انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** شہر مہدیہ کی بنیاد عبید اللہ مہدی چونکہ شیعہ اسمعیلیہ اورامام مہدی ہونے کا مدعی تھا،لہذا اُس کو ہمیشہ خطرہ رہتا تھا کہ میرے خلاف بغاوت نہ پھوٹ پڑے،کیونکہ افریقہ وقیروان میں تمام آدمی اس کے ہم عقیدہ نہ تھے، اس لئے اس نے مناسب سمجھا کہ کسی مناسب موقع پر ایک شہر آباد کرکے اپنا دارالحکومت بنائے؛چنانچہ ۳۰۳ھ میں اس نے ساحلی علاقہ کا دورہ کرکے سرزمین برکصورہ کے قریب ایک جزیرہ کو پسند کرکے وہاں ایک شہر کی بنیاد رکھی اوراس کا نام مہدیہ تجویز کیا، شہر مہدیہ کی شہر پناہ نہایت مضبوط بنوائی اور دروازوں میں لوہے کے کواڑ لگوائے،۳۰۶ ھ میں اس شہر کی تعمیر تکمیل کو پہنچی اورعبید اللہ مہدی نے ہنس کر کہا کہ آج مجھ کو نبی فاطمہ کی طرف سے اطمینان ہوا کہ اب وہ دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں گے، اسی سال اس نے کشتیاں بنانے کا ایک کارخانہ جاری کیا اور پہلے ہی سال نو سو کشتیاں تیار کراکر ایک زبردست جنگی بیڑہ تیار کیا ۳۰۷ ھ میں اس نے اپنے بیٹے ابو القاسم کو اسکندریہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا،ابو القاسم نے جاتے ہی اسکندریہ اوردریائے نیل کے ڈلٹا پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی،اس کا حال جب بغداد میں خلیفہ مقتدر کو معلوم ہوا تو اُس نے پھر مونس خادم کو فوج دے کر مصر کی جانب روانہ کیا،بہت سی لڑائیوں اور زور آزمائیوں کے بعد مونس کو فتح اور ابو القاسم کو شکست حاصل ہوئی،ابو القاسم ابھی مصر میں لڑہی رہا تھا کہ عبید اللہ نے اُس کی مدد کے لئے اسی کشتیوں کا ایک بیڑہ مہدیہ سے روانہ کیا اس جنگی بیڑہ کے افسر سلیمان خادم اوریعقوب کتامی تھے،ابھی یہ بیڑہ پہنچانہ تھا کہ ابو القاسم شکست خوردہ وہاں سے بھاگا ،اس بیڑہ والوں کو ابو القاسم کے فرار ہونے کی اطلاع نہ ہوئی راستے میں بھی ایک دوسرے سے نہ ملے،ابو القاسم بچا ہوا نکل گیا اوریہ امدادی بیڑہ بڑھا ہوا آگے چلا گیا، وہاں مونس کے بیڑہ سے مقابلہ ہوا،جس میں صرف پچیس کشتیاں تھیں،اس عبیدی بیڑہ کو شکست ہوئی اور سلیمان ویعقوب دونوں گرفتار ہوگئے،کشتیوں کو مونس کی فوج نے آگ لگا کر جلادیا،آدمی سب مقتول ہوئے۔ اگلے سال یعنی ۳۰۸ ھ میں عبید اللہ مہدی نے مضالہ بن حبوس کو ملکِ مراقش پر حملہ کرنے کے لئے مغرب کی جانب روانہ کیا،یحییٰ بن ادریس بن عمرو سے متعدد لڑائیاں ہوئیں، آخر یحییٰ نے عبید اللہ مہدی کی اطاعت قبول کرلی اورعبید اللہ نے موسیٰ بن ابی العافیہ مکناسی کو صوبجات مراقش کانگراں مقرر کردیا، ۳۰۹ھ میں مراقش کے دوسرے صوبے بھی عبیدی حکومت میں شامل کرلئے گئے،فاس کی حکومت یحییٰ کے قبضہ میں تھی،لیکن وہ باج گذار وفرماں بردار بن چکا تھا، اسی سال موسیٰ بن ابی العافیہ نے یحییٰ کی شکایت کی اورعبید اللہ کے حکم سے یحییٰ کو معزول کرکے یہ حصہ ملک بھی حکومت عبیدی میں شامل ہوا، جب اس طرح خاندانِ ادریسیہ کی حکومت کا نام ونشان مٹ گیا تو ادریسی خاندان کے افراد نے ریف اورغمارہ کے علاقے میں پہنچ کر اپنی حکومت قائم کی، انہیں لوگوں میں سے خاندان بنو حمود تھا جو قرطبہ میں بنو امیہ کی حکومت کے بعد قاضی وحکمراں ہوا تھا، جس کا حال اوپر بیان ہوچکا ہے،مضالہ نے مراقش سے فارغ ہوکر سجلماسہ پر چڑھائی کی اوروہاں مدرار مکنا سی کے اہلِ خاندان کو جو دولت عبیدیہ سے منحرف اور برسرِ حکومت تھے قتل کرکے سجلماسہ کی حکومت اپنے چچازاد بھائی کو سپرد کی،مضالہ ایک زبردست سپہ سالار اورعبید اللہ مہدی کی حکومت کو مراقش میں قائم کرنے کا باعث ہوا تھا، اس کی اس ملک گیریوں اور قتل و تشد سے بربریوں کے قبائل زناتہ یکایک برافروخت ہوکر اُٹھ کھڑے ہوئے؛چنانچہ زناتہ اورمضالہ کے درمیان بہت سی لڑائیاں ہوئیں، آخر کار رمضالہ قبائل زناتہ کے ہاتھ سے مارا گیا،اس کے مارے جاتے ہی تمام ملک مراقش میں بغاوت برپا ہوگئی اورتمام ملک مراقش سے مارا گیا،اس کے مارے جاتے ہی تمام ملک مراقش میں بغاوت برپا ہوگئی اورتمام ملک مراقش عبیدیوں کے قبضے سے نکل گیا۔ عبید اللہ نے ۲۱۵ھ میں لشکر کتامہ کے ساتھ اپنے بیٹے ابو القاسم کو مراقش کی طرف روانہ کیا، قبائل زناتہ کا سردار محمد بن خزر ابو القاسم کو آتا ہوا دیکھ کر اپنی فوج کے ساتھ جنوبی ریگستان میں چلا گیا، ابو القاسم شہروں کو فتح کرتا ہوا، مغرب کی طرف بڑھا، شہر جرادہ میں حسن بن ابی العیش کو محصور کرلیا،جو خاندان ادریسی سے تعلق رکھتا تھا،اس محاصرے نے بہت طویل کھینچا اورابو القاسم کو اس شہر کی فتح سے مایوس ہوکر واپس ہونا پڑا، واپسی میں شہر مسیلہ سے بنو کملان کو جو وہاں حکمراں تھے گرفتار کرکے قیروان کی طرف جلا وطن کردیا اور شہر مسیلہ کو دوبارہ تعمیر وآباد کراکر محمدیہ کے نام سے موسوم کیا اوریہاں کی حکومت علی بن حمدون کو عطا کی اورشہر زاب بھی اپسی کی حکومت میں دیا اور مراقش کی عام حکومت ونگرانی موسی بن ابی العافیہ کے سپرد کی،چند روز کے بعد موسیٰ بن ابی العافیہ عبید اللہ مہدی کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے دولتِ امویۂ اندلس کا مطیع ہوگیا اورتمام ملک مراقش میں خلیفہ اندلس کا خطبہ پڑھوادیا۔ یہ سن کر عبید اللہ نے احمد مکناسی کو ایک زبردست فوج دے کر مراقش کی جانب روانہ کیا بہت سی لڑائیاں ہوئیں، آخر موسیٰ بن ابی العافیہ مراقش سے اندلس کی جانب چلا گیا اوراحمد بن بصلین کمناسی مراقش کو پامال کرکے واپس مہدیہ کی جانب چلاگیا۔