انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ابو شریحؓ نام ونسب ابو شریح کے نام میں بہت اختلاف ہے،بعض خویلد،بعض عمرو،بعض کعب اور بعض ہانی بتاتے ہیں،ابو شریح کنیت ہے اور اسی سے وہ مشہور ہیں، نسب نامہ یہ ہے ،خویلد بن عمرو بن ضحر بن عبدالعزی بن معاویہ بن محترش بن عمرو بن زمانہ بن عدی بن عمرو بن ربیعہ خزاعی کعبی اسلام و غزوات فتح مکہ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے،فتح مکہ میں شریک تھےاور بنی کعب کا ایک نشان ان کے ہاتھ میں تھا۔ (ابن سعد،جلد۴،ق۲،صفحہ:۳۲) وفات ۶۸ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔ (ایضاً) فضل وکمال ابو شریح کا شمار عقلائے مدینہ میں تھا،(استیعاب :۲/۷۱۶) مذہبی علوم میں کوئی امتیازی حیثیت نہیں رکھتے تھے،ان سے بیس حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے دو متفق علیہ ہیں اور ایک میں امام بخاری اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں، ابو سعید مقبری اورنافع بن جبیر وغیرہ نے ان سے رویتیں کی ہیں۔ (تہذیب الکمال:۴۵۲) تبلیغ فرمان رسول ابو شریح کو جس کی جانب سے بھی کسی فرمان رسول کی مخالفت نظر آتی خواہ وہ کتنی ہی بڑی شخصیت وقوت کیوں نہ ہوتی فوراً اس کو متنبہ کرتے،عمرو بن زبیرؓ اورعبداللہ بن زبیرؓ دونوں بھائیوں کے اختلافات کے زمانہ میں جب عمرو نے مکہ پر چڑھائی کی تو ابو شریح نے عمرو کو آنحضرتﷺ کے تحریم حرم کے حجۃ الوداع والے خطبہ کا حوالہ دیکر روکا، عمرو نے کہا بڑے میاں آپ جایے میں آپ سے زیادہ حرم کی حرمت سے واقف ہوں، حرم خون ریزی کرنے والوں، باغیوں اور جزیہ روکنے والوں کو پناہ نہیں دیتا، ابو شریح نے کہا میں تحریم حرم کے خطبہ کے وقت موجود تھا اور تم نہ تھے اور آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا، کہ جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو جو موجود نہیں ہیں، خبر کردیں،اس لیے میں نے تم کو خبر کردی،آیندہ تمہیں اختیار ہے (اسد الغابہ:۵/۲۲۶)اسی طرح جس زمانہ میں عمرو بن سعید اموی عبداللہ بن زبیرؓ کے مقابلہ کے لیے مکہ فوجیں بھیج رہا تھا،تو اس کو بھی آنحضرتﷺ کا خطبہ سنایا، اس نے جواب دیا، میں تم سے زیادہ واقف ہوں،لیکن حرم، نافرمان،مفرور،قاتل اورجزیہ روکنے والوں کو پناہ نہیں دیتا۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۲۲۵) فیاضی وہ بڑے فیاض اوردریادل تھے،لوگوں کو اپنی چیزوں کے استعمال کی عام اجازت دے رکھی تھی اوراعلان کردیا تھا کہ جب تم دیکھو کہ میں اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے روکتا ہوں تو مجھے مجنوں سمجھو اور داغ کر میرا علاج کرو اورجو شخص ابو شریح کا دودھ ،گھی اور برہ وغیرہ پائے ،تو وہ اس کے لیے حلال ہے اور اس کو بلا تکلف کھا پی سکتا ہے۔ (استیعاب:۲/۷۱۶)