انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قرون ثلثہ کے بعد دورکذب جھوٹ خبر و روایت میں ہی چل سکتا ہے، ذکر و تلاوت میں نہیں، قرآن کریم خود عہد رسالت میں ہی متواتراللفظ تھا، اس کی سورتیں اورآیات معین تھیں،ہزاروں سینوں میں محفوظ اورلاکھوں زبانوں پر جاری اور ملفوظ تھا،اس کے پڑہنے میں غلطی اورمتشابہ تو لگ سکتا تھا؛ لیکن جھوٹ کا اس میں دخل نہ ہوسکتا تھا،قرآن کریم متواتر طبقاتی ہے، ظاہر ہے کہ جھوٹ کا موضوع اخبار اور روایات احاد ہی ہوسکتی ہیں،حضوراکرمﷺ کا اس بات کی خبر دینا کہ ان تین طبقوں (صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے تین طبقے خیر القرون کہلاتے ہیں؛ یہاں قرون بمعنی طبقہ سے صدی کے معنوں میں نہیں) کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا بتلاتا ہے کہ ان تین طبقوں تک دینی تعلیمات زبانی خبر وروایت میں بھی چل سکتی تھیں اوراس میں کوئی دینی حرج نہ تھا، پوری احتیاط برتی جائے تو دین کی صحیح تعلیمات اورحضوراکرمﷺ کے قول و عمل کی جملہ روایات صحابہ سے تابعین کو اور تابعین سے تبع تابعین کو زبانی نقل و روایت سے پوری محفوظ شکل میں پہنچ سکتی تھیں، اس دور میں صدق و کذب اور صحیح وضعیف کا آسانی سے پتہ چل جاتا تھا، سو ان تین طبقوں کا حفظ اورزبانی روایت ہر اعتبار سے قابل اعتماد رہے گی؛ لیکن ارشاد نبوت کے مطابق ان تین دوروں کے بعد جب جھوٹ عام ہوجائے تو ضروری تھا کہ اس دور کذب کے عام ہونے سے پہلے پہلے حضور کی تعلیمات باقاعدہ مرتب اور مدون ہوجائیں، حضورﷺ کی مذکورہ بالا حدیث صدق و کذب کے ان دو زمانوں میں تاریخی فصل ہے،صحابہؓ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں صدق ورشد غالب تھا اوران کے بعد نقل روایت میں کڑی تحقیق درکار اور لازم ہوگئی؛ کیونکہ اب بفحوائے حدیث جھوٹ پھیل چکا تھا۔ آنحضرتﷺ نے خود بھی بعض احکام شریعت تحریر کروائے، بعض صحابہ کو تحریر حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی اور نقل و روایت کی کچھ اصولی ہدایات ارشاد فرمائیں، ظاہر ہے کہ ان زمانوں کی تحریرات کا آئندہ کی نقل و روایت اورحدیث کی باقاعدہ جمع و تدوین میں بہت اثر رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس تدوین کا سہرا بہت حد تک ان پہلی تحریرات حدیث کے سرپر ہی بندھتا ہے، جو اس پہلے دور میں حضور کی تعلیمات کے گرد وفا کے پھول پورے اہتمام سے چن چکی تھیں۔ صحابہ کرام کا دور تقریبا ۱۲۰ھ تک رہا ہے،آخری صحابی حضرت ابو الطفیل عامربن واثلہ رضی اللہ عنہ کی وفات ۱۰۰ھ میں ہوئی، (دیکھئے: صحیح مسلم:۲/۲۵۸، راجح یہ ہے کہ آپ کی وفات سنہ۱۱۰ھ میں ہوئی۔ تہذیب التہذیب:۵/۸۲) تابعین کا دور ۱۷۰ھ تک رہا ہے اور تبع تابعین کا دور سنہ۲۲۰ھ تک منتہی ہوا ہے، ان تین زمانوں کے بعد بدعات کھلے طور پر پھیلنے لگیں، معتزلہ نے اپنی زبانیں کھولیں اور فلاسفہ نے اپنے سر اٹھائے،اہل علم کی خلق قرآن کے مسئلہ میں آزمائش ہوئی،لوگوں کے دینی حالات بدلنے لگے اورحضورﷺ کا ارشاد کہ پھر جھوٹ پھیل جائے گا، تصدیق بن کر سامنے آگیا؛ تاہم شکر درگاہ ایزدی ہے کہ تدوین حدیث کے ابتدائی دور وسطانی مرحلے ان قرون ثلثہ مشہود لہا بالخیر میں سر انجام پاچکے تھے اور پھر جب جھوٹ کا دور دورہ ہوا تو محدثین نے حدیث کے گرد تحقیق و تنقید کے کڑے پہرے بٹھادیے اور تاریخ بتاتی ہے کہ حدیث کے بڑے بڑے ذخیرے تیسری صدی ہجری میں مرتب ہوچکے تھے،اب ہم ابتدائی تحریرات حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو اس باقاعدہ تدوین کی اساس تھیں اور جن کی اعتمادی حیثیت کسی پہلو سے مجروح قرار نہیں پاسکی۔