انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علی بنِ حمود چونکہ مستعین کی چند روزہ حکومت میں اندلس کے تمام صوبے خود مختار ہوگئے۔لہذا یہ رنگ دیکھ کر علی بن حمود نے بھی طنجہ میں خود مختارانہ حکومت شروع کردی اوراپنے آپ کو مستعین کی فرماں برداری سے آزاد کرلیا، خیران نامی والی المیرہ کو اپنا شریک کار بناکر علی بن حمود نے جہازوں کے ذریعے ساحل اندلس پر اپنی فوج اتاردی ،طبخہ میں اپنے بیٹے پر اپنی فوج اتاردی،طبخہ میں اپنے بیٹے یحییٰ کو اپنا قائم مقام بناآیا اورخود واردِ اندلس ہوکر قرطبہ کی جانب مع فوج روانہ ہوا اوریہ مشہور کیا کہ میں خلیفہ ہشام کے خون کا بدلہ لینے آیا ہوں، آخر مالقہ کے میدان میں مستعین نے قرطبہ سے روانہ ہوکر علی بن حمود کا مقابلہ کیا،محرم ۴۰۷ھ میں مستعین کو شکست فاش حاصل ہوئی،علی نے بڑھ کر قرطبہ پر قبضہ کیا اورمستعین کو گرفتار کراکر قتل کرایا اورخود تخت نشین ہوکر حکومت شروع کی،اپنا لقب ’’ناصرلدّین اللہ‘‘ رکھاچونکہ بربری فوج کا اثر غالب تھا اور بر بری لوگ علی بن حمود ے خوش تھے،اس لیے جنگ مالقہ کے بعد علی بن حمود کو کسی قسم کی مخالفت اورپریشانی کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا، علی بن حمود کی سلطنت کا ابتدائی زمانہ تو بہت اچھا ثابت ہوا کیونکہ وہ عدل اورانصاف کی جانب زیادہ مائل نظر آتا تھا مگر بعد میں ا س نے بربری لوگوں کو بھی ناراض ہوگئے، یہ حالت دیکھ کر خیران صقلبی والی المیرہ نے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ،عبدالرحمن بن محمد کو بادشاہ مشہور کیا۔