انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فقہ حنفی میں ظاہر الفاظ حدیث کی رعایت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کواللہ تعالیٰ نے جومقام بخشا تھا، اس کی بناء پر ان کے حاسدین بے شمار تھے اور انھوں نے امام صاحبؒ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور کررکھی تھیں، مثلاً یہ پروپگنڈہ توعام تھا کہ امام صاحبؒ قیاس کواحادیث پر ترجیح دیتے ہیں، یہ پروپگنڈہ اس شدت کے ساتھ کیا گیا کہ بعض ایسے اہلِ علم بھی اس سے متاثر ہوگئے، جوامام ابوحنیفہؒ کے حالات سے ذاتی طور پر واقف نہیں تھے؛ لیکن اہلِ علم میں سے جن حضرات کوحقیقتِ حال کا علم ہوگیا؛ انھوں نے بعد میں امام صاحبؒ کی مخالفت سے رجوع بھی کرلیا، ابنِ عبدالبرؒ کہتے ہیں کہ جہاں تک میرا علم ہے ہرعالم کے نزدیک آیتوں میں تاویل موجود ہے؛ نیزاحادیث کی بابت اس کا ایک مذہب ہے، جس کے مطابق دوسری حدیث کی مناسب تاویل کرتا، چھوڑتا، یانسخ کا دعویٰ کرتا ہے، یہ بات ضرور ہے کہ ایسی باتیں دیگر مجتہدین کے یہاں کم اور امام ابوحنیفہؒ کے یہاں نسبتاً زیادہ ہے، ائمہ حدیث میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جورسول اللہﷺ کی حدیث مانے اور پھراس کو قیاس سے رد کردے؛ البتہ کسی تاویل سے ممکن ہے، مثلاً:یہ دعویٰ کرے کہ یہ حدیث اس جیسی فلاں حدیث، یااجماع سے منسوخ ہے، اس کی سند میں یہ نقص ہے یااور کوئی قاعدہ ذکر کرے، جس پر عمل کرنا اس کے نزدیک ضروری ہو؛ ورنہ بصورتِ دیگر اس کی عدالت ختم ہوجائے گی، ایسا کرنے پرامام فاسق ہوجائے گا؛ حالانکہ ان ائمہ دین کواللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ رکھا ہے، یہ لوگ قیاس اس وقت کرتے ہیں، جب قرآن، حدیث، قول یاعمل صحابی، اجماع، کچھ بھی نہ ہو اور ضرورت اس کی مقتضی ہو۔ (تذکرۃ النعمان:۳۵۱،۳۵۲) تمام احناف اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ ضعیف اور مرسل حدیث رائے سے بہتر ہے، اس کے ہوتے ہوئے قیاس جائز نہیں، حدیث رسولﷺ پر ان کی خاص توجہ ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ انھوں نے احادیث مرسلہ پر عمل کرنے کورائے پر عمل کرنے سے مقدم رکھا ہے، یہ بات ابنِ قیم جوزیؒ اور دوسرے علماء سے بھی منقول ہے۔ (اعلام الموقعین:۱/۸۲) (۱)مثلاً امام ابوحنیفہؒ نے نماز میں قہقہہ سے وضوء کوضروری قرار دیا ہے؛ حالانکہ اس بارے میں جوحدیث ہے وہ خبرِواحد اورضعیف ہے، حدیث میں ہے کہ قہقہہ سے وضوء اور نماز دونوں فاسد ہوتے ہیں؛ جب کہ قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ وضوء نہ ٹوٹے؛ کیونکہ قہقہہ میں نجاست کا خروج نہیں ہوتا کہ وہ ناقضِ وضوء ہو؛ لیکن احناف نے قیاس کواس خبرِواحد کی وجہ سے چھوڑ دیا، آپؐ کا ارشاد ہے: "مَنْ كَانَ مِنْكُمْ قَهْقَهَ فَلْيُعِدِ الْوُضُوءَ وَالصَّلاَةَ"۔ (سنن دارِقطنی، کتابالطهارة،باب فِى مَارُوِىَ فِيمَنْ نَامَ قَاعِدًا وَقَائِمًاوَمُضْطَجِعًا وَمَايَلْزَمُ مِنَ الطَّهَارَةِ فِى ذَلِكَ،حدیث نمبر،۶۳۲،شاملہ، موقع وزارة الأوقاف المصرية) جوشخص قہقہہ لگائے اس کوچاہئے کہ وضوء اور نماز دونوں کا اعادہ کرے۔ چنانچہ علامہ شامیؒ نے قہقہہ کونواقضِ وضوء میں شمار کیا ہے، آپ تحریر کرتے ہیں: "وقہقہۃ بالغ"۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار:۱/۲۷۵) اور بالغ شخص کا قہقہہ لگانا۔ (۲)جب روزہ دار بھول کر کھاپی لے توامام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں کہ اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا؛ کیونکہ آپﷺ کا ارشاد ہے: "مَنْ أَكَلَ أَوْشَرِبَ نَاسِيًافَلَايُفْطِرْ فَإِنَّمَا هُوَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ"۔ (سنن الترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الصَّائِمِ يَأْكُلُ أَوْيَشْرَبُ نَاسِيًا،حدیث نمبر،۶۵۴،شاملہ، موقع الإسلام) جوشخص بھول کرکھاپی لے وہ روزہ افطار نہ کرے اس لیے کہ یہ وہ رزق ہے جواس کواللہ نے کھلایا ہے۔ حدیثِ پاک میں روزہ کی حالت میں بھول کر کھانے پینے کومعاف قرار دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، جب کہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ روزۃ ٹوٹ جائے؛ کیونکہ مفسدِ صوم چیز یعنی کھانا پینا پایا گیا؛ اگرچہ اس کا صدور بھول کرہوا ہے، قیاس ہی کے مطابق امام مالکؒ کا مذہب یہ ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؛ مگرامام ابوحنیفہؒ نے اس جگہ مذکورہ خبرِواحد کی وجہ سے قیاس کوچھوڑدیا۔ (۳)روزہ دار کااپنی کوشش سے قے کرنا رائے اور قیاس کی رو سے مفسدِ صوم نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں اخراج(قی کرنا) پایا جارہا ہے اور اندرداخل ہونا نہیں پایا جارہا ہے؛ جب کہ روزہ داخل ہونے والی چیزوں (مثلاً کھانا پینا وغیرہ) سے ٹوٹتا ہے، خارج ہونے والی چیزوں (مثلاً پیشاب پاخانہ) سے نہیں ٹوٹتا؛ لیکن حدیث میں صراحت ہے کہ اپنی کوشش وعمل سے قے کرنا روزہ کوتوڑدیتا ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: "وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ"۔ (سنن الترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِيمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا،حدیث نمبر،۶۵۳،شاملہ، موقع الإسلام) کہ جوشخص بہ تکلف قی کرے وہ روزہ کی قضاء کرے۔ اس حدیث کی بناء پرامام ابوحنیفہؒ نے رائے کوچھوڑ دیا اور خبرِواحد پرعمل کیا۔ (۴)احناف کا کہنا ہے کہ اگرنمازکے دوران کسی مصلی کوحدث لاحق ہوجائے تواس کے لیے جائز ہے کہ وہ صف سے نکل کرکسی قریبی جگہ پر جہاں پانی میسر ہو، وضو کرے اور واپس آکرسابقہ افعال پر بنا کرے؛ جب کہ قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ جائز نہ ہو اس لیے کہ وضو کے لیے جانا اور آنا عملِ کثیر ہے اور دورانِ نماز عملِ کثیرسے نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ لیکن احناف نے حدیث کی وجہ سے اس قیاس کوچھوڑ دیا، حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کا ارشاد ہے: "مَنْ أَصَابَهُ قَيْءٌ أَوْرُعَافٌ أَوْقَلَسٌ أَوْمَذْيٌ فَلْيَنْصَرِفْ فَلْيَتَوَضَّأْ ثُمَّ لِيَبْنِ عَلَى صَلَاتِهِ وَهُوَفِي ذَلِكَ لَايَتَكَلَّمُ"۔ (سنن ابنِ ماجہ، كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا،بَاب مَاجَاءَ فِي الْبِنَاءِ عَلَى الصَّلَاةِ،حدیث نمبر،۱۲۱۱،شاملہ، موقع الإسلام) جس شخص کوقے یانکسیر یامذی دورانِ نماز نکل جائے تووہ لوٹ کرازسرِ نووضو کرے؛ پھراسی نماز پربنا کرے؛ درآں حالیکہ اس سے اس دوران بات چیت کا صدور نہ ہوا ہو۔ (۵)قیاس کا تقاضہ تویہ ہے کہ نوم بلاتفریق ہرحال میں ناقضِ وضو ہو؛ جیسا کہ بے ہوش ہوجانا ہرحال میں ناقضِ وضو ہے؛ کیونکہ نقض وضو کی علت دونوں میں مشترک ہے؛ لیکن چونکہ نیند کے متعلق حدیث میں تفصیل آئی ہے کہ نماز میں قیام، قعود اور رکوع وسجود کی حالت میں کوئی سوجائے تواس پر وضو لازم نہیں، ابنِ عباسؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں: "كَانَ يَسْجُدُ وَيَنَامُ وَيَنْفُخُ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي وَلَايَتَوَضَّأُ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ صَلَّيْتَ وَلَمْ تَتَوَضَّأْ وَقَدْ نِمْتَ فَقَالَ إِنَّمَاالْوُضُوءُ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا"۔ (سنن ابوداؤد،كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب فِي الْوُضُوءِ مِنْ النَّوْمِ،حدیث نمبر،۱۷۴،شاملہ، موقع الإسلام) رسول اللہﷺ پرحالتِ سجدہ میں نیند کا غلبہ ہوتا اور آپ لمبے لمبے سانس لیتے؛ پھرآپ کھڑے ہوتے اور نماز ادا کرتے اور وضو نہ فرماتے، میں نے آپؐﷺ سے عرض کیا، آپ نے نماز ادا کی اور وضو نہیں کیا؛ درآنحالیکہ آپ سوگئے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا وضو اس شخص پر ہے جولیٹ کرسوجائے۔ اس لیے ہرنیند کوناقض وضو نہیں قرار دیا گیا اور حدیث پر عمل کرتے ہوئے قیاس کوچھوڑ دیا گیا؛ چنانچہ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں: "وَالْإِغْمَاءِ حَدَثٌ فِي الْأَحْوَالِ كُلِّهَا، وَهُوَالْقِيَاسُ فِي النَّوْمِ إلَّاأَنَّاعَرَفْنَاهُ بِالْأَثَرِ، وَالْإِغْمَاءُ فَوْقَهُ فَلَايُقَاسَ عَلَيْهِ"۔ (ہدایہ:۱/۲۶) بے ہوشی ہرحال میں ناقضِ وضو ہے اور نیند کی بابت بھی قیاس یہی ہے کہ (وہ ہرحال میں ناقضِ وضو ہو) مگرنیند (میں تفصیل) کوہم نے حدیث سے معلوم کیا ہے اور اغماء نیند سے بڑھ کر بھی ہے؛ اس لیے نیند کواغماء پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ (۶)اسی طرح اگرکنوئیں میں نجاست گرجائے توازروئے قیاس اس میں دوصورتیں بنتی ہیں، ایک تویہ کہ نجاست نکال دینے کے باوجود بھی کنواں پاک نہ ہو؛ کیونکہ اس کی دیوار وغیرہ پر جونجاست لگی ہے، اس سے پاکی ممکن نہیں، دوسری صورت یہ کہ کنوئیں کا پانی جاری پانی کے حکم میں ہوکہ کبھی ناپاک ہی نہ ہو؛ لیکن چونکہ کنوئیں کے بارے میں آثارِ صحابہؓ پائے جاتے ہیں، حضرت عطاء بیان کرتے ہیں: "أَنَّ حَبَشِيًّا وَقَعَ فِي زَمْزَمَ فَمَاتَ فَأَمَرَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَنُزِحَ مَاؤُهَا فَجَعَلَ الْمَاءَ لاَيَنْقَطِعُ، فَنَظَرَ فَإِذَا عَيْنٌ تَجْرِي مِنْ قِبَلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَسْبُكُمْ"۔ (طحاوی:۱/۱۶۔ شرح معانی الآثار، صفحہ نمبر:۱/۱۳،شاملہ) ایک حبشی بئر زمزم میں گرکرمرگیا، عبداللہ بن زبیرؓ نے کنوئیں کا پانی نکال دینے کا حکم دیا؛ چنانچہ کنوئیں کا پانی نکالا گیا؛ لیکن پانی برابر آتا رہا؛ پھرجب ابنِ زبیرؓ نے دیکھا کہ حجرِاسود کی جانب سے ایک چشمہ بہہ رہا ہے توآپ نے فرمایا: جتنا پانی نکال دیا ہے وہ کافی ہے۔ اور حضرت میسرہ کی روایت ہے: "أَنَّ عَلِيًّا رضي الله عنه قَالَ فِي بِئْرٍ وَقَعَتْ فِيهَا فَأْرَةٌ فَمَاتَتْ. قَالَ يُنْزَحُ مَاؤُهَا"۔ (طحاوی:۱/۱۶۔ شرح معانی الآثار، صفحہ نمبر:۱/۱۴،شاملہ) حضرت علیؓ نے ایک ایسے کنوئیں کے بارے میں جس میں چوہا گرکر مرگیا تھا، فرمایا کہ اس کا پانی نکالا جائےگا۔ کنوئیں کے مسائل ان آثار پر مبنی ہیں اس لیے قیاس کوچھوڑ دیا گیا، چنانچہ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں: "وَمَسَائِلُ الْآبَارِ مَبْنِيَّةٌ عَلَى اتِّبَاعِ الْآثَارِ دُونَ الْقِيَاسِ"۔ (ہدایہ:۱/۱۴) اورکنوئیں کے تمام مسائل اتباع آثار پر مبنی ہیں نہ کہ قیاس پر۔ (۷)مسئلہ محاذات میں قیاس کا تقاضہ تویہ ہے کہ مرد کی نماز بھی فاسد نہ ہو، جیسے عورت کی نماز فاسد نہیں ہوتی؛ کیونکہ محاذات کا تحقق دونوں سے ہوا ہے، ایک سےنہیں؛ لیکن چونکہ حدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہےکہ مرد کی نماز فاسد ہوجاتی ہے، حضرت عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کا ارشاد ہے: "لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى"۔ (سنن الترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُوالْأَحْلَامِ وَالنُّهَى،حدیث نمبر،۲۱۱،شاملہ، موقع الإسلام) مجھ سے قریب بالغ اور عقلمند لوگ کھڑے رہیں۔ اس حدیث کی بناء پرقیاس کوچھوڑ دیا گیا ہے؛ چنانچہ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں: "وَإِنْ حَاذَتْهُ امْرَأَةٌ وَهُمَا مُشْتَرَكَانِ فِي صَلَاةٍ وَاحِدَةٍ فَسَدَتْ صَلَاتُهُ إنْ نَوَى الْإِمَامُ إمَامَتَهَا وَالْقِيَاسُ أَنْ لَاتَفْسُدَ وَهُوَقَوْلُ الشَّافِعِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ اعْتِبَارًا بِصَلَاتِهَا حَيْثُ لَاتَفْسُدُ، وَجْهُ الِاسْتِحْسَانِ مَارَوَيْنَاهُ وَأَنَّهُ مِنْ الْمَشَاهِيرِ" (ہدایہ:۱/۱۲۴) اگرکوئی عورت مرد کے برابر کھڑی ہوگئی، اس حال میں کہ دونوں ایک نماز میں مشترک ہوں تومرد کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اگرامام نے عورت کی امامت کی نیت کرلی، قیاس کا تقاضہ تویہ ہے کہ مرد کی نماز فاسد نہ ہو اور یہی حضرت امام شافعیؒ کا قول بھی ہے، عورت کی نماز پر قیاس کرتے ہوئے کہ عورت کی نماز فاسد نہیں ہوتی، وجہ استحسان وہ حدیث ہے جوہم روایت کرچکے ہیں جوکہ احادیث مشہورہ میں سے ہے۔ (۸)امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے اور مقتدی اس کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں توان کی نماز ہوجائے گی، قیاس کا تقاضہ تویہ ہے کہ مقتدی کی نماز نہ ہو؛ کیونکہ اس صورت میں مقتدی کی حالت امام کی حالت سے قوی ہے؛ لیکن چونکہ حدیث میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مرض الموت میں بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور صحابہ کرامؓ نے آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھی تھی، اس لیے قیاس کوچھوڑ کر حدیث پر عمل کیا گیا، حدیث میں ہے: "وَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ بِالنَّاسِ وَهُوَجَالِسٌ"۔ (صحیح بخاری،كِتَاب الْأَذَانِ،بَاب إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، شاملہ، موقع الإسلام) رسول اللہﷺ نے اپنے مرض الموت میں بیٹھ کرنماز پڑھائی۔ چنانچہ صاحب ہدایہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں: "وَيُصَلِّي الْقَائِمُ خَلْفَ الْقَاعِدِ وَقَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ: لَايَجُوزُ، وَهُوَالْقِيَاسُ لِقُوَّةِ حَالِ الْقَائِمِ وَنَحْنُ تَرَكْنَاهُ بِالنَّصِّ، وَهُوَمَارُوِيَ أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ صَلَّى آخِرَ صَلَاتِهِ قَاعِدًا وَالْقَوْمُ خَلْفَهُ قِيَامٌ" (ہدایہ:۱/۱۲۷) اورکھڑے ہوکر نماز پڑھنے والا بیٹھ کرپڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے، امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے اور قیاس کاتقاضہ بھی یہی ہے؛ کیونکہ قائم کا حال قاعدہ سے قوی ہے؛ لیکن ہم نے قیاس کوحدیث کی وجہ سے ترک کردیا اور وہ حدیث یہ ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آخری نماز بیٹھ کرپڑھی، جب کہ صحابہ کرامؓ آپ کے پیچھے کھڑے تھے۔ (۹)اعتکاف واجب کے لیے روزہ شرط ہے؛ اگرکسی نے روزے کے بغیر اعتکاف واجب کیا تواس کا اعتکاف نہیں ہوگا، قیاس کا تقاضہ تویہ ہے کہ اعتکاف واجب میں روزہ کی شرط نہ لگائی جائے؛ جیسا کہ امام شافعیؒ کاقول ہے؛ کیونکہ روزہ مستقل عبادت ہے؛ اگراسے دوسری عبادت کے لیے شرط قرار دیں تولازم آئے گا کہ یہ مستقل عبادت نہ رہے؛ لیکن چونکہ حدیث میں ہے کہ روزہ کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا، حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے: "لاَاعْتِكَافَ إِلاَّبِصِيَامٍ"۔ (سنن دارِقطنی،الصيام،حدیث نمبر:۲۳۸۱،شاملہ، موقع الإسلام) کہ روزہ کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا۔ اس لیے قیاس کوچھوڑ کرحدیث پر عمل کیا گیا، صاحب ہدایہ تحریر کرتے ہیں: "وَالصَّوْمُ مِنْ شَرْطِهِ عِنْدَنَا خِلَافًا لِلشَّافِعِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالنِّيَّةُ شَرْطٌ فِي سَائِرِ الْعِبَادَاتِ، هُوَيَقُولُ: إنَّ الصَّوْمَ عِبَادَةٌ وَهُوَأَصْلٌ بِنَفْسِهِ فَلَايَكُونُ شَرْطًا لِغَيْرِهِ. وَلَنَا قَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ﴿ لَااعْتِكَافَ إلَّابِالصَّوْمِ﴾ وَالْقِيَاسُ فِي مُقَابَلَةِ النَّصِّ الْمَنْقُولِ غَيْرُ مَقْبُولٍ"۔ (ہدایہ:۱/۲۲۹) روزہ اعتکافِ واجب کی شرط ہے ہمارے نزدیک،بخلاف امام شافعیؒ کے، وہ فرماتے ہیں کہ روزہ چونکہ مستقل خود ایک عبادت ہے، اس لیے کسی دوسری عبادت کی شرط نہیں بن سکتا، ہماری دلیل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمان ہے کہ روزہ کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا اور منقول حدیث کے مقابلہ میں قیاس نہیں کیا جاتا۔ حضرت امام باقررحمۃ اللہ علیہ جواپنے زمانہ کے محدث اور فقیہ تھے، ان سے امام ابوحنیفہؒ کی ملاقات کاتذکرہ مورخوں نے کیا ہے، مورخین لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام ابوحنیفہؒ مدینہ تشریف لے گئے توامام باقر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، امام صاحبؒ کے ایک ساتھی نے تعارف کرایا کہ یہ امام ابوحنیفہؒ ہیں، امام باقرؓ نے امام صاحبؒ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ہاں! تم ہی قیاس کی بناء پرہمارے دادا کی حدیثوں کی مخالفت کرتے ہو، امام صاحب نے نہایت ادب سے کہا! العیاذ باللہ، حدیث کی کون مخالفت کرسکتا ہے، آپ تشریف رکھیں توکچھ عرض کروں؛ پھرمندرجہ ذیل گفتگو ہوئی: امام ابوحنیفہؒ : مرد ضعیف ہے یاعورت؟۔ امام باقرؓ : عورت۔ امام ابوحنیفہؒ : وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یاعورت کا؟۔ امام باقرؓ : مرد کا۔ امام ابوحنیفہؒ : اگرمیں قیاس کرتا توکہتا کہ عورت کوزیادہ حصہ دیا جائے؛ کیونکہ ضعیف کوظاہر قیاس کی بنیاد پر زیادہ ملنا چاہئے؛ لیکن ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ"۔ (النساء:۱۱) کی وجہ سے قیاس کوترک کردیا۔ پھرپوچھا : نماز افضل ہے یاروزہ؟۔ امام باقرؓ : نماز۔ ابوحنیفہؒ : اس اعتبار سے حائضہ عورت پر نماز کی قضاء واجب ہونی چاہئے نہ کہ روزہ کی؛ حالانکہ میں روزہ ہی کی قضاء کا فتویٰ دیتا ہوں؛ کیونکہ آپﷺ کے عہد مبارک کا تعامل حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: "عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّيَامِ وَلَايَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ"۔ (سنن الترمذی،كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي قَضَاءِ الْحَائِضِ الصِّيَامَ دُونَ الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۷۱۷،شاملہ، موقع الإسلام) حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ کے زمانہ میں ہمیں حیض آتا تھا؛ پھرجب ہم پاک ہوجاتے تو ہمیں روزوں کی قضاء کا حکم ہوتا اور نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا۔ اس لیے میں نے قیاس کوترک کردیا۔ (مسندِامام اعظمؒ:۲۳) یہ چند مسائل ہیں جونقل کیئے گئے ہیں، ان جیسے سینکڑوں مسائل ہیں، جن میں قیاس کی چھوڑ کرحدیث پرعمل کیا گیا ہے؛ لہٰذا یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ احناف کے متعلق یہ بات بے پرکی اڑائی گئی ہے کہ احناف حدیث کوچھوڑ کر قیاس ورائے اور امام ابوحنیفہؒ کے اقوال پر عمل کرتے ہیں؛ حالانکہ جس قدر حدیث پراحناف عمل کرتے ہیں کوئی اور نہیں کرتا، احناف کے یہاں حدیث موقوف بھی حجت ہے، حدیث مرسل بھی حجت ہے اور ضعیف حدیث بھی رائے وقیاس کے مقابلہ میں مقدم اور حجت ہے۔ (حدیث اور اہلِ حدیث:۹۸)