انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** لشکر اُسامہ کی روانگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چند ماہ پیشتر یمن ونجد کے علاقوں میں اسود ومسیلمہ کے فتنے نمودار ہوچکے تھے، ان ملکوں کے باشندے نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے،ابھی وہ پورے طور پر اسلام اور حقیقت اسلام سے واقف بھی نہ ہونے پائے تھے کہ جھوٹے مدعیانِ نبوت کے شیطانی فتنے نمودار ہوئے اوریہ نو مسلم لوگ ان کے فریب میں آگئے، نجد کی طرف تو وہی کیفیت برپا تھی؛ لیکن وفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر اسود عنسی کا کام تمام ہوچکا تھا،مگر یمن کی طرف ابھی زہریلے اثر اورسامانِ فتن کا بہ کلی استیصال نہیں ہوا تھا،وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر تمام برا عظم عرب میں نہایت سرعت اوربرق رفتاری کے ساتھ پھیل گئی اور پھیلنی چاہئے تھی،اس خبر نے ایک طرف جدید اسلام اورمحتاجِ تعلیم قبیلوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا کردی ،دوسری طرف جھوٹے مدعیان نبوت کے حوصلوں اور ہمتوں میں اضافہ کرکے ان کے کاروبار میں قوت اور ترقی پیدا کردی،ہر ملک اورہر قوم میں واقعہ پسند اور فتنہ پرداز لوگ بھی ہر زمانے میں ہوا ہی کرتے ہیں، اس قسم کے لوگوں کو بھی از سر نو اپنی شرارتوں کے لئے مناسب مواقع میسر آئے شہرت طلب افراد اورحکومت پسند قبائل بھی اپنی مطلق العنانی اور تن آسانیوں کے لئے تدابیر سوچنے لگے،نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف سے ارتداد کی خبریں آنی شروع ہوئیں ،یہ خبریں اس تسلسل اورکثرت سے مدینہ میں آئیں کہ اُن کو سُن سُن کر صحابہ کرام کی آنکھوں کے سامنے مصائب و آلام اور ہموم وغموم کے پہاڑ تھے اوران کے دل و دماغ پر اتنا بوجھ پڑ گیا تھا کہ انہوں نے اگر درس گاہِ نبوی اور آغوش رسالت میں صبر واستقامت کی تعلیم نہ پائی ہوتی تو اُن کی اوراسلام کی بربادی بہ ظاہر یقینی تھی، سوائے مدینہ ،مکہ اور طائف تین مقاموں کے باقی تمام برا اعظم عرب میں فتنہ ارتداد کے شعلے پوری قوت واشتداد کے ساتھ بھڑک اٹھے تھے، ساتھ ہی یہ خبریں بھی پہنچیں کہ مدینہ منورہ پر ہر طرف سے حملوں کی تیاریاں ہورہی ہیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو اپنے مرض الموت میں شام کی جانب رومیوں کے مقابلہ کو لشکر اسلام کے ساتھ روانہ فرمایا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کے روبہ ترقی ہونے کے سبب یہ لشکر رکا ہوا تھا، اب بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اس لشکر کو روانہ کرنا چاہا، توصحابۂ کرام نے حضرت صدیق اکبرؓ سے عرض کیا کہ ایسی حالت میں جب کہ ہر طرف سے ارتداد کی خبریں آرہی ہیں اور مدینے پر حملے ہونے والے ہیں، اس لشکر کی روانگی کو ملتوی کردیا جائے۔صدیق اکبرؓ کے قوتِ ایمان ،قوت ِقلب، ہمت وشجاعت اورحوصلہ واستقامت کا اندازہ کرو کہ انہوں نے سب کو جواب دیا کہ اگر مجھ کو اس بات کا بھی یقین دلا دیا جائے کہ اس لشکر کے روانہ کرنے کے بعد مجھ کو مدینہ میں کوئی درندہ تنہا پاکر پھاڑ ڈالے گا تب بھی میں اس لشکر کی روانگی کو ہرگز ملتوی نہ کروں گا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا؛چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ تمام وہ لوگ جو لشکر اُسامہ میں شامل تھے روانگی کی تیاری کریں اور مدینہ کے باہر لشکر گاہ میں جلد فراہم ہوجائیں ۔ اس حکم کی تعمیل میں صحابہ کرام اُسامہ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے،حضرت اُسامہ کے باپ زید بن حارثؓ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے،اس لئے بعض لوگوں کے دلوں میں اُن کی سرداری سے انقباض تھا،نیز حضرت اُسامہؓ کی عمر اس وقت صرف سترہ سال کی تھی،اس لئے بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ کوئی معمر قریشی سردار مقرر فرمایا جاوے،جب تمام لشکر باہر جمع ہوگیا، تو حضرت اُسامہؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو ( کہ وہ بھی اس لشکر کے ایک سپاہی تھے) حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ بڑے بڑے آدمی سب میرے ساتھ ہیں، آپ ا ن کو واپس بلا لیں اور اپنے پاس رکھیں، کیونکہ مجھ کو اندیشہ ہے کہ مشرکین حملہ کرکے آپ کو اورمسلمانوں کو اذیت پہنچائیں گے، حضرت عمرؓ لشکر گاہ سے سالار لشکر کا پیغام لے کر جب روانہ ہونے لگے تو انصار نے بھی ایک پیغام حضرت عمرؓ کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں روانہ کیا کہ آپ اس لشکر کا سردار کوئی ایسا شخص مقرر فرمائیں،جو اُسامہ ؓ سے زیادہ عمر کا ہو اور شریف النسل ہو، حضرت عمرؓ نے آکر اول حضرت اُسامہؓ کا پیغام عرض کیا،تو حضرت صدیقؓ اکبر نے فرمایا کہ اس لشکر کے روانہ کرنے سے اگر تمام بستی خالی ہوجائے اور میں تن تنہا رہ جاؤں اور درندے مجھ کو اٹھا کر لے جائیں،تب بھی اس لشکر کی روانگی ملتوی نہیں ہوسکتی،پھر انصار کا پیغام سُن کر فرمایا کہ اُن کے دلوں میں ابھی تک فخر و تکبر کا اثر باقی ہے یہ کہہ کر آپ خود اٹھے اور اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے پیدل مدینے سے باہر لشکر گاہ تک تشریف لائے،حضرت اُسامہ کو معہ لشکر رخصت کیا اورخود حضرت اسامہؓ کی رکاب میں باتیں کرتے ہوئے چلے،حضرت اُسامہؓ نے عرض کیا کہ یا تو آپ سوار ہوجائیے یا میں سواری سے اتر کر پیدل ہوجاؤں، آپ نے فرمایا کہ میں سوار نہ ہوں گا اور تم کو سواری سے اترنے کی ضرورت نہیں اور میرا کیا نقصان ہوگا اگر میں تھوڑی دور خدا کی راہ میں بطریق مشایعت تمہاری رکاب میں پیدل چلوں، صدیق اکبرؓ کا یہ طریق عمل انصار کے اس مذکورہ پیغام کا کافی جواب تھا،آپ کو اُسامہؓ کی رکاب میں اس طرح پیدل چلتے ہوئے دیکھ کر تمام لشکر حیران رہ گیا اورسب کے دلوں میں وہ انقباض دور ہوکر اس کی جگہ فرماں برداری اورخلوص کے جذبات پیدا ہوگئے۔