انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جہنم سے ڈرنے ڈرانے کا بیان اپنے آپ کو اوراپنے گھر والوں کو.. اس باب میں بہت سی آیات قرآنی اوراحادیث مبارکہ وارد ہیں یہاں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِکَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم:۶) (ترجمہ)اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اوراپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جس پر تند خو اورمضبوط قوی فرشتے متعین ہیں کہ نہ وہ کسی پر رحم کریں نہ کوئی ان کا مقابلہ کرکے بچ سکے،جو خدا کی ذرانافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اورجو کچھ ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کو فوراً بجا لاتے ہیں۔ (فائدہ)اس آیت میں تمام مسلمانوں کو حکم ہے کہ جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اوراپنے اہل وعیال کو بھی،پھر جہنم کی آگ کی شدت کا ذکر فرمایا اورآخر میں یہ فرمایا کہ جو اس جہنم کا مستحق ہوگا وہ کسی زور طاقت جتھہ یا خوشامد یا رشوت کے ذریعہ ان فرشتوں کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا جو جہنم پر مسلط ہیں جن کا نام زبانیہ ہے،لفظ اھلیکم میں اہل وعیال سب داخل ہیں جن میں بیوی اولاد،غلام،باندیاں سب داخل ہیں اوربعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر چاکر بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں۔ اہل وعیال کو جہنم سے کیسے بچایا جائے (فائدہ)ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اوراحکام الہیہ کی پابندی کریں)مگر اہل وعیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں؟رسولﷺنے فرمایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اورجن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا تم ان کے کرنے کا اہل وعیال کو حکم کرو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا۔ (روح المعانی،قرطبی:۱۸،۱۹۶) جہنم کے خوف سے ایک پہاڑ کا آسمان زمین کے درمیان لٹکے رہنا عبدالعزیربن (ابی) رواد فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسے پہاڑ کے پاس سے گذرے جو آسمان اورزمین کے درمیان لٹکا ہوا تھا، تو آپ اس میں داخل ہوئے اورروپڑے اورتعجب فرمایا پھر اس سے نکلے اورآس پاس کے لوگوں سے اس کے لٹکنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں اس کا علم نہیں ہمارے باپ دادا نے بھی اسے اسی طرح لٹکا ہوا پایا ہے، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ اس پہاڑ کو اجازت دیں تاکہ یہ مجھے اپنا قصہ بیان کرے تو اللہ تعالی نے پہاڑ کو اجازت دی تو اس نے بتلایا کہ جب اللہ تعالی نے آگ کے متعلق فرمایا کہ اس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہوں گے تو میرے اندر ہیجان اورخوف پیدا ہوا کہ میں بھی اس آگ کے ایندھن میں سے نہ ہوں؟ بس میں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ مجھے اپنی امان میں رکھیں، پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کے لئے اللہ تعالی سے دعا فرمائی تو اللہ تعالی نے اس پہاڑ کو امان دیدی پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کو کہا کہ اب تو تو خوش ہے؟ اس کے بعد سے اس پہاڑ کو زمین پر رکھ دیا گیا ۔ (رواہ ابن المنذر،درمنثور:۶/۲۴۴) ایک صحابی کا بے ہوش ہونا حضرت عبدالعزیز بن ابی رواد فرماتے ہیں جب اللہ جل شانہ نے یہ آیت حضورﷺ پر نازل فرمائی اورآپ ﷺ نے اسے ایک روز اپنے صحابہ کے سامنے تلاوت کیا تو ایک نوجوان بے ہوش ہوکر گرگیا،تونبی اکرم ﷺ نے اس کے دل پر دست مبارک رکھا تو وہ دھڑک رہا تھا تو حضورﷺ نے فرمایا اے نوجوان کہو "لا الہ الا اللہ"تو اس نے کلمہ پڑھا پھر آپ ﷺ نے اسے جنت کی بشارت دی۔ خوف جہنم کے متعلق آیات قرآنی (پہلی آیت باب کے شروع میں گذرچکی ہے باقی آیات درج ذیل ہیں) فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِينَ (البقرۃ:۲۴) بچو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اورپتھر ہیں ،تیار رکھی ہوئی ہے کافروں کے لئے۔ (آل عمران:۱۳۰) اور اس آگ سے بچو جو دراصل کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى (اللیل:۱۴) اور میں تم کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈراچکا ہوں۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ذَلِکَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ (الذمر:۱۶) ان کے لئے ان کے اوپر سے بھی آگ کے شعلے ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی آگ کے (محیط) شعلے ہوں گے یہ وہی (عذاب) ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ ، کَلَّا وَالْقَمَرِ ، وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ ، وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ ، إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ ، نَذِيرًا لِلْبَشَرِ ، لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ (المدثر:۳۱سے۳۶) اوردوزخ (کاحال بیان کرنا)صرف آدمیوں کی نصیحت کے لئے ہے (تاکہ وہاں کے عذاب کو سن کر ڈریں) باالتحقیق قسم ہے چاند کی اوررات کی جب جانے لگے اورصبح کی جب روشن ہوجائے کہ دوزخ بڑی بھاری چیز ہے جو انسان کے لئے بڑاڈراواہے(یعنی) تم میں جو(خیر کی طرف) آگے بڑھے اس کے لئے بھی یا جو(خیر سے) پیچھے ہٹے اس کے لئے بھی۔ اللہ نے دوزخ سے زیادہ کسی چیز سے نہیں ڈرایا حضرت حسن بصریؒ ،اللہ تعالی کے فرمان نذیر للبشر کے متعلق فرماتے ہیں قسم بخدا!اللہ تعالی نے بندوں کو جہنم سے زیادہ خوفناک کسی شئے سے نہیں ڈرایا (ابن ابی حاتم) اگر جہنم کا ایک قطرہ دنیا میں آجائے تو ساری دنیا کڑوی ہوجائے حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے جماعت مسلمین ،تم اس شئے میں رغبت رکھوجس کی رغبت اللہ تعالی نے دلائی ہے اور جس چیز سے خوف دلایا ہے اس سے ڈرو کیونکہ اگر جنت کا ایک قطرہ تمہاری دنیا میں تمہارے پاس آجائے تو ساری دنیا کو تم پر شیریں کردے اور اگر جہنم کا ایک قطرہ تمہاری دنیا میں تمہارے پاس آجائے تو ساری دنیا کو تم پر بد مزہ کردے۔ (بیہقی) جہنم میں گرتوں کو حضور ﷺنے تھاما حضرت ابوہریرہؓ حضورﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ أُمَّتِي کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَجَعَلَتْ الدَّوَابُّ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهِ فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهِ (مسلم،باب شفقتہ،صلی اللہ علیہ وسلم علی،حدیث نمبر:۴۲۳۴) بلا شبہ میری اورمیری امت کی مثال ایسے آدمی کی طرح ہے جس نے آگ جلائی بس جانور اورپتنگے اس میں گرنے لگے ،پس میں تمہیں جہنم سے بچانے کے لئے تمہارے دامن سے پکڑ رہا ہوں اورتم اس میں دھڑا دھڑ گرے جارہے ہو۔ یہ روایت مختلف الفاظ سے مسند احمد، مسند بزار،طبرانی ، وغیرہ میں بھی مروی ہے۔ حضورﷺ نے ایک ایک قبیلہ کو مخاطب فرما کر دوزخ سے ڈرایا حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں جب آیت وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَکَ الْأَقْرَبِينَ (شعراء:۲۱۴) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کو جمع کیا جب وہ جمع ہوگئے تو آپ نے عمومی اورخصوصی طورپر قبیلوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔اے بنو کعب اپنے نفسوں کو آگ سے بچاؤ ،اے بنو مروہ بن کعب اپنے نفسوں کو آگ سے بچاؤ، اے بنو عبد شمس اپنے نفسوں کو آگ سے بچاؤ،اے بنو عبد مناف اپنے نفسوں کو آگ سے بچاؤ، اے بنو ہاشم اپنے نفسوں کو آگ سے بچاؤ، اے بنو عبدالمطلب اپنے نفسوں کو آگ سے بچاؤ، اے فاطمہ بنت محمد اپنے نفس کو آگ سے بچا،بلاشبہ میں اللہ سے کسی شئے کا تمہارے لئے مالک نہیں ہوں۔ (مسلم شریف) جہنم سے پوری طاقت سے دور بھاگو (حدیث)حضرت کلیب بن حزن ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے فرماتے سنا: اُطْلُبُوا الْجَنَّةَ جَهْدَكُمْ، وَاهْرَبُوا مِنَ النَّارِ جَهْدَكُمْ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ لا يَنَامُ طَالِبُهَا، وَإِنَّ النَّارَ لا يَنَامُ هَارِبُهَا، أَلا إِنَّ الآخِرَةَ الْيَوْمَ مُحَفَّفَةٌ بِالْمَکَارِهِ، وَإِنَّ الدُّنْيَا مُحَفَّفَةٌ بِالشَّهَوَاتِ ۔ جنت کو اپنی پوری کوشش کے ساتھ طلب کرو اورجہنم سے اپنی پوری کوشش کے ساتھ دور بھاگو پس جنت کے طالب کو سونا نہیں چاہیے اورجہنم سے بھاگنے والے کو(بھی) نہیں سونا چاہیے کیونکہ آخرت آج ناپسندیدہ اشیاء کے احاطہ میں ہے اوربلاشبہ دنیا لذات اورشہوات کے احاطہ میں ہے ۔ (المعجم الکبیر لطبرانی ) حضورﷺ نے جہنم سے بھاگنے والے کو سونے والانہیں دیکھا (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ النَّارِ نَامَ هَارِبُهَا وَلَا مِثْلَ الْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا میں نے آگ جیسی چیز سے بھاگنے والے کو سونے والا نہیں دیکھا اورجنت کی مثل طلب گار کو سونے والا بھی نہیں دیکھا۔ (ترمذی، طبرانی) جہنم سے بھاگنے والا کیوں سوگیا؟ ھرم بن حیان کبھی کبھی رات کو نکلتے تھے اوربلند آواز سے یہ منادی کرتے تھے مجھے تعجب ہے کہ جنت کا طالب کیسے سوگیا ہے؟ مجھے تعجب ہے کہ جہنم سے دور بھاگنے والا کیسے سوگیا ہے،پھر یہ آیت پڑھتے تھے: أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ (الأعراف:۹۷) ترجمہ:کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر(بھی) ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ پڑے سوتےہوں۔ میناروں پر چڑھ کر جہنم سے بچنے کی منادی کریں ابوالجوزاء فرماتے ہیں کہ لوگوں کا کچھ معاملہ اگر میرے سپرد کردیا جائے تو میں راستہ پر ایک مینار بنواؤں اوراس پر چند آدمیوں کو مقرر کروں جو لوگوں کو یہ منادی کریں جہنم سے بچو جہنم سے بچو (کتاب الزھد امام احمد) حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں،اگر میں کچھ مدد گار پاؤں تو رات کے وقت بصرہ کے مینار پر منادی کروں کہجہنم کی آگ سے بچو جہنم کی آگ سے بچو پھر فرمایا اگر میں کچھ مدد گار پاؤں تو ان کو دنیا کے میناروں کی طرف پھیلادوں اوروہ یہ منادی کریں اے لوگو جہنم کی آگ سے بچو جہنم کی آگ سے بچو۔ (زوائد کتاب الزھد امام عبداللہ بن امام احمد)