انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت محمد بن عبدالرحمن انصاری نام ونسب محمد نام،ابو عبدالرحمن کنیت تھی،نسب نامہ یہ ہے: محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ یسار بن بلال بن بلیل بن احیحہ بن الحلاج بن الحریش بن حججیا بن کلفہ بن عوف بن عمرو بن عوف اوسی انصاری،اپنے دادا کی طرف منسوب ہوکر عام شہرت ابن ابی لیلیٰ کے نام سے پائی۔ نشو نما محمد بن عبدالرحمنٰ کا خاندان،حسب ونسب اور شرف وکمال میں شروع ہی سے بلند رتبہ اورممتاز خیال کیا جاتا تھا؛چنانچہ ان کے جدِ امجد یسارؓ نے حضور اکرم ﷺ کے دیدار سے اپنی آنکھیں منور کی تھیں،جنگِ احد وغیرہ متعدد غزوات میں وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب رہے اورشرفِ جہاد حاصل کیا،آخر میں کوفہ آکر مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ اسی طرح ان کے والد عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے بھی اپنے والدکے علاوہ کثیر التعداد صحابہ کرام کی صحبت سے فیض اُٹھایا اور پھر خود بھی بلند پایہ تابعین میں شمار کیے گئے، اس خاندانی نسبت وشرف سے محمد بن عبدالرحمن کو بہرہ وافر نصیب ہوا، ان کے سنِ ولادت کا تو پتہ نہیں چلتا،لیکن اغلباً پہلی صدی ہجری کے ربع آخر میں کوفہ میں پیدا ہوئے،اس لیے کہ انہیں اپنے والد سے کسب فیض کا موقع نہ مل سکا تھا،جن کی وفات ۸۳ھ میں ہوئی۔ (شذرات الذہب:۱/۲۱۱) حدیث محمد بن عبدالرحمن کو حدیث میں کوئی خاص مقام حاصل نہ تھا ؛بلکہ ان کے علم وفضل کی اصلی جولانگاہ فقہ تھی،ان کی محدثانہ حیثیت پر کافی کلام کیا گیا ہے،بہرحال جن أئمہ وعلماء ئے فن کے خرمنِ فیض سے انہیں خوشہ چینی کی سعادت نصیب ہوئی،ان میں چند نمایاں نام یہ ہیں۔ نافع مولیٰ ابن عمرؓ،عطاء بن ابی رباح،سلمہ بن کہیل،داؤد بن علی،اسماعیل بن امیہ اورشعبی وغیرہ (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۱،تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۵۹) تلامذہ اورخود ان سے مستفید ہونے والوں میں امام شعبہؒ،سفیان ثوریؒ،زائدہؒ،سفیان بن عیینہؒ،وکیع ؒ، ابو نعیمؒ، ابن جریجؒ، محمد بن ربیعہؒ،عیسیٰ بن یونسؒ وغیرہ جیس یگانہ زمانہ شخصیتیں شامل تھیں۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۳۸۲) فقہ فقہ میں مہارت ان کا اصلی طغرائے امتیاز تھی، اس فن میں انہیں امام شعبی سے خصوصی تلمذ حاصل تھا،محمد بن عبدالرحمن کی محدثانہ حیثیت پر نقد وجرح کے باوجود تمام ائمہ ومحققین نے ان کی فقیہانہ ژرف نگاہی کا بالاتفاق اعتراف کیا ہے،احمد بن یونس کا قول ہے: کان ابن ابی لیلیٰ افہ اھل الدنیا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۵۴) محمد بن ابی لیلیٰ تمام دنیا کے فقہاء میں سب سے زیادہ تفقہ رکھتے تھے۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں: کان فقہ ابن ابی لیلی احب الینا من حدیثہ (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۲) محمد بن عبدالرحمن کی فقہ ہمارے نزدیک سب سے زیادہ تفقہ رکھتے تھے۔ سفیان ثوریؒ کا بیان ہے: فقھاءنا ابن ابی لیلیٰ وابن شبر مۃ (ایضاً:۳۰۳) ہمارے فقہاء تو صرف ابن ابی لیلیٰ اورابن شبرمہ ہیں۔ علم وفضل علمی اعتبار سے وہ بلند مرتبہ اتباع تابعین میں شمار ہوتے تھے،سوء حفظ کے باوصف حدیث وفقہ میں انہیں کلی دسترس حاصل تھی،ابو حفص الابار خود ان ہی کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ: دخلت علی عطاء فجعل یسألنی وکان اصحابہ انکرواذالک فقال وما تنکرون ھو اعلم منی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۵۴) میں عطاء بن ابی رباح کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ مجھ سے گفتگو کرنے لگے ان کے تلامذہ کو ناگوار گذر رہا تھا،یہ دیکھ کرعطاء نے فرمایا تم لوگ انہیں ناپسند کررہے ہو،یہ مجھ سے بڑے عالم ہیں۔ منصب قضا فقہ وفتاویٰ میں غیر معمولی مہارت اورکمال کی بنا پر وہ طویل ترین مدت تک منصب قضا پر فائز رہے،ان کے فیصلوں اورفتوؤں کو بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا؛چنانچہ ساجی کا بیان ہے کہ کان یمدح فی قضاءِ ہ ما ولى القضاء أحد أفقه في دين الله، ولا أقرأ لكتاب الله، ولا أقول حقا بالله، ولا أعف عن الاموال من ابن أبي ليلى (میزان الاعتدال:۳/۶۱۵) ابن ابی لیلیٰ سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا کتاب اللہ کو پڑھنے والا،حق گو اورمالی امور میں پاکدامن کوئی شخص مسند قضا کی زینت نہیں بنا۔ سلیمان بن مسافر کہتے ہیں کہ میں نے منصور سے ایک بار پوچھا کہ کوفہ میں اس وقت سب سے بڑا فقیہ کون ہے اس نے فوراً جواب دیا ، قاضی کوفہ محمد بن عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ ۔ (ایضاً) اس منصب پر طویل عرصہ تک فائز رہنے کی بنا پر مفتی کوفہ اورقاضی کوفہ ان کے نام کے جز وہی بن گئے تھے،سب سے پہلے یوسف بن عمرو ثقفی نے انہیں قضا کا منصب سپرد کیا تھا،پھر تقریباً ۳۳ سال تک وہ عہد بنی امیہ اورعہد بنی عباس ،دونوں میں اس فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دیتے رہیں۔ (مرأۃ البنان:۱/۳۰۶) جرح وتعدیل اکثر علماء نے محمد بن عبدالرحمن کے حافظہ اورروایتِ حدیث پر سخت نقد کیا ہے؛چنانچہ امام شعبہ کہتے ہیں کہ: مارأیت اسوأ من حفظہ، یحیی ٰ بن سعید القطان کا بیان ہے "سیی الحفاظ جدا"،دار قطنی لکھتے ہیں "ردی الحفظ کثیر الوھم "(تہذیب التہذیب:۹/۳۰۳) ابن حبان کا قول ہے: کان فاحش الخطأردی الحفظ فکثرت المناکیر فی روایتہ۔ وہ بہت فاحش غلطیاں کرتے تھے،حافظہ خراب تھا؛ اس بنا پر ان کی روایات میں مناکیر بکثرت ہیں۔ ساجی بیان کرتے ہیں: کان یمدح فی قضاءِ ہ فاما فی الحدیث فلم یکن حجۃ (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۳) ان کے فیصلوں کو توسراہا جاتاتھا،لیکن حدیث میں وہ حجت نہیں تھے۔ ان تمام تصریحات سے جہاں محمد بن عبدالرحمنٰ کے سوء حافظہ کا ثبوت ملتا ہے،وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان پر کذب کا الزام کسی نے عائد نہیں کیا، حقیقت یہ ہے کہ سوءِ حافظہ کی بنا پر روایت حدیث اور اسناد میں ان سے لغزشیں سرزد ہوجاتی تھیں اس میں ان کے قصدوارادہ کو قطعاً دخل نہیں ہوتا تھا،جیسا کہ ساجی کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ سئی الحفظ لا یعتمد الکذب نیز ابو حاتم نے تصریح کی ہے کہ قضا کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد وہ سوءِ حفظ میں مبتلا ہوگئے تھے اورروایت حدیث میں فاحش غلطیاں کرنے لگے مگر ان پر کذب کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی۔ اسی بنا پر بعض ائمہ ان کی روایات کو قبول کرتے اورانہیں قابلِ حجت قرار دیتے ہیں،عجلی کا قول ہے ۔"کان فقیھا صدوقا صاحب سنۃ جائز الحدیث" (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۳۴۸) علامہ ذہبی ان کی مرویات کو حسن کے درجہ میں تسلیم کرتے ہیں اور میزان الاعتدال میں ان کی متعدد روایات بھی نقل کی ہیں۔ حُلیہ بہت خوب رُو اورحسین وجمیل تھے (تہذیب التہذیب:۹/۳۰۳) وفات رمضان المبارک۱۴۸ھ میں علم کی یہ شمع فروزاں گل ہوگئی (تذکرۃ الحفاظ للذہبی:۱/۱۵۴)وفات کے وقت بھی قاضی کوفہ تھے۔ (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۱۱)