکسی کے مکان ونشان، کسی کے تبرک وتابوت کو سجدہ کرے، رکوع کرے، اس کے لیے روزہ رکھے، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے، چڑھاوا چڑھائے، ان کے نام کی چھڑی کھڑی کرے، جاتے وقت الٹے پاؤں چلے، قبر کو چومے، قبروں یاتھانوں کی زیارت کے لیے دور سے سفر کرکے جائے، قبر پرچادر چڑھائے، ان کی چوکھٹ کا بوسہ لے ہاتھ باندھ کر دعائیں مانگے، مرادیں مانگے، مجاور بن کر خدمت کرے، اس کے آس پاس کے جنگل کا ادب کرے؛ غرضیکہ اس قسم کے کام کرے تو اس نے کھلا شرک کیا، اس کو شرک فی العبادت کہتے ہیں یعنی غیراللہ کی تعظیم اللہ کی طرح کرنا چاہے یہ عقیدہ کسی بھی طرح کا ہو کہ وہ ذاتی اعتبار سے اس تعظیم کے لائق ہے، یاخدا ان کی اس طرح تعظیم کرنے سے خوش ہوتا ہے اور اس کی تعظیم کی برکت سے بلائیں ٹل جاتی ہیں، ہرصورت میں شرکیہ عقیدہ ہے۔ ("أَن لاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ اللہَ إِنِّیَ أَخَاف"الخ،الہود:۲۶۔ "فَإِنِ اسْتَکْبَرُوا فَالَّذِیْنَ عِندَ رَبِّک"الخ،فصلت:۳۸۔ "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللہِ أَحَد"الخ،الجن:۱۸/۱۹/۲۰۔ "وَأَذِّن فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوک"الخ،الحج:۲۷/۲۸/۲۹۔ "قُل لاَّ أَجِدُ فِیْ مَا أُوْحِی"الخ،الانعام:۱۴۵۔ ترمذی، "عن أَبِی مِجلزٍ قال خرج معاوِیۃُ فقام عبد اللہ بن الزبیرِ وابن صفوان حِین رأَوہ فقال اجلِسا سمِعت رسول اللہﷺ یقول من سرہٗ أَن یتمثل لہ"الخ، باب ماجاء فی کراھیۃ قیام الرجل للرجل، حدیث نمبر:۲۶۷۹ عن ابی مجلزؓ۔ مسلم، "عن أَبِی الطفیلِ قال سئِل علِی أخصم رسول اللہﷺ بِشی فقال ماخصنا "الخ، باب تحریم الذبح لغیراللہ تعالیٰ ولعن فاعلہ، حدیث نمبر:۳۶۵۹ عن ابی الطفیل۔ مسلم، "عن عائِشۃ قالت سمِعت رسول اللہﷺ یقول لایذہب اللیل" الخ، باب لاتقوم الساعۃ حتی تعبددوس ذاالخلصۃ، حدیث نمبر:۵۱۷۴ عن عائشہؓ۔ مسلم، "سمِعت عبد اللہ بن عمرو وجاء ہ رجل فقال ماہذا الحدِیث الذِی" الخ، باب فی خروج الدجال ومکثہ فی الارض، حدیث نمبر:۵۲۳۳ عن عبداللہ بن عمرؓ۔ بخاری، "عن الزہرِیِ قال قال سعِید بن المسیبِ أَخبرنِی أَبوہریرؓ أَن رسول اللہﷺ قال لاتقوم الساعۃُ حتی"الخ، باب تغییرالزمان حتی تعبدالاوثان، حدیث نمبر:۶۵۸۳ عن ابی ھریرۃؓ) اللہ تعالیٰ کی عادت میں کسی کو شریک کرنا (۴)حق تعالیٰ نے بندوں کو یہ ادب سکھلایا ہے کہ وہ دنیوی کاموں میں اللہ کو یاد رکھیں اور اس کی تعظیم بجالائیں تاکہ ایمان بھی سنور جائے اور کاموں میں برکت بھی ہو جیسے ضرورت پڑنے پر اللہ کی نذر مان لینا اور مشکل کے وقت اسی کو پکارنا اور کام شروع کرتے وقت برکت کے لیے اسی کا نام لینا؛ اگر اولاد ہو تو اس نعمت کے شکریے کے لیے اس کے نام پر جانور ذبح کرنا، اولاد کا نام عبداللہ، عبدالرحمن، اللہ بخش، اللہ دیا، امۃ اللہ اور اللہ دی وغیرہ رکھنا، کھیتی کے پیداوار میں سے تھوڑا سا غلہ اس کے نام کا نکالنا، پھلوں میں سے کچھ پھل اس کے نام نکالنا، جانوروں میں سے کچھ جانور اللہ کے نام مقرر کرنا اور اس کے نام کے جو جانور بیت اللہ کو لیجائیں ان کا ادب واحترام بجالانا یعنی نہ ان پر سوار ہونا نہ ہی ان پر لادنا، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے میں خدا کے حکم پر چلنا، جن چیزوں کے استعمال کا حکم ہے، انہیں استعمال کرنا اور جن کی ممانعت ہے ان سے بازرہنا، دنیا میں گرانی وارزانی، صحت وبیماری، فتح وشکست، ترقی، تنزلی اور رنج ومسرت جو کچھ بھی پیش آتی ہے سب کو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں سمجھنا ۔ ہرکام کا ارادہ کرتے وقت انشاء اللہ کہنا مثلاً یوں کہنا کہ انشاء اللہ ہم فلاں کام کریں گے، خدا کے اسم گرامی کو اس عظمت کے ساتھ لینا جس سے اس کی تعظیم نمایاں ہو اور اپنی غلامی کا اظہار ہوتا ہو جیسے یوں کہنا: ہمارا رب، ہمارا مالک، ہمارا خالق، ہمارا معبود وغیرہ اگر کسی موقع پر قسم کھانے کی ضرورت پڑجائے تو اسی کے نام کی قسم کھانا یہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعظیم ہی کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ اب اگر کوئی اس قسم کی تعظیم غیراللہ کی کرے مثلاً کام رکا ہوا ہو یابگڑ رہا ہو اس کو چالو کرنے یاسنوارنے کے لیے غیراللہ کی نذرمان لی جائے، ایسی ہی اولاد کا نام عبدالنبی، امام بخش، پیربخش، رکھائے، کھیت اور باغ کی پیداوار میں ان کا حصہ رکھا جائے، جب پھل تیار ہو کر آئیں تو پہلے ان کا حصہ الگ کرنے کے بعد اسے استعمال میں لایا جائے، جانوروں میں اس کے نام کے جانور مقرر کردیئے جائیں پھر ان کا ادب واحترام کیا جائے، کھانے پینے، پہننے، اوڑھنے میں اسموں کا خیال رکھا جائے کہ فلاں فلاں لوگ فلاں فلاں کھانا نہ کھائیں، فلاں فلاں کپڑے نہ پہنیں، دنیا کی بھلائی برائی کو انہیں کی طرف منسوب کیا جائے کہ فلاں فلاں ان کی لعنت میں گرفتار ہے پاگل ہوگیا ہے، فلاں محتاج ہے انہیں کا راندہ (دھتکارا) ہوا ہے اور دیکھو فلاں کو انہوں نے نوازا تھا آج سعادت واقبال اس کے پاؤں چوم رہی ہے، فلاں تارے کی وجہ سے قحط آیا، فلاں کام فلاں وقت فلاں دن شروع کیا گیا (مثلاً صفر کا مہینہ، چہارشنبہ کا دن وغیرہ) آخر کار پورا نہ ہوا، یا یہ کہا جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ چاہیں گے تو میں آؤنگا، یاپیر صاحب کی مرضی ہوگی تو ٹھیک ہے، یاگفتگو میں داتا، بے پروا، خداوند، خدائیگاں، مالک الملک، شہنشاہ جیسے الفاظ استعمال کیے جائیں، قسم کی ضرورت پڑجائے تو نبی، علی، امام، پیر یاان کے قبروں کی قسم کھائی جائے، ان تمام باتوں سے شرک پیدا ہوتا ہے اس کو شرک فی العادت کہتے ہیں، یعنی عادت کے کاموں میں اللہ کی طرف غیراللہ کی تعظیم کی جائے۔ (النسا: ۱۱۷/۱۱۸/۱۱۹/۱۲۰۔ "إِن یَدْعُونَ مِن دُونِہِ"الخ۔ "لَّعَنَہُ اللہُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ"الخ۔ "وَلأُضِلَّنَّہُمْ وَلأُمَنِّیَنَّہُمْ"الخ۔ "یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیْہِمْ"۔ الاعراف:۱۸۹/۱۹۰ "ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ"الخ۔ "فَلَمَّا آتَاہُمَا صَالِحاً"الخ۔ الانعام:۱۳۶،۱۳۸ "وَجَعَلُواْ لِلّہِ مِمِّا ذَرَأَ"الخ۔ "وَقَالُواْ ہَـذِہِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ"الخ۔ المائدہ:۱۰۳ "مَاجَعَلَ اللہُ مِن بَحِیْرَۃٍ"الخ۔ النحل:۱۱۶ "وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِب"الخ۔ بخاری، باب یستقبل الامام الناس اذاسلم،حدیث نمبر:۸۰۱ "عن زیدِ بنِ خالِد الجہنِیِ أَنہ قال صلی لنارسول اللہﷺ صلا الصبحِ بِالحدیبِیۃِ"الخ۔ مسلم، باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھانۃ، حدیث نمبر:۴۱۳۷ "عن صفِیۃ عن بعضِ أزواجِ النبِیِﷺ عن النبِیِﷺ قال من أتی عرافا فسألہ عن شیٔ لم تقبل لہ صلاۃٌ أربعِین لیلۃً"الخ۔ مسنداحمد، باب حدیث قبیصۃ بن مخارق،حدیث نمبر:۲۰۶۲۳ "عن زیدِ بنِ ثابِت أن رسول اللہﷺ احتجم فِی المسجِدِ"الخ۔ ابوداؤد، باب فی الطیرۃ، حدیث نمبر:۳۴۱۱،۳۴۲۰ "عن عبدِ اللہ بنِ مسعود عن رسولِ اللہﷺ قال الطِیرۃ شِرکٌ الطِیرۃُ"الخ۔ "عن سعدِ بنِ مالِک أَن رسول اللہﷺ کان یقول لاہامۃ ولاعدو"الخ۔ بخاری، باب لاھامۃ، حدیث نمبر:۵۳۱۶ "عن أبِی ہریرؓ عن النبِیِﷺ قال لاعدو ولاطِیرۃ ولاہامۃ ولاصفر"الخ۔ ابوداؤد، باب فی الجھمیۃ، حدیث نمبر: ۴۱۰۱ "عن جبیرِ بنِ محمدِ بنِ جبیرِ بنِ مطعِم عن أَبِیہِ عن جدِہِ قال أتی رسول اللہﷺ أَعرابِی فقال یارسول اللہ جہِدت الأنفس وضاعت العِیال ونہِکت الأموال"الخ۔ مسلم، باب النھی عن التکنی بابی القاسم، حدیث نمبر:۳۹۷۵ "عن ابنِ عمر قال قال رسول اللہﷺ إِن أَحب أَسمائِمکم إِلی اللہ عبداللہ وعبد الرحمنِ"۔ ابوداؤد، باب فی تغییرالاسم القبیح، حدیث نمبر:۴۳۰۴ "عن أَبِیہِ ہانیٔ أَنہ لماوفد إِلی رسولِ اللہﷺ مع قومِہِ سمِعہم یکنونہ"الخ۔ ابن ماجہ، باب النھی ان یقال ماشاء اللہ وشئت، حدیث نمبر:۲۱۰۹ "عن حذیفۃ بنِ الیمانِ أَن رجلا مِن المسلِمِین رأَی فِی النومِ أَنہ لقِی رجلا مِن أَہلِ الکتابِ"الخ۔ ترمذی، باب ماجاء فی کراھیۃ الحلف بغیراللہ، حدیث نمبر:۱۴۵۵ "أن ابن عمر سمِع رجلا یقول لاوالکعبۃِ فقال ابن عمر لایحلف بِغیرِ اللہ فإِنِی سمِعت رسول اللہﷺ یقول من حلف بِغیرِ اللہ فقد کفر وشرک"۔ بخاری، باب السوال باسماء اللہ تعالیٰ والاستعاذۃ بھا، حدیث نمبر:۶۸۵۲ "عن ابنِ عمرؓ قال قال النبِیﷺ لاتحلِفوا بِآباکئِم ومن کان حالِفا فلیحلِف بِاللہِ"الخ۔ مسلم، باب من حلف باللات والعزیٰ فلیقل لاالہ الااللہ، حدیث نمبر:۳۱۰۸ "عن عبدِ الرحمنِ بنِ سمرۃَ قال قال رسول اللہﷺ لاتحلِفوا بِالطواغِی ولابِآبائِکُم"۔ بخاری، باب کیف یستحلف، حدیث نمبر:۲۴۸۲ "عن عبدِ اللہؓ أَن النبِیﷺ قال من کان حالِفا فلیحلِف بِاللہ أولِیصمت"۔ ابوداؤد، باب مایؤمر بہ من الوفاء بالنذر، حدیث نمبر:۲۸۸۱ "حدثنِی ثابِت بن الضحاک قال نذر رجلٌ علی عہدِ رسولِ اللہﷺ أَن ینحر إِبِلا بِبوانۃ فأَتی"الخ۔ مسنداحمد، باب حدیث السیدۃ عائشۃؓ، حدیث نمبر:۲۴۵۱۵ "عن عائِشۃَ قالت أَیقظنِی تعنِی النبِیﷺ فقال قومِی فأَوتِرِی"۔ ابوداؤد، باب فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر:۱۸۲۸ "عن قیسِ بنِ سعد قال أَتیت الحِیرۃ فرأیتہم یسجدون لِمرزبان لہم فقلت رسول اللہ"الخ۔ مسلم، باب حکم اطلاق لفظۃ العبد والأمۃ، حدیث نمبر:۴۱۷۷ "عن أَبِی ہریرۃؓ أَن رسول اللہﷺ قال لایقولن أَحدکم عبدِی"الخ۔ بخاری، باب قول اللہ واذکر فی الکتب مریم، حدیث نمبر:۳۱۸۹ "عن ابنِ عباس سمِع عمرؓ یقول عل المِنبرِ سمِعت النبِیﷺ یقول لاتطرونِی کماأطرت النصاری"الخ۔ ابوداؤد، باب فی کراھیۃ التمادح، حدیث نمبر:۴۱۷۲ "عن مطرِف قال قال أَبِی انطلقت فِی وفدِ بنِی عامِر إِلی رسولِ اللہﷺ فقلنا أنت سیِدنا فقال السَّیِّدُ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالَی"الخ۔