انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیث وقدیم کا فرق عربی میں لفظ حدیث قدیم کے مقابلہ میں بھی ہے،قدیم پُرانے کو کہتے ہیں، اسلامی عقیدے میں قرآن پاک کلام الہٰی ہے جو اللہ تعالی کی صفت ہے اور کلام قدیم ہے یہ مخلوق CREATEDنہیں،لیکن حضور اکرمﷺ کا کلام حدیث ہے قدیم نہیں، آپﷺ بھی اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں، آپ کی ذات حادث ہے قدیم نہیں،ذات قدیم کا کلام قدیم ہوگا اور ذات حادث کے کلام کو حدیث کہتے ہیں، قرآن پاک کا غیر مخلوق ہونا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے،سو ضروری تھا کہ علم اسلامی کا دوسرا سر چشمہ حدیث کہلائے، تاکہ کلامِ خالق اور کلام ِمخلوق میں اصولی فرق عنوان میں بھی باقی رہے۔ حافظ شمس الدین البخاری لکھتے ہیں: "والحدیث لغۃ ضد القدیم واصطلاحا ما اضیف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قولا لہ اوفعلا اوتقریرا اوصنعۃ حتی الحرکات والسکنات"۔ (فتح المغيث شرح ألفية الحديث:۱/۱۰،شاملہ، الناشر: دارالكتب العلمية،لبنان) اور حدیث لغت میں لفظ قدیم کی ضد ہے اور اصطلاحاً اس سے ہروہ بات مراد ہے جسے حضورﷺ کی طرف نسبت کیا گیا ہو، قول سے یافعل سے یا اس کی توثیق سے یا صورت سے؛ یہاں تک کہ حرکات وسکنات سے۔ مسلمان کلام قدیم اور کلام حدیث دونوں پر ایمان رکھتے ہیں اور دونوں کو دین میں حجت اور سند سمجھتے ہیں، ان دونوں ماخذوں کی اصل اللہ رب العزت کی ذات ہے، حضور اکرمﷺ نے اللہ تعالی کے نام سے جو کتاب پیش کی وہ قرآن کریم اور کلام قدیم ہے اور اللہ تعالی کی جس ہدایت کو آپ نے اپنے الفاظ یا عمل سے ظاہر فرمایا اسے حدیث کہتے ہیں۔