انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نام،نسب،خاندان عبداللہ نام،ابوموسیٰ کنیت ،والد کانام قیس اوروالدہ کانام طیبہ تھا،سلسلہ نسب یہ ہے: عبداللہ بن قیس بن سلیم بن حضار بن حرب بن عامر بن عنزبن بکربن عامر بن عذربن وائل بن ناجیہ بن الجماہر بن لاشعر بن اددبن زید بن یشجب۔ حضرت ابوموسیٰ ؓ یمن کے رہنے والے تھے، ان کاخاندان قبیلہ اشعر سے تعلق رکھتا تھا،اسی کے انتساب سے وہ اشعری مشہور ہوئے اور ان کی والدہ طیبہ بنت وہب قبیلہ عک سے تعلق رکھتی تھیں، وہ اپنے صاحبزادہ کی ہدایت سے ایمان لائیں اورمدینہ پہنچ کر وفات پائی۔ (اسد الغابہ:۲/۲۴۵) اسلام ساقیِ توحید کے صلائے عام پر نزدیک والوں نے اپنے کان بند کرلیے تھے، لیکن حق کے متلاشی دور دراز ممالک سے دشوار گذار منزلیں طے کرکے آتے تھے اوراپنی پیاس بجھاتے تھے،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ یمن سے چل کر مکہ آئے اور بادۂ اسلام کے ایک ہی جام میں سرشار ہوگئے ،وہ مکہ میں قبیلہ عبد شمس سے حلیفانہ تعلق پیدا کرکے پھر اپنے وطن آئے(ایضاً) کہ اپنے اعزہ اوراحباب کو بھی یہ خوشخبری سنائیں۔ ہجرت حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ خاندان کے ایک ذی اثر رئیس تھے، اس لیے ان کی دعوتِ حق نے بہت جلد قبولیت عام حاصل کرلی اوروہ تقریبا ًبچاس حلقہ بگوشان اسلام کی ایک جماعت لے کر بحری راستہ سے بارگاہِ نبوت ﷺ کی طرف چل کھڑے، لیکن طوفان وبادِ مخالف نے اس کشتی کو حجاز کے بجائے حبش پہنچادیا، حضرت جعفر ؓ اوردوسرے ستم زدگانِ اسلام جو یہاں ہجرت کرکے آئے تھے اوراب تک موجود تھے،مدینہ منورہ کے قصد سے روانہ ہوئے تو حضرت ابوموسیٰ ؓ بھی اس قافلہ میں شریک ہوگئے اور عین اس وقت مدینہ پہنچے جب کہ مجاہدین اسلام خیبر فتح کرکے واپس آرہے تھے، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوموسیٰ ؓ اوران کی تمام جماعت کو بھی خیبر کے مالِ غنیمت میں حصہ مرحمت فرمایا۔ (بخاری:۲/۶۰۸) غزوات حضرت ابوموسی ؓ فتح مکہ اورغزوۂ حنین میں شریک تھے، بنو ہوازن رزمگاہ حنین سے بھاگ کر وادیِ اوطاس میں پھر مجتمع ہونے لگے تو آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو عامرؓ کو ایک جمعیت کے ساتھ ان کے استیصالِ کامل پر مامور فرمایا، انہوں نے اوطاس پہنچ کر بنو ہوازن کے سردار ورید بن الصمہ کو قتل کیا اورخدانے اس کے ساتھیوں کو شکست فاش دی،لیکن اتفاقاً حشمی نام ایک مشرک کے تیرنے ان کو بھی زخمی کردیا، حضرت ابوموسیٰ ؓ اس مہم میں شریک تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے بڑھ کر اُن سے پوچھا،یا عم! کس نے آپ کو زخمی کیا؟ انہوں نے اشارہ سے بتایا تو میں اس پرجھپٹ پڑا،وہ مجھ کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا؛ لیکن میں تعاقب کرتا جاتا تھا اورکہتا جاتا تھا کیا تجھے شرم نہیں آتی؟ کیا تو ثابت قدم نہ رہے گا؟ غرض وہ ان غیرت انگیز جملوں سے جوش میں آکر پلٹ پڑا اورتلوار کے دو دوہاتھ چلنے لگے،یہاں تک کہ میں نے اس کو قتل کیا اورابو عامر کو آکر بشارت دی کہ خدانے آپ کے دشمن کو مارڈالا۔ حضرت ابوعامرؓ کازخم نہایت مہلک تھا، انہوں نے حالتِ نزع میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو اپنا جانشین بنایا اورکہا،جانِ برادر! رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کرنا اورکہنا کہ میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں، اس وصیت کے تھوڑی دیر بعد روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی،حضرت ابوموسیٰ اشعر ؓ نے ان کو سپرد خاک کرکے فوج کو مراجعت کاحکم دیا اوربارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر میدانِ جنگ کی کیفیت اورحضرت ابوعامر ؓ کی وصیت بیان کی،سرورِکائنات ﷺ نے اسی وقت پانی مانگ کر وضو فرمایا، پھر دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا کی اے خدا! ابوعامرؓ کو بخش دے،اے خدا تو اس کو قیامت کے روز اپنی بہت سی مخلوق پر تفوق عطا فرما، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے لیے بھی، فرمایا خدایا عبداللہ ابن قیس کی خطائیں بخش دے اورقیامت کے دن اس کا باعزت داخلہ فرما۔ (بخاری :۲/۶۹۹) ۹ھ میں غزوۂ تبوک کا اہتمام شروع ہوا تو حضرت ابوموسیٰ ؓ کو ان کے ساتھیوں نے بھیجا کہ دربارِ نبوت ﷺ سے ان کے لیے سواریوں کا انتظام کریں،اتفاق سے آنحضرت ﷺ اس وقت حالتِ غیظ میں تھے،لیکن حضرت ابوموسیٰ ؓ اس کا اندازہ نہ کرسکے اورعرض کیا یارسول اللہ میرے ساتھیوں نے مجھ کو بھیجا ہے کہ حضور ان کو سواریاں مرحمت فرمائیں ،آنحضرت ﷺ غصہ میں بیٹھے ہی تھے برہم ہوکر فرمایا واللہ ! تمہیں کوئی سواری نہ دوں گا، حضرت ابوموسیٰ ؓ کچھ اپنی محرومی اورکچھ اس خوف سے کہ شاید رسول خدا ﷺ ان سے ناراض ہیں نہایت غمزدہ واپس آکر اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع دی،لیکن وہ ابھی اچھی طرح کھڑے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ حضرت بلال ؓ پکارتے ہوئے آئے،عبداللہ بن قیس کہاں ہو؟چلو رسولِ خدا ﷺ یاد فرماتے ہیں وہ ان کے ساتھ پھر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دوساتھ بندے ہوئے اونٹوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ان کو اپنے ساتھیوں کے پاس لے جاؤ، حضرت ابو موسیٰ ؓ ان کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئے اور کہا کہ رسول خدا ﷺ نے یہ دواونٹ تمہاری سواری کے لیے مرحمت فرمائے ہیں،لیکن خدا کی قسم چند آدمیوں کو میرے ساتھ کسی ایسے شخص کے پاس چلنا ہوگا جس نے رسول اللہ ﷺ کی گفتگو سنی تھی، تاکہ یہ نہ خیال کرو کہ میں نے پہلے جو کچھ کہا تھا وہ دل سے گھڑ کرکہا تھا، لوگوں نے کہا خدا کی قسم ہم آپ کو سچا سمجھتے ہیں،آیندہ جو آپ کی خوشی ہو، غرض انہوں نے چند آدمیوں کو ساتھ لے جاکر لوگوں سے تمام واقعہ کی تصدیق کرادی۔ (بخاری :۲/۶۳۳) ولایت یمن تبوک سے واپس آنے کے بعد ایک روز دواشعری بزرگ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو اپنے ساتھ لے کر دربارِ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئے اورآنحضرت ﷺ سے کسی عہدہ کی خواہش کی، آپﷺ مسواک فرمارہے تھے، اس سوال پر دفعۃ مسواک رک گئی اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا، ابوموسیٰ !ابوموسیٰ ؓ ! انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ میں ان کے دل کے حال سے آگاہ نہ تھا اورنہ یہ جانتا تھا کہ وہ کس عہدہ کی خواہش کریں گے،ارشاد ہوا کہ جو کوئی خود سے کسی عہدہ کی خواہش کرے گا اس کو ہرگز اس پر مامور نہ کروں گا، لیکن ابو موسیٰ تم یمن جاؤ میں نے تم کو وہاں کا عامل مقرر کیا۔ یمن دوحصوں پر منقسم تھا ،ایک ا قصائے یمن جس میں جند اورعدن وغیرہ کے اضلاع شامل تھے اوردوسرا یمن ادنی یا زیریں یمن، اول الذکر پرحضرت معاذ بن جبل ؓ کا تقرر ہوا، اوردوسرے پر حضرت ابوموسیٰ اشعری مامور ہوئے ،آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو رخصت کرتے ہوئے حسب ذیل نصیحت فرمائی: یسراولاتعسرا وابشراولاتنفرواتطاوعا یعنی ملک والوں سے نرمی کے ساتھ پیش آنا سختی نہ کرنا،لوگوں کو خوش رکھنا، متنفر نہ کردینا اورباہم میل جول سے رہنا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارے ملک میں جو سے ایک قسم کی شراب بنائی جاتی ہے اس کو "مزر" کہتے ہیں نیز شہد سے ایک طرح کی شراب ہوتی ہے جو "تبع" کے نام سے مشہور ہے، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ ‘ہر وہ چیز جو نشہ لائے حرام ہے۔ (بخاری کتاب المغازی) حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ چونکہ اپنے وطن میں گورنر ہوکر آئے تھے جہاں پہلے سے ان کا اثر موجود تھا، اس لیے قدرۃ انہوں نے اپنے خدمات نہایت کامیابی کے ساتھ انجام دیئے، حضرت معاذبن جبل ؓ سے دوستانہ تعلقات ومراسم کا سلسلہ بھی قائم تھا،بسااوقات یہ دونوں بزرگ سرحد پرآکر فروکش ہوتے اورباہم ملاقات کرکے تبادلۂ خیالات فرماتے تھے، ایک مرتبہ حضرت معاذبن جبل ؓحضرت ابوموسیٰ ؓ کی ملاقات کے لیے تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے پاس لوگوں کا ہجوم ہے اورایک شخص کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہیں، انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ"عبداللہ بن قیس ! یہ کون ہے؟ بولے"یہ مرتد ہوگیا ہے" انہوں نے اس کے قتل کا مشورہ دیا، حضرت ابو موسیٰ نے کہا کہ "یہ گرفتار ہوکر آیا ہے،آپ گھوڑے سے اتر آئیے بولے جب تک وہ قتل نہ ہوگا میں نہ اتروں گا" حضرت ابوموسیٰ ؓ نے اسکے قتل کا حکم دیا تو وہ اتر کر اندر آئے اور دیر تک دوستانہ صحبت قائم رہی، حضرت معاذ ؓ نے پوچھا کہ آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں ،بولے کہ رات دن میں جب موقع مل جاتا ہے تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھ لیتا ہوں، پھر پوچھا کہ آپ کس طرح تلاوت کرتے ہیں؟ بولے کہ میں رات کو ایک نیند سوکر اُٹھ بیٹھتا ہوں اوراس وقت خدا کو جس قدر منظور ہوتا ہے پڑھ لیتا ہوں۔ (بخاری باب بعث ابی موسیٰ ومعاذ الی الیمن) حجۃ الوداع میں شرکت ۱۰ھ میں آنحضرت ﷺ نے آخری حج فرمایا، حضرت ابوموسی ؓ یمن سے شرکت کے لیے آئے،آنحضرت ﷺ نے پوچھا،عبداللہ بن قیس !کیا تم حج کے ارادے سے آئے ہو؟ عرض کیا ہاں !یا رسول اللہ، فرمایانیت کیاتھی؟ بولے میں نے کہا تھا کہ جو رسول اللہ کی نیت ہے وہی میری نیت ہے، ارشاد ہوا کہ قربانی اپنے ساتھ لائے ہو؟ عرض کیا ،نہیں ،حکم ہوا کہ تم طواف اورسعی کرکے احرام کھول دو ،یہ اس وجہ سے کہ حج قران کی صورت میں قربانی لانا ضروری تھا۔ (بخاری:۲/۶۲۴) یمن میں فتنہ وفساد حضرت ابوموسیٰ ؓ حج سے فارغ ہوکر پھر یمن واپس آئے،لیکن یہاں اسود عنسی کے ادعائے نبوت نے بہت جلد تمام ملک میں شورش وبغاوت پھیلادی،یہاں تک کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ حضر ابوموسیٰ اشعری ؓ کے مرکز حکومت"مارب" چلے آنے پر مجبور ہوئے،لیکن یہ بھی زیادہ دنوں تک محفوظ نہ رہ سکا اوربلآخر ان دونوں کو حضرموت میں پناہ لینی پڑی۔ (تاریخ طبری :۱۸۵۴) گوابن مکتوح مرادی کی تلوار نے بہت جلد اسود عنسی کا قصہ تمام کردیا، تاہم آنحضرت ﷺ کی وفات سے دفعۃ پھر ارتدادوسرکشی کی آگ بھڑک اٹھی، لیکن خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک زبردست مہم بھیج کر از سرنو تسلط قائم کردیا اور اس طرح یمن کے امراء اورحکام پھر اپنے اپنے عہدوں پر واپس آگئے،حضرت ابوموسیٰ ؓ بھی حضرت موت سے اپنے دارلحکومت "مارب" واپس آئے اورخلیفہ دوم کی ابتدائے خلافت تک نہایت تدبروجانفشانی کے ساتھ گورنری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ فتح نصیبین حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں جب بیرونی فتوحات کا زیادہ وسیع پیمانہ پر انتظام کیا گیا اورحضرت سعد وقاص ؓ کی زیر قیادت رزمگاہِ عراق کی طرف ایک بہت بڑی مہم روانہ ہوئی توحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بھی شوقِ جہاد میں عہدہ امارت سے مستعفی ہوکر اس فوج کشی میں شریک ہوئے۔ عراق کا اکثر حصہ فتح کرلینے کے بعد حضرت سعد وقاص ؓ نے ۱۷ھ میں دریائے دجلہ اورفرات کے درمیانی علاقہ یعنی الجزیرہ پر ایک عام فوج کشی کا اہتمام کیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ کو نصیبین کی فتح پر مامور کیا، انہوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ مہم سرانجام دی۔ (طبری :۲۵۰۶) ولایتِ بصرہ اسی سال دربارِ خلافت نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو معزول کرکے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو بصرہ کا والی مقرر کیا اس موقع پر اہل بصرہ کے نام جو فرمان آیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔ اما بعد فانی قد بعثت اباموسیٰ امیرا علیکم لیاخذ لضعیفکم من قویکم ولیقاتل بکم عدوکم ولیدفع عن ذمتکم ولیحصی لکم فلیئکم ثم لیقسمہ بینکم ولینقی لکم طرقکم میں نے ابوموسیٰ کو تم پر امیر بناکر بھیجا ہے تاکہ قوی سے کمزور کا حق دلائیں،تمہارے دشمنوں سے لڑیں، ذمیوں کی حفاظت کریں، تمہاری آمدنی کا تم کو حساب دیں، پھر اس کو تم میں تقسیم کریں اور تمہارے راستوں کو تمہارے لیے صاف رکھیں۔ فتح خوزستان بصرہ کی سرحد خوزستان سے ملی ہوئی تھی اور وہ اب تک ایرانیوں کے قبضہ میں تھا،۱۶ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے اس کو فتح کرنے کے خیال سے اہواز پر فوج کشی کی تو یہاں کے رئیس نے ایک قلیل سی رقم دے کر صلح کرلی اورحضرت مغیرہ ؓ وہیں رک گئے، ۱۷ھ میں ان کی جگہ پر حضرت ابوموسیٰ ؓ آئے، اس انقلاب میں اہواز کے رئیس نے سالانہ رقم بند کردی اور علانیہ بغاوت کا اظہار کیا،مجبورا ًانہوں نے لشکر کشی کی اور ہواز کو فتح کرکے مناذر کا رخ کیا، یہ ایک نہایت مستحکم مقام تھا،حضرت مہاجربن زیاد ؓ جو ایک معزز افسر تھے،یہاں ایک معرکہ میں شہید ہوئے اورقلعہ والوں نے ان کا سرکاٹ کر برج کے کنگرہ پر لٹکادیا۔ حضرت ابوموسیٰ حضرت مہاجر ؓ کے بھائی ربیع کو اس کے محاصرہ پر چھوڑ کر سوس کی طرف بڑھے، ربیع نے مناذر کو سرکرلیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ نے سوس کا محاصرہ کرکے ہر طرف سے رسد بند کردی، قلعہ میں کھانے پینے کا سامان ختم ہوچکا تھا، مجبوراً رئیس شہر نے اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ اس کے خاندان کے سو آدمی چھوڑدیئے جائیں، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے منظور کیا،رئیس نے ایک ایک کرکے سو آدمیوں کو پیش کیا اوروہ سب چھوڑ دیئے گئے ،لیکن بد قسمتی سے اس نے شمار میں خود اپنا نام نہیں لیا، چنانچہ جب سو آدمیوں کی تعداد پوری ہوگئی تو انہوں نے رئیس کو جوشمارے سے باہر تھا قتل کرادیا۔ سوس کے بعد رامہرمز کا محاصرہ ہوا اورآٹھ لاکھ درہم سالانہ پر صلح ہوگئی یزدگرد نوجوان شہنشاہِ ایران اس وقت قم میں مقیم تھا، اس کو حضرت ابوموسیٰ ؓ کی فتوحات کی خبریں پہنچیں تو اس نے اپنے ماموں ہرمزان کو خوزستان کی حفاظت کے لیے بھیجا،ہرمزان نے شوستر پہنچ کر اس کو مستحکم کیا اورتمام ملک میں جوش پیدا کرکے اپنے گرد ایک بہت بڑی فوج جمع کرلی،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے ان حالات سے درباِ خلافت کو مطلع کیا اورمدد کی درخواست کی وہاں سے حضرت عماربن یاسر ؓ کے نام جو کوفہ کے گورنر تھے، حکم آیا کہ نعمان بن مقرن کو ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ مدد کو بھیجیں، لیکن غنیم کی کثرت اورسروسامان کے مقابلہ میں یہ معیت بیکار تھی، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے دوبارہ لکھا جس کے جواب میں حضرت عمار بن یاسر ؓ کوفہ سے ایک بڑی فوج لے کر آئے اوردوسری طرف جریز بجلی ایک جرار لے کر جلولاء پر حملہ آور ہوئے، غرض حضرت ابوموسیٰ ؓ نے اس سروسامان سے شوسترکا رخ کیا اورشہر کے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈالے،ہرمزان نے خود قلعہ سے باہر نکل کر مقابلہ کیا اورشکست کھا کر پھر قلعہ بند ہوگیا۔ شوسترنہایت مستحکم مقام تھا، اس کی تسخیر کے متعلق حضرت ابوموسیٰ ؓ کی تمام کوششیں بے نتیجہ رہیں، لیکن خدانے غیب سے سامان پیدا کردیا، ایک دن شہر کا ایک آدمی چھپ کر ان کے پاس آیا اورکہا کہ اگر میری جان و مال کو امن دیا جائے تو میں شہر پر قبضہ کرادوں، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے منظور کیا،اس نے ایک عرب کو جس کا نام اشرس تھا،ساتھ لیا،اورنہروجیل سے گذر کر ایک تہ خانہ کی راہ لی خاص شہر میں داخل ہوا، اشرس کے منہ پر چادر ڈال دی اورکہا کہ نوکر کی طرح میرے پیچھے چلے آؤ؛ چنانچہ شہر کے گلی کوچوں سے گذرتا ہوا خاص ہرمزان کے محل میں آیا، شہری نے ان کو تمام عمارات کی سیر کرائی اورموقع کے نشیب وفراز دیکھا کر،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا،ا شرس نے تفصیل کے ساتھ تمام کیفیت بیان کی اورکہا کہ دوسوجانباز میرے ساتھ ہوں تو شہر فوراً فتح ہوجائے ،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے فوج کی طرف دیکھا دوسو بہادروں نے بڑھ کر کہا خدا کی راہ میں ہماری جان حاضر ہے،اشرس ان کو لے کر اسی تہ خانہ کی راہ شہر میں داخل ہوئے اورپہرہ والوں کو تہ تیغ کرکے اندر کی طرف سے دروازے کھول دیئے ادھر حضرت ابوموسیٰ اشعرؓ تمام فوج کے ساتھ موقع پر موجود تھے،دروازہ کھلنے کے ساتھ تمام لشکر ٹوٹ پڑا اورشہر میں ہلچل پڑگئی، ہرمزان نے بھاگ کر قلعہ میں پناہ لی ،مسلمان قلعہ کے نیچے پہنچے تو اس نے برج پر چڑھ کر کہا میرے ترکش میں اب تک سو تیر ہیں اورجب تک اتنی ہی لاشیں یہاں نہ ڈھیر ہوجائیں میں گرفتار نہیں ہوسکتا،تاہم میں اس شرط پر اترآتا ہوں کہ تم مجھ کو مدینہ پہنچا دو اورجو کچھ فیصلہ ہو عمرؓ کے ہاتھ سے ہو، حضرت ابوموسی ؓ نے منظور کیا اوراس کو حضرت انس ؓ کے ساتھ مدینہ بھیجدیا۔ (طبری:۲۵۵۵) شوستر کے بعد جندی سابورپر حملہ ہوا اس کا کئی دن تک محاصرہ رہا، ایک دن شہر والوں نے خود شہر کے دروازے کھول دیئے اورنہایت اطمینان کے ساتھ تمام لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے، مسلمانوں کو ان کے اطمینان پر تعجب ہوا،سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر امن دے چکے اب کیا جھگڑا رہا، سب کو حیرت ہوئی کہ امن کس نے دیا؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے فرمایا کہ ایک غلام کی خودرائی حجت نہیں ہوسکتی، شہروالے کہتے تھے کہ ہم آزاد اورغلام نہیں جانتے،بالآخر دربارخلافت سے استصواب کیا گیا تو حکم ہوا کہ مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دے دی تمام مسلمان امان دے چکے،(طبری: ۲۵۶۸) اس شہر کی فتح نے تمام خوزستان میں اسلام کا سکہ بٹھادیا اوراس طرح نہ صرف فتوحات کی فہرست میں ایک نئے ملک کا اضافہ ہوا، بلکہ بصرہ جہاں حضرت ابوموسیٰ ؓ عہدہِ امارت پر سرفراز ہوئے تھے، دشمنوں سے بالکل محفوظ ہوگیا۔ معرکہ ٔنہاوند خوزستان کی شکست سے متاثر ہوکر۲۱ھ میں ایرانیوں نے نہاوند میں ایک آخری اورفیصلہ کن جنگ کی تیاریاں کیں، حضرت عمرؓ نے نعمان بن مقرن کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے روانہ فرمایا اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو لکھاکہ بصرہ سے ان کو مدد پہنچائیں ،چنانچہ وہ ایک بڑی جماعت کے ساتھ خود کمک لے کر گئے اورنہاوند فتح کرکے واپس آئے۔ (طبری:۲۶۰۱) تبادلہ بصرہ کی کثرتِ آبادی کے لحاظ سے اس صوبہ کا رقبہ نہایت مختصر تھا،اس بنا پر اہلِ بصرہ نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کی وساطت سے دربارِ خلافت میں یہ درخواست پیش کی کہ خوزستان کے مفتوحہ علاقہ میں سے رامہرمز،ابذح اورماہ یا ماسپند ان کے اضلاع بصرہ سے ملحق کردیئے جائیں؛ لیکن اہل کوفہ اس علاوقہ کی فتح میں برابر کے شریک تھے،انہوں نے اس پرصدائے احتجاج بلند کی اورحضرت عمار بن یاسر ؓ والی کوفہ سے درخواست کی کہ وہ اس علاقہ کو کوفہ میں شامل کرنے کی کوشش کریں،لیکن حضرت عمارؓ نے اس معاملہ میں بالکل غیر جانب داری اختیار کرلی اورفرمایا کہ مجھے ان جھگڑوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ غرض حضرت ابوموسیٰ ؓ کی تحریک پر یہ اضلاع بصرہ سے ملحق کردیئے گئے اوراہل کوفہ نے حضرت عمار بن یاسر ؓ سے ناخوش ہوکر مسلسل شکایتوں کے بعد ان کو معزول کرادیا، حضرت عمرؓ نے کوفہ والوں سے پوچھا کہ تم کس کو اپنا والی بنانا چاہتے ہو؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے جس خوش اسلوبی کے ساتھ بصرہ والوں کی حمایت کی تھی ،اس کے لحاظ سے انہوں نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کا نام لیا، چنانچہ وہ ان کی درخواست پر ۲۲ھ میں بصرہ سے کوفہ تبدیل کردیئے گئے،لیکن ایک ہی سال کے بعد یعنی ۲۳ھ میں پھر بصرہ منتقل کئے گئے۔ (تاریخ طبری:۲۶۷۸) الزام اسی سال ضبہ نامی ایک شخص نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کے خلاف دربارِ خلافت میں حسب ذیل شکایتیں پیش کیں۔ (۱)ابوموسیٰ ؓ نے اسیرانِ جنگ میں سے ساٹھ رئیس زادے چھانٹ کر اپنے لیے رکھے ہیں۔ (۲)انہوں نے عنانِ حکومت زیاد بن سمیہ کو سپرد کردی ہے اوروہی سیاہ سپید کا مالک ہے۔ (۳)انہوں نے حطیہ شاعر کو ایک ہزار انعام دیا ہے۔ (۴)عقیلہ نامی ان کی ایک لونڈی ہے جس کو دونوں وقت نہایت عمدہ غذائیں بہم پہنچائی جاتی ہیں ،حالانکہ اس قسم کی غذا عام مسلمانوں کو میسر نہیں۔ حضرت عمرؓ نے ان شکایتوں کو اپنے ہاتھ سے قلمبند کیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ کو دارالخلافہ طلب کرکے باضابطہ تحقیقات کی،چنانچہ پہلاالزام غلط ثابت ہوا،دوسرے الزام کا انہوں نے یہ جواب دیا کہ زیاد صاحبِ تدبیر وسیاست ہے، اس لیے میں نے اس کو اپنا مشیر کار بنایا ہے،حضرت عمرؓ نے زیاد کو بلاکر کے امتحان لیا تو حقیقت میں قابل آدمی تھا،اس لیے انہوں نے خود حکام بصرہ کو ہدایت کی کہ زیاد کو مشیر کاربنائیں، تیسرے الزام کے جواب میں حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہاکہ حطیہ کو میں نے اپنے جیب خاص سے انعام دیا ہے کہ وہ ہجو نہ کہے،لیکن چوتھے الزام کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے، حضرت عمرؓ نے معمولی فہمائش کے بعد ان کو رخصت کردیا۔ (تاریخ طبری:۲۷۱۱) فتح اصفہان حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے اسی سال یعنی ۲۳ھ میں اصفہان پر فوج کشی کی اوراس کو فتح کرکے اسلامی ممالک محروسہ میں داخل کردیا۔ (تاریخ طبری:۲۷۱۳) اصفہان فتح کرکے واپس آئے تو حضرت عمرؓ نے ان کو اسی سال بصرہ سے کوفہ کی گورنری پر منتقل کردیا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی وہ پھر بصرہ تبدیل ہوکر آگئے۔ تعمیر نہر ابی موسیٰ بصرہ میں لوگوں کو پانی کی سخت تکلیف تھی،دربارخلافت میں اس کی شکایت پہنچی تو حکم آیا کہ دریائے دجلہ سے نہر کاٹ کر لائی جائے ،وہ شہر سے تقریباً دس میل دور تھا، لیکن اس کی ایک شاخ صرف چھ میل پر واقع تھی،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے خود مستعد ہوکر اس شاخ سے شہر بصرہ تک ایک نہر بنوائی جو اب تک "نہر ابی موسیٰ" کے نام شے مشہور ہے۔ اخیرذمی الحجہ۲۳ھ میں خلیفہ دوم نے شہادت پائی اورحضرت عثمان ذوالنورین ؓ نے مسند خلافت پر قدم رکھا، اس انقلاب میں عہدِ فاروقی ؓ کے اکثر عمال وحکام ایک ہی سال کے بعد سبکدوش ہوگئے،لیکن حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ۲۹ھ تک بصرہ میں عہدہ امارت کے فرائض انجام دیتے رہے بیان کیا جاتا ہے کہ خود حضرت عمرر ضی اللہ عنہ نے ان کو چارسال تک برقرار رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (تہذیب التہذیب :۵/۳۶۳) معزولی ۲۹ھ میں کردوں نے بغاوت کردی، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے مسجد میں ان کے خلاف جہاد کا وعظ کہا اورراہِ خدا میں پیادہ پا چلنے کے فضائل بیان کئے اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے مجاہدین جن کے پاس گھوڑے موجود تھے،وہ بھی پیادہ پا چلنے پر تیار ہوگئے، لیکن حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے چند مخالفین نے کہا کہ ہم کو جلدی نہ کرنا چاہئے ،دیکھیں ہمارا والی کس شان سے چلتا ہے،غرض صبح کے وقت دارالامارت کے قریب مجاہدین کا مجمع ہوا،حضرت ابوموسیٰ ؓ گھوڑے پر سوار ہوکر برآمد ہوئے ،لوگوں نے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑلی اوراس پر اعتراض کیا۔ ظاہر ہے کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کا مقصد یہ نہ تھا کہ جن کے پاس گھوڑے موجود ہوں وہ راہ خدا میں ان سے کام نہ لیں، لیکن درحقیقت خلیفہ سوم ؓ کے عہدِ خلافت کا نصف اخیر فتنہ اورسازش کا دور تھا ،مفسدہ پردازوں نے اسی وقت دارالخلافہ کی راہ لی اوردربارِ خلافت سے ان کی معزولی کا مطالبہ کیا،چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے ان کو معزول کرکے ایک کمسن نوجوان عبداللہ بن عامر کو اس منصب پر مامور فرمایا۔ (تاریخ طبری:۲۸۲۸) امارت کوفہ ۳۴ھ میں اہل کوفہ کی درخواست پر حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ پھر سعید بن العاص ؓ کی جگہ کوفہ کے والی مقررکیے گئے، لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام دنیائے اسلام پر آشوب تھی اور ملک میں ہر طرف سازش وفتنہ پردازی کا بازار گرم تھا،چونکہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی یاد تھی،اس لیے ان کو یقین تھا کہ عنقریب ہولناک خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہوگا، وہ عموماً اپنے وعظ میں اہل کوفہ کو رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی سناتے اوراس آنے والے دورِ فتنہ سے کنارہ کش رہنے کی ہدایت فرماتے تھے،چنانچہ۳۵ھ میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مسند نشین کے بعد وہ خطرہ بالکل سرپر آگیا۔ خانہ جنگی سے اجتناب حضرت عائشہ ؓ، حضرت طلحہ ؓ اورحضرت زبیر ؓ نے خلیفہ ثالث ؓ کے قصاص اورمطالبۂ اصلاح کا علم بلند کرکے بصرہ کا رخ کیا،حضرت علی ؓ ان کے مقابلہ کے لیے مدینہ سے چل کر مقام ذی قار میں آئے اورحضرت امام حسن ؓ کو حضرت عمار بن یاسر ؓ کے ساتھ کوفہ بھیجا کہ وہاں لوگوں کو خلافت کی اعانت پر آمادہ کریں،حضرت امام حسن ؓ کوفہ پہنچے تو اس وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ مسجد میں ایک عظیم الشان مجمع کے سامنے تقریر کررہے تھے کہ سرورکائنات ﷺ نے جس فتنہ کا خوف دلایا تھا وہ اب سرپر ہے اس لیے اسلحہ بیکارکردو اورعزلت نشین ہوکر بیٹھ جاؤ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فتنہ وفساد کے زمانہ میں سونے والا بیٹھنے والے سے اوربیٹھنے والا چلنے والے سے بہتر ہے۔(بخاری کتاب الفتن) اسی اثناء میں حضرت امام حسن ؓ داخلِ مسجد ہوئے اورحضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے مخاطب ہوکر کہا،آپ ابھی ہماری مسجد سے نکل جائیے وہ نہایت سکون وخاموشی کے ساتھ منبر سے اترآئے،اورملک شام کے ایک غیر معروف گاؤں میں جاکر گوشہ نشین ہوگئے۔ حضرت ابو موسی اشعری ؓ نے اہل کوفہ کو بارہا جس خطرہ سے آگا ہ کیا تھا، اس کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، جنگ جمل میں عرب کے ہزاروں گھر بے چراغ ہوگئے اورمیدانِ صفین میں حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کی باہمی آویزش نے بیشمار مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہادیا۔ حکم مقرر ہونا معرکۂ صفین میں جب امیر معاویہ ؓ کے حامیوں نے حریف کا پلہ بھاری دیکھا،تو اپنے نیزوں پر دمشق کا مصحف اعظم بلند کرکے عجیب وغریب طریقہ پر مصالحت کی دعوت دی، گوجناب امیر ؓ اس پر راضی نہ تھے،تاہم قرآن کی دعوت کاردکرنا آسان نہ تھا،خود آپ کی فوج میں پھوٹ پڑ گئی،انجام کار تمام مابہ النزاع امور کا فیصلہ طرفین کے دوثالث پر محول ہوا، امیر معاویہ ؓ نے اپنی طرف سے حضرت عمروبن العاص ؓ کو حکم مانا اورحضرت علی ؓ کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا انتخاب ہوا،دومۃ الجندل مقامِ اجلاس قرار پایااور دونوں حکم ایک مقررتاریخ پر مجمتع ہوئے،حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ ایک نہایت نکتہ رس اورمعاملہ فہم بزرگ تھے،انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اورعمروبن العاص ؓ سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کرکے ان کی رائے کا اندازہ کیا، تو ان کو یقین ہوگیا کہ یہ دونوں کسی امر پر متفق نہیں ہو سکتے ؛کیونکہ اگر ایک طرف کمال غیر جانبداری وبے لوثی ہے تو دوسری طرف شدید خودغرضی وپاسداری۔ غرض دونوں حکم باہم مشورہ کے لیے گوشہ خلوت میں مجتمع ہوئے، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے محض بے لوثی کے ساتھ صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے خیال سے اس عہدہ کو قبول کیا تھا،ان کی رائے تھی کہ عنانِ خلافت کسی غیر جانبدار کے ہاتھ میں دے دی جائے تو اس خانہ جنگی کا دروازہ خود بخود بند ہوجائے گا، چنانچہ دونوں میں حسب ذیل گفتگو ہوئی: ابو موسی ؓ :عمرو تم ایک ایسی رائے کے متعلق کیا خیال رکھتے ہو جس سے خدا کی خوشنودی اورقوم کی بہبودی دونوں میسر آئے؟ عمروبن العاص ؓ :وہ کیا ہے؟ ابوموسیٰ ؓ :عبداللہ بن عمر کو منصبِ خلافت پرمتمکن کرنا چاہئے،کیونکہ انہوں نے ان خانہ جنگیوں میں کسی طرح حصہ نہیں لیا ہے عمرو بن العاص ؓ :معاویہ ؓ میں کیا خرابی ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ عثمان ؓ مظلوم شہید ہوئے ،معاویہ ؓ ان کے قصاص کے دعویدار ہیں، ام المومنین ام حبیبہ ؓ ان کی بہن ہیں اور خود ان کو رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہے۔ ابوموسیٰ ؓ : معاویہ ؓ کے جن فضائل کا تم نے تذکرہ کیا، وہ استحقاقِ خلافت کے لیے کافی نہیں، اگر فضل و شرف ہی پر معیار ہو تو علی ؓ سے بڑھ کر کون ہے، رہا قصاص کا دعویٰ تو اس کے لیے معاویہ ؓ کو خلافت کے معاملہ میں مہاجرین اولین پر ترجیح نہیں دی جاسکتی،ہاں اگر تم مجھ سے اتفاق کرو،تو فاروقِ اعظم ؓ کا عہد لوٹ آئے اور فاضل و عالم عبداللہ اپنے باپ کی یاد پھر تازہ کردے۔ عمرو بن العاص ؓ : میرے لڑکے عبداللہ پر آپ کی نظرِ انتخاب کیوں نہیں پڑتی؟ فضل و منقبت میں تو وہ بھی کچھ کم نہیں۔ ابوموسی ؓ : بیشک وہ صاحبِِ فضل ومنقبت ہیں؛ لیکن ان خانہ جنگیوں میں شریک کرکے تم نے ان کے دامن کو بھی داغدار کردیا ہے، برخلاف اس کے طیب بن الطیب عمرؓ کے بیٹے عبداللہ کا لباس تقویٰ تمام دھبوں سے محفوظ ہے۔ عمروبن العاص ؓ : ابوموسیٰ اس منصب کی صلاحیت صرف اسی میں ہوسکتی ہے جس کے دو داڑھ ہوں ،ایک سے کھائے اور دوسرے سے کھلائے۔ ابو موسیٰ ؓ : عمرو تمہارا بُرا ہو، شدید کشت وخون کے بعد مسلمانوں نے ہمارادامن پکڑا ہے،اب ہم ان کو پھر فتنہ وفساد میں مبتلا نہیں کریں گے۔ عمروبن العاص ؓ : پھر آپ کی کیا رائے ہے؟ ابوموسیٰ ؓ : ہمارا خیال ہے کہ علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں برطرف کیے جائیں اورمسلمانوں کی مجلسِ شوریٰ کو پھر نئے سرے سے اختیار دیا جائے کہ وہ جس کو چاہے منتخب کرے۔ عمروبن العاص ؓ : مجھے بھی اس سے اتفاق ہے۔ اس قرارداد کے بعد دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے،حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس آکر کہا"خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ عمرو ؓ نے آپ کو دھوکہ دیا ہوگا،اگر کسی رائے پر اتفاق ہوا ہو تو آپ ہر گز اعلان میں سبقت نہ کیجئے گا، کیا عجب ہے کہ وہ آپ کی مخالفت کربیٹھیں، حضرت ابوموسیٰ ؓ نہایت نیک طینت بزرگ تھے،انہیں دنیا کی فریب کاریوں کی کیا خبر تھی، بولے ہم دونوں ایک ایسی رائے پر متفق ہوئے ہیں کہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں، غرض! دوسرے روز مسجد میں مسلمانوں کا مجمع ہوا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عمروبن العاص ؓ سے فرمایا کہ منبر پر چڑھ کر فیصلہ سنادو، بولے میں آپ پر سبقت نہیں کرسکتا ،آپ فضل و منقبت اورسن وسال میں مجھ سے افضل اوربڑے ہیں حضرت ابوموسیٰ ؓ پر ان کا یہ افسوں چل گیا،وہ بغیر سوچے سمجھے کھڑے ہوگئے اورحمد وثناء کے بعد فرمایا: "صاحبو! ہم نے علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کیا اورپھر نئے سرے سے مجلس شوریٰ کو انتخاب کا حق دیا، وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے" ابو موسیٰ ؓ اپنا فیصلہ سنا کر اتر آئے تو عمروبن العاص ؓ نے کھڑے ہوکر کہا: "صاحبو!علی ؓ کو ابوموسیٰ ؓ کی طرح میں بھی معزول کرتا ہوں؛ لیکن معاویہ ؓ کو اس منصب پر برقرار رکھتا ہوں؛کیونکہ وہ امیر المومنین عثمان ؓ کے ولی اورخلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں" حضرت ابوموسیٰ ؓ نہایت متقی ،پرہیز گار اورنیک نفس بزرگ تھے، اس خلاف بیانی پر ششد رہ گئے،چلا کر کہنے لگے،یہ کیا غداری ہے؟ یہ کیا بے ایمانی ہے؟ سچ یہ ہے کہ تمہاری حالت بالکل اس کتے کی طرح ہے جس پر بوجھ لادو جب بھی ہانپتا ہے اورچھوڑدو جب بھی ہانتپا ہے ‘ وانما مثلک کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث اوتترکہ یلھث، الایۃ’ عمروبن العاص ؓ نے جواب دیا اورآپ پر" چارپائے بروکتابے چند" کی مثل صادق آتی ہے، مثلک کمثل الحماریحمل اسفارا۔ وفات حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو اپنے فریب کھاجانے پر اس قدر ندامت ہوئی کہ وہ اسی وقت مکہ معظمہ روانہ ہوگئے اورپھر کسی چیز میں حصہ نہ لیا، وفات کے سن اورمقام میں مختلف روایتیں ہیں، بعض لوگ ان کی وفات کا مقام مکہ بتاتے ہیں اور بعض کوفہ، لیکن راجح مکہ کی روایت ہے،بہرحال باختلاف روایت ۴۲ھ ۴۴ھ ۵۲ھ میں بیمار پڑےاور بروایت صحیحہ ذالحجہ۴۴ھ میں وفات پائی،(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۱) آخری وقت تک احکام نبویﷺ کا لحاظ رہا جب حالت زیادہ نازک ہوئی اورغشی طاری ہوگئی،تو جس عورت کی گود میں سر تھا،اس نے گریاوزاری شروع کردی، اس وقت بولنے کی طاقت نہ تھی،ہوش آیا تو کہا جس چیز سے رسول اللہ ﷺ نے برأت کی ہے، اس سے میں بھی بری ہوں، جیب وگریبان پھاڑنے والی ،نوحہ و بکا کرنے والی اور کپڑے پھاڑ نے والی عورتوں سے آپ نے برأت ظاہر کی ہے۔ (مسلم کتاب الایمان باب تحریم ضرب الخدود وشق الجیوب) اس کے بعد کفن ودفن وغیرہ کے متعلق ضروری وصیتیں کیں کہ جنازہ تیز چال سے لے چلنا، جنازہ کے ساتھ انگیٹھی نہ لے چلنا،لحد اورمیری میت کے درمیان کوئی مٹی روکنے والی چیز نہ رکھنا، قبر پر کوئی عمارت نہ بنانا اور میں نوحہ وبین کرنے والی،جیب وگریبان چاک کرنے والی اورسرنوچنے والی عورتوں سے بری ہوں،(مسند احمد بن حنبل :۴/۳۹۷)وصیت سے فراغت ہوئی کہ طائرروح قفسِ عنصری سے پرواز کرکے اپنے اصلی نشیمن میں پہنچ گیا، وفات کے وقت ۶۱ سال کی عمر تھی۔ حلیہ پستہ قد اورلاغراندام تھے۔ اولاد وفات کے بعد متعدد نسلی یادگاریں چھوڑیں، نام یہ ہیں، ابراہیم، ابوبکر، ابوبردہ، موسیٰ۔ (تہذیب التہذیب :۵/۳۶۲) ذریعہ ٔمعاش ابتدا میں تنگدستی کی زندگی تھی،لیکن پھر فارغ البالی کا دورآیا، متعدد مہمیں ان کی افسری میں سر ہوئیں، مدتوں تک مختلف ممالک کے گورنررہے،حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں دوسرے مہاجرین کے ساتھ ان کا وظیفہ بھی مقرر کیا، غرض اطمینان اورفارغ البالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ فضل وکمال حضرت ابوموسیٰ ؓ ان مخصوص صحابہ ؓ میں تھے،جن کو بارگاہِ رسالت میں خاص تقرب اور شرف پذیرائی حاصل تھا،اس لیے وہ نبوت کے چشمہ فیض سے پوری طرح سیراب تھے،وہ ان چھ آدمیوں میں سے ایک تھے،جن کو خود عہدِرسالت میں مسائل کے جواب اورفتویٰ دینے کی اجازت تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ :۱/۲۱) اسود تابعی کا بیان ہے کہ میں نے کوفہ میں حضرت علی ؓ اورحضرت ابوموسیٰ ؓ سے زیادہ کسی کو صاحب علم نہیں دیکھا،حضرت علی ؓ فرماتے تھے کہ: "ابوموسیٰ ؓ سرتا پا علم کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ :۱/۲۰) اہل علم سے اکثر ان کی علمی صحبتیں اورعلمی بحثیں رہتی تھیں، جس نے ان کے علم کو اورچمکا دیا تھا، یوں تو ان کے علمی احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا،مگر ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ، معاذ بن جبل ؓ سے خاص طور سے وہ علمی گفتگو کرتے تھے اور کبھی کبھی یہ گفتگو نیک نیتی کے ساتھ بحث ومناظرہ تک پہنچ جاتی اورجب تک مسئلہ کی پوری تنقیح نہ ہوجاتی برابر جاری رہتی۔ ایک مجلس میں تیمم کا مسئلہ چھڑا،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا اگر کسی کو نہانے کی ضرورت پیش آجائے اوراس کو ایک مہینہ تک پانی نہ ملے، تو کیا تیمم کرکے نماز پڑھ لے؟ حضرت عبداللہ ؓ نے کہا نہیں، خواہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے جب بھی تیمم نہ کرے، حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا تو پھر سورۂ مائدہ کی اس آیت کے متعلق کیا کہتے ہو؟ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا پانی نہ پاؤ توپاک مٹی سے تیمم کرو۔ حضرت عبداللہ نے کہا،اگر لوگوں کو تیمم کی اجازت دے دی جائے تو سردیوں کے موسم میں جب پانی ٹھنڈا ملتا ہے لوگ تیمم ہی پر اکتفا ء کرنے لگیں گے، اس پر شقیق (راوی) بولے کیا صرف اس خطرہ سے آپ تیمم کو بُرا سمجھتے ہیں،حضرت عبداللہ ؓ نے کہا ہاں، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہا تم نے عمار کا وہ واقعہ جس کو انہوں نے حضرت عمرؓ سے بیان کیا تھا نہیں سنا کہ ان کو آنحضرت ﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا، اتفاق سے ان کو راہ میں غسل کی ضرورت پیش آئی اورپانی نہ ملا تو انہوں نے جانور کی طرح زمین پر لوٹ کر تیمم کیا اور واپس آکر آنحضرت ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے ان کو تیمم کا طریقہ بتاکر فرمایا کہ اس قدر کافی تھا، اس پر عبداللہ ؓ نے کہا مگر شاید آپ کو یہ نہیں معلوم کہ حضرت عمرؓ نے اس واقعہ کو کافی نہ سمجھا۔ (بخاری کتاب التیمم باب التیمم ضربۃ) ایک مرتبہ دونوں میں حدیث کا مذاکرہ ہورہا تھا،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہا" آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب علم اُٹھ جائے گا، جہالت کا دور دورہ ہوگا اورقتل وغارت کی گرم بازاری ہوگی۔ (مسند احمد بن حنبل :۱/۳۹۲) اشاعتِ علم علم کی اشاعت اوراس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی وہ پوری کوشش کرتے تھے ان کا اصول یہ تھا کہ جو کچھ کسی کو معلوم ہواس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا اس کا فرض ہے ،ایک مرتبہ خطبہ میں لوگوں سے خطاب کرکے کہا کہ جس شخص کو خدا علم دے،اس کو چاہئے کہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اس کی تعلیم دے،اسی کے ساتھ جو اس کو معلوم نہ ہو، اس کے متعلق ہرگز ایک لفظ بھی وہ اپنی زبان سے نہ نکالے۔ (ابن سعد جزو ۴ قسم اول صفحہ ۱۸) ان کے درس کے طریقے مختلف تھے، مستقل حلقہ درس کے علاوہ کبھی کبھی وہ لوگوں کو جمع کرکے خطبہ دیتے،ایک مرتبہ خطبہ دیا: "لوگو!شرک سے بچنے کی کوشش کروکہ یہ چیونٹی کی چال سے زیادہ غیر محسوس ہے" (مسند احمد بن حنبل :۴/۴۰۳) جہاں کہیں چند آدمی ایک جگہ ان کو اکٹھا مل جاتے ،ان کے کانوں تک وہ کوئی نہ کوئی حدیث ضرور پہنچادیتے، ایک دفعہ بنو ثعلبہ کے چند آدمی کہیں جارہے تھے، ان کو راہ میں ایک حدیث سنادی۔ (مسند احمد بن حنبل :۴/۴۱۷) اصفہان کی مہم سے واپس ہوتے وقت ایک جگہ پڑاؤ کیا ،کافی مجمع تھا کہا میں تم لوگوں کو ایک حدیث سنانا چاہتا ہوں جو ہم لوگوں کو آنحضرت ﷺ نے سنائی تھی، لوگوں نے کہا خدا ٓپ پر رحم کرے ضرور سنائیے بولے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ: قیامت کے قرب میں "ہرج" زیادہ ہوگا، لوگوں نے پوچھا"ہرج"کیا؟ کہا قتل اورجھوٹ، لوگوں نے کہا کی اس سے بھی زیادہ قتل ہوگا، جتنا ہم لوگ کرتے ہیں؟ فرمایا اس سے مقصد کفار کا قتل نہیں ہے،بلکہ باہمی خونریزی ہے، حتیٰ کہ پڑوسی پڑوسی کو،بھائی بھائی کو،بھتیجا چچا کو،اورچچا بھتیجے کو قتل کرے گا لوگوں نے کہا سبحان اللہ عقل و ہوش رکھتے ہوئے؟ کہا عقل و ہوش کہاں عقل و ہوش تو اس زمانہ میں باقی نہ رہے گا، حتیٰ کہ آدمی خیال کرے گا کہ وہ کسی (حق) بات پر ہے، لیکن درحقیقت وہ کسی(حق) بات پر نہ ہوگا۔ یہ حدیث سن کر بولے کہ ہم میں سے تم میں سے کوئی بھی اس پیشین گوئی سے نہ نکل سکے گا، اس سے نکلنے کی صرف یہ صورت ہے کہ ہم بلاکچھ کیے ہوئے اس طریقہ سے پاک وصاف نکل جائیں جس طرح اس میں شریک ہوئے تھے۔ (مسند احمد ابن:۴/۴۰۶) حضرت ابوموسیٰ ؓ کے تعلیم دینے کا طریقہ نہایت نرم تھا، اگر کبھی کوئی شخص نادانی سے بھی کوئی اعتراض کرتا، توخفا ہونے کے بجائے نہایت نرمی سے اس کو سمجھا دیتے ،عبداللہ الرقاشی روایت کرتے ہیں کہ: "میں ایک مرتبہ ابو موسیٰ ؓ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا،وہ قعدہ میں تھے کہ کسی نے زور سے ایک فقرہ کہا جو مسنون دعاؤں میں سے نہ تھا،ابوموسیٰ ؓ نماز ختم کرچکے، تو پوچھا یہ کس نے کہا تھا، لوگ خاموش رہے،پھر پوچھا فلاں بات کس نے کہی تھی ،لوگ پھر چپ رہے، تو بولے حطان شاید تم نے کہا ہوگا، انہوں نے کہا میں نے نہیں کہا، مجھ کو پہلے ہی خطرہ تھا کہ آپ مجھ پر ہی ڈانٹ ڈپٹ کریں گے،اتنے میں ایک شخص نے اقرار کیا کہ میں نے کہا اوراس سے میرا مقصد بدنیتی نہ تھی،بلکہ بھلائی تھی،ابوموسیٰ ؓ نے کسی قسم کی ترش روئی کے بغیر مسنون نماز کا پورا طریقہ بتادیا۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب التشہد فی الصلوٰۃ) قرآن پاک قرآن پاک اسلام کے تمام علوم ومعارف کا سرچشمہ ہے، اس کے ساتھ حضرت ابوموسیٰ ؓ کو غیر معمولی شغف وانہماک تھا،فرصت کا سارا وقت قرآن پاک کی تلاوت اور اس کی تعلیم میں صرف ہوتا،یمن کی گورنری کے زمانہ میں معاذ بن جبل ؓ اکثران سے ملنے آتے اوردیرتک علمی صحبت رہتی، ایک مرتبہ انہوں نے پوچھا ،آپ قرآن کس طرح تلاوت کرتے ہیں، بولے رات دن میں جب موقع مل جاتا ہے تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھ لیتا ہوں۔ (بخاری) قرآن نہایت خوش الحانی سے پڑھتے تھے،یہ اس قدر خوش گلو اورشیریں آواز تھے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ: "ان کو لحن واؤدی سے حصہ ملا ہے" (ابن سعد جزو ۴ قسم اول صفحہ ۸۰) آنحضرت ﷺ کو ان کا قرآن پڑھنا بہت پسند تھا، جہاں ان کو قرأت کرتے ہوئے سنتے کھڑے ہوجاتے، ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے،ابوموسیٰ ؓ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا،وہیں کھڑے ہوگئے اور سنکر آگے بڑھے، صبح کو جب ابو موسیٰ ؓ حاضر ہوئے،تو فرمایا کہ ابوموسیٰ ؓ کل تم قرآن پڑھ رہے تھے،ہم نے تمہاری قرأت سنی تھی،عرض کیا اے خدا کے رسول ﷺ اگر مجھ کو حضور کی موجودگی کا علم ہوتا، تو میں آواز میں اوردلکشی پیدا کرتا۔ (مستدرک حاکم :۳/۴۶۶) ایک مرتبہ مسجد نبوی ﷺ میں بلند آواز سے عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، آواز سن کر ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں میں پردوں کے پاس آکر کھڑی ہوکر سننے لگیں،صبح کو جب ان کو اطلاع ہوئی تو کہا اگر مجھ کو اس وقت معلوم ہوجاتا تو میں ان کو قرآن کا اس سے بھی زیادہ مشتاق بنادیتا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۴ صفحہ ۸۰) ابو عثمان نہدی بیان کرتے تھے کہ ابوموسیٰ ؓ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ان کی آواز اتنی سریلی اوردلکش ہوتی تھی کہ جنگ وبربط میں بھی وہ دلکش نہیں۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۴ صفحہ ۸۰) کبھی کبھی حضرت عمرؓ فرمائش کرتے کہ ابوموسیٰ ؓ خدا کی یاد دلاؤ، یہ قرآن پڑھ کر سناتے ،ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ ؓ نے انس بن مالک ؓ کو حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا، انہوں نے پوچھا، ابوموسیٰ ؓ کا کیا حال ہے،کہا لوگوں کو قرآن پڑھاتے ہیں،فرمایا وہ بلند مرتبہ آدمی ہیں،مگر اس کو ان کے سامنے نہ کہنا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۴ صفحہ ۸۰) ان کی غیر معمولی قرأت دانی کی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے مشہور عالمِ قرآن حضرت معاذ بن جبل ؓ کے ساتھ ان کو بھی نو مسلموں کی تعلیم قرآن کے لیے یمن بھیجا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل :۴/۳۹۷) حدیث قرآن کے ساتھ ان کو حدیث کے علم سے بھی وافر حصہ ملا تھا، حفظِ حدیث کے اعتبار سے وہ اپنے معاصروں میں امتیازی پایہ رکھتے تھے، کوفہ میں مستقل حلقہ درس تھا جس سے بڑے بڑے ارباب کمال پیدا ہوئے، ان کے نام آیندہ آئیں گے، ان کی تعداد مرویات ۳۶۰ تک پہنچتی ہے،ان میں ۵۰ متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ ۴ بخاری اور۲۵ مسلم میں ہیں۔ (تہذیب الکمال) ان میں سے اکثر روایات خود صاحبِ حدیث کی زبان مبارک سے سنی ہوئی ہیں، ان کے بعد پھر حضرت ابوبکر ؓ ،حضرت عمرؓ، حضرت علی ؓ، ابن عباس ؓ، ابی بن کعب ؓ، عمار بن یاسر ؓ، معاذ بن جبل ؓ سے روایتیں کی ہیں، تلامذہ کی تعداد بھی کافی ہے، مختصر فہرست یہ ہے۔ ابراہیم، ابوبکر،ابوبردہ، موسی، انس بن مالک ؓ، ابوسعیدخدری ؓ، طارق بن شہاب ، ابوعبدالرحمن سلمی، زربن جیش، زید بن وہب، عبید بن عمیر، ابوالاحوص،عوف بن مالک ،ابوالاسوددئلی، سعید بن مسیب،ابوعثمان نہدی،قیس بن ابی حازم، ابورافع صائغ، ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود، مسروق بن اوس حنظلی، ہزیل بن شرجیل، مرہ بن شرجیل، اسود بن یزید، عبدالرحمن بن یزید، حطان بن عبداللہ رقاشی، ربعی بن خراش، زہدم بن مضرب، ابووائل ،شقیق ،ابن سلمہ، صفوان بن محرزوغیرہم اس فضل وکمال کے باوجود ان کو اپنی غلطی اوردوسروں کے کمال کے اعتراف میں بخل نہ تھا، ایک مرتبہ کسی نے لڑکی،پوتی اوربہن کی وراثت کے متعلق فتویٰ پوچھا، انہوں نے جواب دیا: لڑکی اوربہن کو نصف نصف ملے گا، مستفتی نے جاکر یہ جواب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو سنایا اوران سے بھی فتویٰ دریافت کیا، انہوں نے کہا،اگر میں اس کی تائید کروں تو گمراہ ہوں، میں اس مسئلہ میں وہی فیصلہ کروں گا جو آنحضرت ﷺ نے کیا ہے،لڑکی کو آدھا ملے گا، پوتی کو دو تہائی پورا کرنے کے لیے چھٹا حصہ ملے گا، باقی جو بچے گا وہ بہن کا حصہ ہے مستفتی نے یہ جواب جاکر ابوموسیٰ ؓ کو سنایا، انہوں نے کہا جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے،اس وقت تک مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ (بخاری کتاب الفرائض باب میرث اتبہ ابن مع انبتہ) اخلاق وعادات خشیت الہی اوررقتِ قلب مذہب کی روح ہے، حضرت ابوموسیٰ ؓ میں یہ دونوں وصف موجود تھے، خود بھی روتے اوردوسروں کو بھی رلا تے،بصرہ کے قیام کے زمانہ میں ایک مرتبہ خطبہ دیاکہ: "لوگو! خوب روؤ اگر نہ روسکتےہو تو کم ازکم رونی صورت بناؤ کیونکہ دوزخی (جنہوں نے دنیا ہنس کر گذاری) اس قدر روئیں گے کہ آنسو خشک ہوجائیں گے پھر خون کے آنسو روئیں گے،آنسووں کی فراوانی کا یہ حال ہوگا کہ اگر اس میں کشتیاں چلائی جائیں تو بہہ نکلیں۔ (ابن سعد قسم اول جزو ۴ صفحہ ۸۱) اتباعِ سنت ابوموسیٰ ؓ کی پوری زندگی حیات نبوی ﷺ کا آئینہ تھی، وہ کوشش کرتے تھے کہ ان کی نقل وحرکت ،قول وفعل ؛بلکہ ہرہر ادا ذاتِ نبوی ﷺ کا نمونہ بن جائے، ایک موقع پر انہوں نے اپنی حرص کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: "ابو مجلز راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ابو موسیٰ ؓ مکہ سے مدینہ آرہے تھے، راستہ میں عشاء کی نماز کا وقت آیا تو دورکعت نماز پڑھی،پھر کھڑے ہوکر سورۂ نساء کی ۱۰۰ آیتیں ایک رکعت میں پڑھیں، لوگوں نے اس پر اعتراض کیا، انہوں نے کہا میری،ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے ، کہ جہاں آنحضرت ﷺ نے قدم مبارک رکھا ہے وہیں میں بھی قدم رکھوں، اورجو کام آپ نے کیا ہے،وہی میں بھی کروں۔ (مسند احمد ابن حنبل :۴/۴۱۹) رمضان کے روزوں کے علاوہ نوافل کے روزے محض اس لیے رکھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ رکھا کرتے تھے،عاشورہ کا روزہ آنحضرت ﷺ برابر رکھا کرتے تھے،یہ لوگوں کو ہدایت کرتے کہ عاشورہ کا روزہ رکھو۔ سنت سے لے کر مستحبات تک کی خود پابندی کرتے اوراپنے اہل وعیال سے پابندی کراتے ،قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا مسنون ہے، حضرت ابوموسیٰ لڑکیوں تک کو حکم دیتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔ (بخاری کتاب الاضاحی باب من ذبح ذبیحتہ) احکام نبوی ﷺ کا لحاظ ہر آن وہر لمحہ رہتا تھا، کسی موقع پر فروگذاشت نہ ہونے پاتی، آنحضرت ﷺ کا حکم تھا کہ جب کوئی شخص کسی کے یہاں جائے تو اجازت لے کر گھر میں داخل ہو اگر تین مرتبہ اجازت مانگنے پر بھی اجازت نہ دے تو لوٹ جائے، حضرت ابو موسیٰ ؓ اس فرمان نبوی ﷺ پر سختی سے عامل تھے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اوراندر آنے کی اجازت چاہی،آپ ؓغالباً کسی کام میں مشغول تھے، اس لیے کوئی توجہ نہ کی، انہوں نے ۳ مرتبہ اجازت مانگی، پھر لوٹ آئے،دوسرے وقت حضرت عمرؓ نے کہا تم کیوں واپس ہوگئے تھے، کہا میں نے تین مرتبہ اجازت مانگی،جب نہ ملی تو لوٹ گیا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نےفرمایا ہے کہ اگر تم کو ۳ مرتبہ اجازت مانگنے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیے،حضرت عمرؓ نے فرمایا" شاہدلاؤ تمہارے علاوہ کسی دوسرے نے بھی اس حکم کو سنا ہے"یہ گھبرائے ہوئے انصاری اصحاب کی مجلس میں آئے،ابی بن کعب ؓ کو یہ حکم معلوم تھا، انہوں نے جاکر شہادت دی۔ (بخاری کتاب الاستیذان باب التسلیم والا ستیذان ثلثا) یہی پاس ولحاظ زندگی کے آخری لمحہ تک رہا۔ مرض الموت میں اپنے گھر کی کسی عورت کی گود میں سررکھے ہوئے تھے، اسی حالت میں غشی طاری ہوگئی،عورت نے گریہ وزاری شروع کردی، اس وقت تو بولنے کی طاقت نہ تھی،ہوش آیا تو کہا جس چیز سے آنحضرت ﷺ نے برأت ظاہر کی ہے،اس سے میں بھی بری ہوں، جیب وگریبان پھاڑ نے والی ،نوحہ بکاکرنے والی،سرنوچنے والی اورکپڑے پھاڑنے والی عورتوں سے آپ ﷺ نے برأت کی ہے۔ (مسلم کتاب الایمان تحریم ضرب الخدودوشق اجیوب) موت سے پہلے کفن ودفن وغیرہ کی وصیتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی وصیت کی کہ کوئی میری موت پر نوحہ اوربین نہ کرے،جیب اورگریبان چاک نہ کرے،سر کو نہ نوچے، ان سب سے میں بری ہوں۔ (مسند احمد ابن حنبل :۴/۳۹۷) تقویٰ ابوموسیٰ ؓ کا دامنِ عفاف کبھی معصیت کی آلودگیوں سے داغدار نہ ہوا، وہ اس درجہ محتاط تھے کہ غیر عورتوں کی ہواتک لگنا گوارانہ کرتے تھے،کہا کرتے تھے کہ عورتوں کی لپٹ سے مجھو کو سڑے ہوئے مردار کی عفونت زیادہ خوش آیندہے۔ (ابن سعد جزو۴ قسم اول صفحہ ۸۴) طہارت اورصفائی کے خیال سے ہمیشہ شیشی میں پیشاب کرتے تھے کہ کوئی چھینٹ نہ پڑنے پائے،دوسرے صحابہ ؓ اس غیر ضروری شدت کو محسوس کرتے اوراس کا اظہار بھی کردیتے تھے،حذیفہ ؓ نے لوگوں سے کہا کہ کاش تمہارے ساتھی اتنا تشدد نہ کرتے۔ (مسلم کتاب الطہارت باب المسیح علی الخفین) توکل خدا کی ذات پر پورا اعتماد اورقضاء قدرپرپورا یقین تھا،چنانچہ وبائی مقامات سے الگ نہ ہوتے تھے ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی ،ابوبردہ ؓ نے کہا یہاں سے ہٹ کر وابق چلے چلئے کہا میں خدا کے پاس جاؤں گا،وابق نہ جاؤں گا۔ (ابن سعد قسم اول جزو ۴ صفحہ ۸۲) شرم وحیا الحیاء شعبۃ من الایمان حضرت ابوموسیٰ ؓ میں ایمان کا یہ عنصر بہت غالب تھا ،رات کو سوتے وقت خاص قسم کا کپڑا پہن لیتے تھے کہ نیند کی غفلت میں ستر نہ کھل جائے ،ایک مرتبہ کچھ اشخاص کو دیکھا وہ پانی کے اندر ننگے نہارہے ہیں،تو بولے مجھ کو باربار مرکرزندہ ہونا نہیں ہے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزو ۴ صفحہ ۸۲) سادگی حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی زندگی کے مختلف دور تھے، ابتدائی دور نہایت عسرت کا تھا،مگر جیسے جیسے اسلام کر فروغ ہوتا گیا،ان کی عسرت میں کمی آتی گئی،متعدد مہمیں ان کی ماتحتی میں سرہوئیں، برسوں تک مختلف صوبوں کے حاکم رہے،لیکن ان دونوں حالتوں میں ان کی ظاہری زندگی میں کوئی فرق نہ آیا، نہ مال و دولت جمع کیا ،نہ نخوت ورعونت پیدا ہوئی،گورنری کے بعد ایک مرتبہ مشہور آدمی،حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملاقات ہوئی، ابوذر ؓ فقیر منش آدمی تھے دنیا سے ان کو کوئی تعلق نہ تھا،حضرت ابوموسیٰ ؓ بھائی بھائی کہتے ہوئے دوڑ کر لپٹ گئے؛ لیکن ابوذر ؓ بار بار یہ کہہ کر ہٹاتے تھے،اب تم میرے بھائی نہیں ہو اس منصب سے پہلے بھائی تھے، دوبارہ جب پھر ملاقات ہوئی تو پہلے کی طرح لپکے،انہوں نے کہا ابھی ہٹے رہو پہلے میرے سوالات کے جوابات دے دو، پھر پوچھا تم نے لوگوں پر حکومت کی ہے؟ ابوموسیٰ ؓ نے کہا ہاں، کہا عمارتیں تو نہیں بنوائیں،زراعت تو نہیں کی، جانور تو نہیں پالے؟ انہوں نے سب کی نفی کی تو پھران سے دل کھول کر ملے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزو۴ صفحہ ۱۶۹) اسی خاکساری اورتواضع کی وجہ سے وہ اپنی مذہبی خدمات کا اظہار براسمجھتے تھے،ابوبردہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ابوموسیٰؓ کہتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم ۶ آدمی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے، ان چھ میں صرف ایک اونٹ تھا، اسی پر سب باری باری سوار ہوتے تھے، پیادہ پا چلنے کی مشقت سے ہمارے پاؤں پھٹ پھٹ گئے اورناخن گر گرگئے، تو ہم لوگوں نے چیتھڑے لپیٹ لیے،اس لیے اس غزوۂ کو ذات الرقاع،چیتھڑ ے والا،کہتے ہیں راوی کا بیان ہے کہ ابوموسیٰ ؓ اس واقعہ کو بیان تو کئے مگر بعد میں اتنے واقعہ کا اظہار بھی بُرا سمجھا۔ (مسلم کتاب الجہادوالسیرباب غزوۂ ذات الرقاع) امتِ مسلمہ کی خیر خواہی امتِ مسلمہ کی خیر خواہی اوراس کا مفاد ہر وقت پیش نظر رہتا تھا،اس کے مقابلہ وہ بڑی سے بڑی منفعت کو ٹھکرادیتے تھے، جب حضرت علی ؓ اورامیر معاویہ ؓ کے درمیان کشمکش شروع ہوئی تو امیر معاویہ ؓ نے ان کے پاس لکھ بھیجا کہ عمروبن العاص ؓ نے میر بیعت کرلی ہے،اگر تم بھی بیعت کرلوتو میں حلفیہ وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے ایک لڑکے کو بصرہ اوردوسرے کو کوفہ کی امارت پر سرفراز کروں گا اورتمہاری ضروریات کے لیے میرا دروازہ ہر وقت کھلا رہے گا، میں اپنے خاص قلم سے یہ خط لکھ رہا ہوں، امید ہے کہ تم بھی اپنے دست وقلم سے اس کا جواب دو گے، اس خط کو پڑھ کر انہوں نے یہ جواب لکھا: "تم نے امت محمدی ﷺ کے بہت اہم اورنازک معاملہ کی بابت لکھا ہے، جو چیز تم نے میرے سامنے پیش کی ہے، اس کی مجھ کوحاجت نہیں ہے۔ (طبقات ابن سعد جلد ۴ قسم اول صفحہ ۸۳) جنگ جمل اورجنگِ صفین دونوں میں غیر جانبدار رہے اور دوسروں کو بھی اس کی شرکت سے روکتے تھے، جب حضرت علی ؓ نے عمار بن یاسر ؓ کو کوفہ بھیجا کہ وہ کوفہ والوں کو حضرت علی ؓ کے ساتھ جنگ کی شرکت پر آمادہ کریں، تو ابوموسیٰ ؓ اورابومسعود ؓ نے ان سے جاکر کہا کہ: "جب سے تم اسلام لائے ہو آج تک ہمارے نزدیک اس جنگ کی شرکت سے زیادہ تم نے کوئی ناپسندیدہ کام نہیں کیا"۔ (بخاری کتاب الفتن باب الفتنۃ ماتی تموج کموج البحر) ان کے بھائی ابورہم بہت ہنگامہ پسند تھے اورشورشوں اورہنگاموں میں نہایت ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے اورابوموسیٰ ؓ فتنہ وفساد سے سخت متنفر تھے، وہ ان کو برابر سمجھا تے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جب دو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھائیں گے اورایک دوسرے کو قتل کریں گے تو دونوں جہنم میں جائیں گے۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۴۰۳) ان کی اس بے لوثی اورغیر جانبداری کی بنا پر جنگِ صفین میں حضرت علی ؓ نے ان کو ثالث مقرر کیا،اس وقت رفعِ فساد کے خیال سے ان کو مجبوراً گوشہ عزلت سے نکلنا پڑا اور نہایت نیک نیتی سے مصالح امت کا خیال رکھتے ہوئے حضرت علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کرکے کسی تیسرے کو خلیفہ منتخب کرنے کا مشورہ دیا،مگر افسوس ہے کہ عمر بن العاص ؓ کی چالاکی نے نیک نیتی کے مشورہ کا بیکارکردیا۔ امت کے اس تفرقہ کے خیال سے بسا اوقات وہ اپنا فتویٰ مسترد کردیتے ،وہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ حج میں شریک ہوچکے تھے، آپ نے بیت اللہ کا طواف اورصفاء اورمروہ کی سعی کے بعد احرام کھلوادیا تھا، آپ کے بعد بھی اسی پر عمل رہا،ابوموسیٰ ؓ بھی یہی فتویٰ دیتے تھے،حضرت عمرؓ اپنے زمانہ میں حج تمام ہونے کے بعد احرام کھلوانے لگے،ایک مرتبہ حج کے موقع پر لوگوں نے ابوموسیٰ ؓ سے کہا کہ آپ فتوی دینے میں اتنی عجلت نہ کیجئے،امیرالمومنین نے اس میں ترمیم کردی ہے،اگرچہ ابو موسیٰ ؓ اس فتویٰ میں حق بجانب تھے،مگر اختلاف کے خیال سے فوراً علان کردیا، لوگو جس جس کو میں نے فتویٰ دیا ہو اس کو ابھی ٹھہرجانا چاہئے،امیرالمومنین آتے ہیں ان کی اقتدا کرنی چاہئے۔ (مسلم کتاب الحج باب فی نسخ التحمل من الاحرام ولامرباتمام) مخصوص فضائل ان مذکورہ فضائل کے علاوہ بعض مخصوص فضائل ایسے تھے جو ان کے لیے طغرائے امتیاز ہیں، ایک بدوی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ محمد ﷺ جو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا،اس کوپورا کرو، آپ ﷺ نے فرمایا، بشر یعنی بشارت ہو،اس نے کہا "بشارت ہوچکی"کچھ دلواؤ، اس جاہلانہ جواب سے چہرۂ مبارک پر برہمی کے آثار نمایاں ہوگئے،پھر حضرت بلال ؓ اورابوموسیٰ ؓ سے کہا کہ اس نے بشارت سے انکار کردیا، تم دونوں قبول کرو، عرض کیا ز ہے نصیب ،پھر ایک برتن میں پانی منگا کر اس میں ہاتھ منہ دھویا اورکلی کرکے ان دونوں کی طرف بڑھایا کہ اس کو پیؤ اورسینہ اورچہرہ پر ملو، انہوں نے اس آب حیات کو پیا اورسینہ اورچہرہ پر ملا، حضرت ام سلمہ ؓ پردہ کی آڑ سے دیکھ رہی تھیں، آوازدی ،تھوڑا میرے لیے بھی چنانچہ اس شراب طہور کے چند جرعے ان کو بھی ملے،(مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی موسیٰ ؓ) بظاہر یہ واقعہ نہایت معمولی ہے،مگر یہ بشارت کیاتھی؟ اوراس شرابِ طہور میں کیا نشہ تھا؟ اس کا جواب عشق ومحبت کی زبان سے سننا چاہیے۔ غزوۂ حنین کے بعد آنحضرت ﷺ نے ابوعامر کو ایک دستہ کے ساتھ اوطاس روانہ کیا؟ ابوموسیٰ ؓ کو بھی ان کی مشایعت کا حکم ملا،اوطاس میں مشرکین کا مقابلہ ہوا، ابو عامر سخت زخمی ہوئے،ابوموسیٰ ؓ نے قاتل کا تعاقب کرکے اس کو قتل کیا، پھر لوٹ کر ابا عامر کے گھٹنے سے تیر نکالا، زخم سے خون جاری ہوگیا، زخم کاری تھا،بچنے کی امید نہ تھی،ابوموسیٰ ؓ سے کہا میری طرف سے حضور انور ﷺ کی خدمت میں سلام کے بعد دعائے مغفرت کی درخواست کرنا یہ کہہ کر ابو عامر واصل بحق ہوگئے، حضرت ابوموسی ؓ نے لوٹ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ان کا پیام پہنچادیا،آپ نے وضو کرکے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی، حضرت ابوموسی ؓ نے عرض کیا، حضور میرے لیے بھی دعا فرمائیں، آپ نے دعا فرمائی،خدایا عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ ؓ) کے گناہوں کو بخش دے اورقیامت کے دن ان کا معزز اورشریفانہ داخلہ فرما۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ اوطاس)