انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہدایات وتبصرہ خاندانِ بنوعباس کی حکومت وخلافت کواب تک ڈیڑھ سوبرس گزرچکے تھے، خلافتِ عباسیہ کی شان وشوکت اور عروج کا زمانہ پورے سوبرس تک رہا اور معتصم باللہ کی وفات یعنی سنہ۲۲۷ھ سے زوال کی علامات شروع ہوگئیں اور خلافت پرانتشار کا زمانہ طاری رہا، اس بیس سال کے عرصہ میں یہ توقع رہی کہ خلافتِ عباسیہ پھراپنی اسی صدسالہ شان وشوکت اور قوت وعظمت کوواپس لاسکتی ہے؛ لیکن سنہ۲۴۷ھ میں متوکل علی اللہ کے قتل ہونے پریک لخت اس کے تمام اعضاء مضمحل ہوگئے اور اس پراس طرح بڑھاپا چھاگیا کہ عظمتِ رفتہ کے واپس آنے کی کوئی توقع نہ رہی، اس ضعیفی وپیری کے ۳۲/سال بھی ہم مطالعہ کرچکے ہیں، ابھی یہ ضعیف وناتواں خلافت کئی سوبرس تک زندہ رہنے والی ہے، حکومت اسلامیہ کے بہت سے مرکز الگ الگ قائم ہوچکے ہیں اور بہت سے قائم ہونے والے ہیں، بہت جلد ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ خلافتِ بغداد یاخلافتِ عباسیہ میں نام کی ایک عظمت باقی رہ جائے گی اور وہ خود کوئی طاقت نہ ہوگی۔ اندرین صورت اگرآئندہ خلافت خلفاء عباسیہ کے حالات اسی تناسب اور اسی مذکورہ وسعت کے ساتھ بیان ہوئے توتاریخ کی دلچسپی غائب ہوجائے گی اور پڑھنے والوں کے دماغ پرایک نامناسب بوجھ پڑجائے گا؛ لہٰذا باوجود اس کے کہ اب تک جوکچھ لکھا جاچکا ہے اور اس میں اختصار کوبہت مدنظررکھا گیا ہے، آئندہ اس سے بھی زیادہ اختصار وایجاز سے کام لیا جائے گا، خلیفہ معتمد باللہ کے عہد خلافت کا جوحال اوپر لکھا جاچکا ہے، اس کی بے ترتیبی خود اس امر کی شاہد ہے کہ ان خلفاء کے ذاتی حالات میں قابل تذکرہ اور اہم واقعات بہت ہی کم ہوسکتے ہیں، ہاں ان کے عہد خلافت میں دوسروں کے واقعات اور کارنامے لاتعداد ہیں؛ کیونکہ نئے نئے سلسلے اور نئے نئے خاندان حکومت نمایاں ہورہے ہیں، ان تمام خاندانوں اور تمام سلسلوں کا متوازی لے چلنا محال اور غیرممکن ہے؛ مگراس کی ابتداء کا کہ کس طرح خاندان عباسیہ کے تعلق سے وہ برسراقتدار آئے، تذکرہ اشارتاً دینا ضروری تھا؛ تاکہ جب ان کا حال مستقل طور پرالگ شروع کیا جائے تواس ابتدائی تذکرہ کی طرف اشارہ کیا جاسکے، آئندہ بھی جوجو نئے خاندان حکومت خلافت عباسیہ کے تعلق سے پیدا ہوں گے، ان کا تدکرہ انشاء اللہ حسب موقع کیا جائے گا۔ خاندانِ بنواُمیہ کی سب سے بڑی خطا یہ ہے کہ اس نے ولی عہدی کووراثت میں داخل کرکے حکومتِ اسلامیہ کی بربادی کا سامان کیا اور رسم بد کا مسلمانوں کو عادی بنایا، خاندانِ بنوعباس کی خطا بھی ان سے کسی طرح کم نہیں ہے کہ انہوں نے بنواُمیہ کی ہرایک چیز کومٹایا اور ان کی یادگاروں کوفنا کیا؛ مگراس رسم بد کی خوب حفاظت کی اور مسلمانوں کی بربادی کے اس سامان کومضبوط سے مضبوط تربناتے رہے، دوسری غلطی ان کی یہ تھی کہ شروع ہی سے اہلِ عرب کے مخالف اور نومسلم ایرانیوں کے ہمدرد رہے، سفاح سے لے کرمامون الرشید تک سوائے ایک مہدی کے ہرایک خلیفہ نے عربوں کی طاقت کوگھٹایا اور مجوسی النسل لوگوں کواُبھارا اور آگے بڑھایا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاندانِ عباسیہ کوبنواُمیہ کی فتوحات کے دائرے سے آگے قدم رکھنا نصیب نہ ہوا اور دم بہ دم ان کی حکومت وسلطنت کا رقبہ محدود ہی ہوتا چلا گیا، اسلام کی حقیقی شان اور اسلامی اخلاق پرمجوسیت کا ایک ہلکا ساغبارچھا گیا؛ یہی مجوسی النسل لوگ خلفاء عباسیہ کے لیے باعثِ مشکلات رہے؛ مگرذی حوصلہ عباسی خلفاء ان مشکلات پرغالب آتے رہے، معتصم باللہ نے مجوسیوں کی قابو یافتہ اور زبردست جماعت کے مقابلہ میں ماوراء النۃر کے ترکوں کی جن کا آبائی مذہب تومجوسیت ہی تھا؛ مگرقوم اور نسل کے اعتبار سے جدا اور خراسانیوں کے غیر تھے، ایک نئی جماعت تیار کی، معتصم باللہ کی یہ تدبیر ضرور مفید ثابت ہوتی؛ اگروہ ترکوں کی نئی جماعت کوخراسانیوں سے زیادہ طاقتور نہ بناتا اور عربوں کوبھی ترقی دے کران دونوں جماعتوں کا ہمسر بنادیتا؛ مگرعربوں کا تعلق خاندان خلافت سے بہ دستور کم اور منقطع ہوتا رہا اور معتصم باللہ کا سامرہ یعنی ترکی بستی میں سکونت پذیر ہونا ترکوں کی حد سے زیادہ ترقی کا موجب ہوا، معتصم باللہ نے غالباً ترکوں کواس لیے پسند کیا تھا کہ وہ علویوں کے اثر سے پاک تھے، عربوں سے اسی لیے اس خاندان نے نفرت کی تھی کہ علوی بھی عرب تھے؛ مگرعلویوں کا اثر مجوسی النسل یعنی ایرانیوں پرجن سے بنوعباس نے کم کیا تھا، عربوں کی نسبت بھی زیادہ تھا، اسی لیے مشکلات کا سامنا رہنا تھا، معتصم نے دونوں گروہوں کوچھوڑ کرایک خالی الذہن تیسرے گروہ کومنتخب کیا؛ مگرترک، ایرانیوں کی طرح شائستہ اور انتظام سلطنت سے واقف نہ تھے، ان کے لیے ضرورت تھی کہ ایک زبردست اور چوکس ہاتھ ان سے کام لے اور اپنے کام کا بنائے، معتصم کے جانشینوں میں اگرہارون ومامون کا دل ودماغ رکھنے والے چند شخص اور ہوتے توخلافتِ عباسیہ کی عظمت وشکوت اور بھی ترقی کرجاتی اور معتصم کا سامرہ کودارالسلطنت بنانا بڑی ہی غیرعاقلانہ تدبیر سمجھی جاتی؛ مگرمعتصم کے جانشینوں کی کمزوری اور عربی عنصر کے ضعیف ترہوجانے اور سامرہ کے دارالسلطنت ہونے نے ایک طوفان بے تمیزی برپا کردیا اور معتصم کے جانشینوں کی کمزوری ونالائقی کا کوئی علاج کسی سے ممکن نہ ہوا (ان حالات کی اصل وجہ اعیانِ سلطنت اور عامۃ المسلمین کی اسلام سے دوری تھی، اسلام تواتفاق واتحاد اور اجتماعیت کا درس دیتا ہے اور اسلام کے اصول وضوابط اور احکام ومسائل پرعمل کرنے سے اتفاق واتحاد اور اجتماعیت پیدا ہوتی ہے، برکات کا دور دورہ ہوتا ہے، خلافتِ اسلامیہ کے حالات پراجمالی نظر ڈالنے سے ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ خلفائے راشدین وغیرہ کوچھوڑ کر، حکومتی اور عوامی ہردوسطح پرجیسے جیسے اسلام پرعمل کرنے سے انحراف اختیار کیا گیا؛ اسی نسبت سے بگاڑ بڑھتا گیا اور مسلمانوں کی اجتماعی قوت ختم ہوتی چلی گئی) ترک ایک خالص فوجی قوم تھی، جس کے پاس دماغ نہ تھا؛ لہٰذا وہ نہ تواپنی حکومت وسلطنت قائم کرسکے، نہ علویوں کی خلافت قائم کرنے کی طرف متوجہ ہوئے، علوی لوگ اب تھک کراور مایوس ہوکر بیٹھ چکے تھے اور بہ ظاہر کسی ایسے ہی عظیم الشان خطرے کا کوئی اندیشہ خلافتِ عباسیہ کے لیے باقی نہ رہا تھا۔ جب معتصم کے بعد خود دارالخلافہ میں ہنگاموں اور بدتمیزیوں کا طوفان برپا ہوا تومرکز خلافت کی اس حالت کااثر تمام صوبوں پرہوا اور جہاں جوعامل یاوالی تھا وہ اپنی خودمختاری اور جداگانہ سلطنت قائم کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہوگیا، اندلس، مراکش اور افریقہ کی مثالیں ان کے سامنے موجود تھیں، قلب کے ماؤف ہوتے ہی تمام اعضاء کا دورانِ خون بند ہوگیا اور ان صوبہ داروں اور عاملوں کی خودمختاری وافراتفری دیکھ کرعلوی، خارجی، زنگی، قرمطی وغیرہ بھی قسمت آزمائی کے لیے کھڑے ہوگئے، اب وہ حالت پیدا ہوگئی کہ منصور، ہارون ومامون بھی اگرہوتے توشاید کامیاب نہ ہوسکتے تھے، متوکل کا قتل خلافتِ عباسیہ کے لیے نہایت منحوس واقعہ تھا، متوکل کے بعد ہی اگرموفق تخت نشین ہوجاتا توممکن تھا کہ وہ حالات کوسنبھال لیتا مگرموفق کوبحیثیت خلیفہ کام کرنے کا موقع نہ ملا اور اس کے بیٹے معتضد کوجواپنے باپ ہی کی طرح ذی حوصلہ وباہمت تھا، اس وقت خلافت ملی جب کہ مرض لاعلاج ہوچکا تھا۔