انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولتِ مملوکیۂ مصر طبقہ سوم یادولت چراکسہ ملک صالح ھاجی کے بعد ملک طاہر برقوق تخت نشین ہوا،جو غلامان ابوبیہ میں قبیلۂ چرکس سے تعلق رکھتا تھا،چونکہ آئندہ اسی قبیلہ کے لوگ حکومت مصر پر فائز ہوئے اس لئے ملک طاہر برقوق غلامان ایوبیہ کے طبقۂ سوم کا پہلا بادشاہ سمجھا گیا، اس نے ۷۹۲ھ سے ۸۰۱ھ تک نو سال حکومت کی،اس کے بعد ملک ناصر تخت نشین ہوا، ملک ناصر نے چار سال حکومت کی، اس کے زمانے میں تیمور نے مصر کی طرف فوج کشی کی مگر دولتِ مملوکیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا، اسی ملک ناصرنے خانہ کعبہ میں حنفی ،شافعی، مالکی،حنبلی چار مصلے قائم کئے، اوّل اوّل بعض علمائے اسلام نے اس کو بدعت قرار دیا مگر پھر اس کی زیادہ مخالفت نہیں کی،کیونکہ اس کام سے کوئی فتنہ اوررخنہ دین میں پیدا نہیں ہوا،اس کے بعد ملک منصور اورابو النصر شیخ یکے بعد دیگرے بادشاہ ہوئےملک مظفر احمد تخت نشین ہوا،چار مہینے سلطنت کرنے کے بعد خود حکومت سے دست کش ہوا، اُس کی جگہ ملک اشراف ابوالنصر کو بادشاہ بنایا گیا،یہ بہت دین دار اورباخدا شخص تھا، اس کو قرآن مجید سے بہت محبت تھی،اکثر قرآن مجید سنتا رہتا تھا ۸۴۱ھ تک برسر حکومت رہا، اُس کی وفات کے بعد ابو المحاسن عبدالعزیز تخت نشین ہوا مگر تین ہی مہینے کے بعد معزول ہوا، اُس کے بعد ملکابو سعید المروف بہ ملک الظاہر تخت نشین ہوا پندرہ سال کی حکومت کے بعد فوت ہوا، بڑا غریب پرور اورنیک طینت بادشاہ تھا،اس کے بعد ملک منصور عثمان تخت نشین ہوا مگر چند مہینے کے بعد ۸۵۷ ھ میں معزول ہوا۔ اُس کے بعد ملک اشرف ابو النصر تخت نشین ہوکر ۸۶۵ھ تک برسر حکومت رہا اس کے بعد ملک مؤید احمد تخت نشین ہوکر چند روز میں معزول کیا گیا، اس کے بعد ملک ظاہر ابو سعید خوش قدم ۸۶۵ھ سے ۸۹۲ھ تک تخت نشین رہا اوراپنی موت سے مرا،اس کے بعد ملک ظاہر ابو سعید ملیائی تخت نشین ہوکر چند مہینے کے بعد جلاوطن ہوا اورملک ظاہر ابو سعید تمریغا بھی تخت نشین ہوکر دوہی مہینے کے اندر قید کیا گیا، اس کے بعد ملک اشرف ابو النصر بادشاہ بنایا گیا،جس نے ۹۰۲ھ تک حکومت کی، اس کے بعد ملک ابو السعادت تختِ سلطنت پر متمکن ہوا اورڈھائی سال حکومت کرکے مقتول ہوا،اس کے بعد ۹۰۴ھ میں ملک اشرف قالضوہ تخت نشین ہوا مگر گیارہ روز کے بعد گُم ہوگیا اورکہیں پتہ نہ چلا کہ کہاں گیا،اس کے بعد ملک ظاہر ابو سعید قالضوہ ۹۰۶ھ تک حکمراں رہا، اس کے بعد ملک حنبلاط تخت نشین ہوکر ایک ہی سال میں جلا وطن کیا گیا، اس کے بعد ملک عادل ۹۰۷ھ میں تخت نشین ہوا اورساڑھے چار مہینے کے بعد مارا گیا، اس کے بعد ملک عادل ۹۰۷ ھ میں تخت نشین ہوا اورساڑھے چار مہینے کے بعد مارا گیا اس کے بعد ملک اشرف ابو النصر قالضوہ تخت نشین ہوا،اس نے ۹۲۲ھ تک پندرہ سال حکومت کی۔ سلطان سلیم اوّل عثمانی نے مصر پر ۹۲۲ھ میں چڑھائی کی اورملک اشر ف طومان کو جو اسی سال تخت نشین ہوا تھا، شکست دے کر دولتِ چراکسہ کا کاتمہ کردیا اورمصر حکومتِ عثمانیہ میں شامل ہوگیا، اس کے ساتھ خلافتِ عباسیہ کے اس سلسلہ کا بھی جو برائے نام مصر میں قائم تھا کاتمہ ہوگیا،غلامانِ ایوبیہ کے اس تیسرے طبقہ نے جو دولتِ چراکسہ کے نام سے مشہور ہے ۱۳۰ سال حکومت کی،خاندانِ ایوبیہ کے بعد مصر میں مملوکیوں کے تینوں طبقوں کی حکومت دوسو ستر سال تک قائم رہی، ان مملوکیوں کے ابتدائی زمانے میں ہلاکوخان نے بغداد کو برباد کرکے خلافتِ عباسیہ کا سلسلہ بغداد سے مٹادیا تھا مگر چند ہی روز کے بعد جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے ،مصر کے اندر خلفائے عباسیہ کا سلسلہ ان مملوکیوں کے ساتھ شروع ہوگیا، اورمملوکیوں کے خاتمے ۹۲۲ھ تک باقی رہا،مصرکے اندر عباسی خلفا کی حیثیت پیروں اوروظیفہ خواروں سے زیادہ نہ تھی مگر چونکہ تمام عالمِ اسلام میں ان عباسی خلفا کی مذہبی حیثیت مسلم تھی اور وہ پیشوائے مذہب سمجھے جاتے تھے،اس لئے اُن کا وجود مملوکیوں کے لئے بھی مفید تھا کیونکہ تمام مسلمان سلاطین مملوکیوں کو خادم خلفاء سمجھ کر اُن کی مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتے تھے اسی طرح عباسی خلفا کے لئے مملوکیوں کو خادم خلفاء سمجھ کر اُن کی مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتے تھے اسی طرح عباسی خلفا کے لئے مملوکیوں کا وجود غنیمت تھا کہ وہ اُن کی حکومت میں بے غمی اورراحت کےساتھ زندگی بسر کرہے تھے۔ خلفالء مصر کا تذکرہ ممجل طور پر اوپر بھی آچکا ہے اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُن خلفاء کی ایک فہرست ذیل میں درج کردی جائے جو مصر میں ہوئے ہیں تاکہ یہ بھی اندازہ ہوسکے کہ مصر کے کس بادشاہ کے زمانے میں کونسا عباسی خلیفہ مصر میں موجود تھا، یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کی تخت نشینی پر عباسی خلیفہ سے تخت نشینی کی سند حاصل کرنی پڑتی تھی،اسی طرح ایک خلیفہ کے فوت ہونے پر دوسرے خلیفہ کی تخت نشینی کی سند حاصل کرنی پڑتی تھی، اسی طرح ایک خلیفہ کے فوت ہونے پر دوسرے خلیفہ کی تخت نشینی میں شاہانِ مصر کو بہت کچھ دخل وتصرف حاصل تھا،تاہم کبھی کبھی خلفاء کو مصر کے اندر ایسی شوکت واہمیت بھی حاصل ہوجاتی تھی کہ شاہِ مصر مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتا تھا، خلفا اورشاہانِ مصر میں کبھی کبھی ناچاقی و ناراضی بھی پیدا ہوجاتی تھی،خلیفہ کو عام مسلمانوں کی ہمدردی پر اعتماد ہوتا تھا تو شاہ مصر کو اپنی شاہی طاقت وسطوت پر گھمنڈ تھا، بہر حال سلطان سلیم عثمانی نے اس کشمکش کو مٹا کر سلطنت وخلافت دونوں چیزوں کو اپنے وجود میں مجتمع کرلیا اورپونے تین سال کے بع خلیفۂ اسلام کی حیثیت ایک پیر یا سجادہ نشین سے تبدیل ہوکر اپنی اصلی حالت یعنی جامہ شہنشاہی میں نمودار ہوئی۔