انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ (۱)دنیا زراعت کی جگہ ہے اور زراعت کے وقت عیش و آرام میں مشغول ہونا اور فانی لذّتوں میں مبتلا ہونا اپنے آپ کو سرمدی یعنی ہمیشہ کے آرام سے جدا رکھنا ہے ، عقلِ دور اندیش لذّتِ باقیہ مرضیہ کو چھوڑ کر لذّاتِ فانیہ مبغوضہ پر ہرگز فریفتہ نہیں ہوسکتی ۔ (۲)یاد رکھو !ہماری عزت ایمان و معرفت کے ساتھ وابستہ ہے مال و جاہ کے ساتھ نہیں ، تکمیلِ ایمان میں کوشش کرو اور مراتبِ معرفت حاصل کرنے میں جد وجہد کرو ، جتنا بھی اس مقصدِ اعلیٰ میں مشقت جھیلوگے اتنا ہی زیبا اور مستحسن ہے ۔ (۳)جس کے دو دن مساوی گزریں وہ گھاٹے میں ہے ، اپنے اوقات کو وظائف و طاعات میں مصروف رکھو ، اس فرصتِ قلیلہ کو تعمیرِ باطن اور تنویرِ قلب میں لگادو ، تعمیرِ ظاہر تخریب ِ باطن کا سبب ہے اور تخریب ِ ظاہر تعمیرِ باطن کا ، اور ہم بیوقوف لوگ تعمیرِ ظاہر ہی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ، بھلا باطن کی ایسی صورت میں کیا خاک خبر گیری ہوسکےگی ۔ (۴)اتباعِ سنّت میں کوشش کرو ، بدعت اور اہلِ بدعت سے دور رہو ، اور پابندِ شرع صلحاء اور فقراء کی صحبت کی طرف راغب رہو ، جس جگہ خلافِ شرع دیکھو وہاں سے گریزاں اور یکسو ہوجاؤ ۔ (۵)آدابِ نبوی کا خیال نہ رکھنے والے اور سننِ مصطفوی کے چھوڑنے والے کو ہرگز ہرگز عارف خیال نہ کرنا ، اس کے ظاہری تبتل و انقطاع (لوگوں سے الگ تھلگ رہنا)،خوارقِ عادات ، زہد و توکل اور زبانی معارف توحیدی پر شیفتہ اور فریفتہ نہ ہوجانا ۔ (۶)مردِ حق در اصل وہ ہے جو مخلوق کے درمیان نشست و برخواست رکھے ، بیوی بچے رکھتا ہو ، اور پھر ایک لحظہ بھی خدائے عزّوجل سے غافل نہ رہے۔ (۷)انسان کو چاہئے کہ ورع و تقویٰ کو اپنا شعار بنائے اور منہیات میں قدم نہ رکھے ، کیونکہ اس راہِ سلوک میں نواہی سے باز رہنا اوامر کے امتثال سے زیادہ ترقی بخش اور سودمند ہے ۔ (۸)اگر اپنے اہل و عیال کے لئے تجارت یا اس کے مانند کوئی حلال کسب کرے تو وہ مضر نہیں ہے بلکہ مستحسن ہے ، کیونکہ سلف نے اسی کو اختیار کیا ہے ، احادیث میں فضلِ کسب پر بہت کچھ بیان کیا گیا ہے ، اگر کوئی توکل اختیار کرے تو یہ بھی بہتر ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پھر کسی سے طمع نہ رکھے ، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ کھانا کھانے میں اعتدال کا خیال رکھے ۔ (۹)قلّتِ معیشت سے تنگ دل نہ ہو عیش کا زمانہ تو آگے آرہا ہے ، یہاں کی تنگی وہاں کی فراخی کا سبب ہوجائےگی ۔ (۱۰)فقراء اور دینی بھائیوں کی خدمت میں کوتا ہی نہ کی جائے ، صوفیاء کی خدمت آداب کے ساتھ کرے تاکہ ان کی برکات سے بہرہ ور ہو جائے ’’الطّریقۃ کلّھا ادب‘‘کوئی بے ادب خدا رسیدہ نہیں ہوا ۔ (۱۱)طالبانِ حق کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فعل سے خوش و خرم رہیں بلکہ لذّت گیر ہوں (مزہ لیں )، جو کچھ محبوبِ حقیقی کی جانب سے آئے وہ بھی محبوب ہے مصیبت ہو یا نعمت ، تنگی ہو یا خوشحالی ۔ (۱۲)نیک سلوک ، مخلوق کے ساتھ خندہ روئی ، اچھے اخلاق ، اور مخلوق کے معاملات میں نرمی و سہولت کو حق تعالیٰ کی رضامندی کا ذریعہ ، نجات کا سبب ، اور مدارج کی ترقی کا واسطہ سمجھو ۔