انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت فضل بن موسیٰ سینانیؒ نام ونسب فضل نام،ابو عبداللہ کنیت اوروالد کا نام موسیٰ ہے،بنو قطیعہ مروزی سے نسبت دلاء رکھنے کے باعث مروزی اوروطن کی طرف منسوب ہوکر سینانی مشہور ہوئے۔ (اللباب فی الانساب:۵۸۹) مولد اوروطن ۱۱۵ھ میں بمقام سینان پیدا ہوئے،یہ مرو سے پانچ فرسخ پر واقع ایک گاؤں ہے(کتاب الانساب اللسبعانی:۳۲۳)ملک خراسان میں،مرو وہ مردم خیز خطہ ہے جس کو محدثین و فقہا کے ایک انبوہِ عظیم کے مولد ہونے کا شرف حاصل ہے، کسی زمانہ میں کوفہ بصرہ اوربغداد کی طرح وہ بھی علم کا ایک بڑا مرکز شمار ہوتا تھا،جن ائمہ کے ناموں کے ساتھ مروزی کی نسبتیں لگی ہوئی ہیں وہ دراصل مرو ہی کی طرف منسوب ہیں۔ ترک وطن کا واقعہ ایک افسوسناک واقعہ کی بنا پر شیخ سینانی اپنے وطن مالوف کو خیرباد کہہ کر دوسرے گاؤں میں جاکر رہنے لگے تھے چونکہ یہ واقعہ دلچسپ بھی ہے اورعبرت انگیز بھی ،اس لیے یہاں اس کا تفصیلی ذکر غالباً بے محل نہ ہوگا۔ جب شیخ فضل بن موسیٰ کے آفتاب علم وفضل کی کرنیں اطرافِ عالم میں پھیلیں،تو تشنگانِ علم کے قافلے ہر سمت سے اسی ایک مرکز ثقل کی طرف کھینچے چلے آنے لگے،بیان کیا جاتا ہے کہ قریہ سینان طالبانِ علم کی کثرت سے بھر گیا تھا،شیخ کی اس درجہ مقبولیت اورشہرت بہت سے دلوں میں کھٹکنے لگی اوروہ ان کی بدنامی کی تدبیریں کرنے لگے،چنانچہ انہوں نے ایک فاحشہ عورت سے مال وزر کی حرص دلا کر یہ اقرار کرالیا کہ شیخ فضل (حاشا وکلا)اس کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں،پھر حاسدین نے ان پر بدکرداری کا اتہام عائد کیا جس سے دل برداشتہ اورملول خاطر ہوکر فضل بن موسیٰ نے وہ گاؤں ہی چھوڑدیا اور ایک دوسرے قریہ "راماشاۃ"نامی میں جاکر سکونت اختیار کرلی۔ لیکن چند ہی دن بعد خدائے عزوجل نے اپنے مقبول بندہ کی برأت کا سامان بھی کردیا اورہوا یہ کہ شیخ فضل کے ترک وطن کے بعد قریہ سینان میں شدید ترین خشک سالی پیدا ہوگئی ،لوگوں کو اپنی غلطی اورقدرت کے انتقام کا فوراً احساس ہوگیا،چنانچہ وہ لوگ ایک وفد کی شکل میں حاضر خدمت ہوئے اوراپنی نازیبا حرکتوں کی معافی مانگی اوربہت منت سماجت کرکے دوبارہ سینان چلنے کی درخواست کی،لیکن شیخ نے فرمایا کہ پہلے تم لوگ اپنے کذب صریح اوربہتان عظیم کا اعتراف کرو؛چنانچہ لوگوں نے کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا،اپنی برأت سننے کے بعد انہوں نے فرمایا: لااسکن قریۃ اھلھا کذبہ صفۃ (میں ایسے گاؤں میں ہر گز نہیں رہوں گا،جس کے باشندے جھوٹے ہیں۔ اور پھر تاحیات راما شاۃ ہی میں مقیم رہے۔ (اللباب فی الانساب:۱/۵۹۰ وکتاب الانساب:۳۲۳) فضل وکمال علم وفضل میں نہایت بلند مقام رکھتے تھے انہوں نے جو زمانہ پایا تھا اس میں تابعین کرام کی لائی ہوئی بہاریں ختم ہورہی تھیں اوران کی جگہ اتباع تابعین کی تازہ دم جماعتیں علم وکمال کی مجلسیں سجا کر درس وافادہ میں مشغول تھیں،فضل ابن موسیٰ نے کوفہ اوردوسرے مراکز علم وفن کا سفر کرکے اپنے جیب و داماں کو لا تعداد گوہر آبدار سے مالا مال کیا تھا،اسی کا نتیجہ تھا کہ پھر وہ خود بھی مشاہیر زمانہ ائمہ میں شمار کیے گئے۔ حافظ ذہبی انہیں"احدعلماءالثقات"اورشیخ مروومحدثھا لکھتے ہیں(میزان الاعتدال:۲/۳۳۴والعبرفی خبرمن غبر:۱/۳۰۷)علامہ سمعانی ان کو علم وفضل اورعمر میں عبداللہ بن مبارک کا قرین ومثیل قرار دیتے ہیں۔ (کتاب الانساب:۳۲۳) حدیث حدیث ہی ان کے فکر و نظر کا خصوصی جولا نگاہ تھی،اس کی سماعت وکتابت انہوں نے سلیمان الاعمش ہشام بن عروہ،اسماعیل بن ابی خالد،ابو حنیفہ ، داؤد بن ابی ہند، خثیم بن عراک معمر بن راشد ،یونس بن ابی اسحاق السبیعی،سفیان ثوری شریک اورقاضی شریح سے کی تھی۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۸۶) تلامذہ ان کے فیض صحبت سے بہرہ یاب ہونے والوں میں علی بن حجر، معاذ بن اسد محمود بن غیلان، اسحاق بن راہویہ، یحییٰ بن اکثم اورمحمد بن حمید کے اسمائے گرامی معروف وممتاز ہیں۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۳۰۹وکتاب الانساب ورق ۳۲۳ وتہذیب :۷/۲۸۷) تثبت وثقاہت اتقان وثقاہت میں بھی ان کا مرتبہ بہت ارفع ہے،تمام علماء ان کی صداقت وثقاہت کے معترف ہیں،ابو نعیم کا بیان ہے کہ وہ عبداللہ بن مبارک سے بھی زیادہ ثبت تھے (العبر:۱/۳۰۷)ابو حاتم کہتےہیں کہ"ھوصدوق صالح"(تہذیب التہذیب:۷/۲۸۶)عبداللہ بن مبارک ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ"حدثنی الثقۃ"(ایضاً)امام وکیعؒ کا قول ہے:"اعرفہ ثقۃ صاحب سنۃ"(العبر:۱/۳۰۷) علاوہ ازیں یحییٰ بن معین، ابن شاہین،امام بخاری ،علامہ ذہبی،ابن حبان اورعلامہ ابن سعد نے بھی ان کی توثیق کی ہے (خلاصہ تذہیب :۳۰۹،ومیزان الاعتدال:۴/۳۳۴، وتہذیب :۷/۲۸۷وطبقات ابن سعد:۷/۱۰۴) صرف علی بن المدینی ایک تنہا شخص ہیں جو سینا نی کی بعض روایات کو منکر قرار دیتے ہیں۔ عقل وفرزانگی بہت ہی دانشمند اورذہین وفطین تھے،ابو اسماعیل ترمذی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اکثر ابو نعیم کو فضل بن موسیٰ کے بارے میں یہ کہتے سُنا ہے کہ : کان واللہ عاقلا لبیبا (تہذیب:۷/۳۸۷) بخدا وہ بہت عاقل ودانشمند تھے۔ اعترافِ علماء مشہور محدث حاکم ان کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: کبیر السن عالی الاستاد وامام من ائمۃ عصر پر فی الحدیث سن رسیدہ بلند اسناد اوراپنے زمانہ کے ائمہ حدیث میں تھے۔ ابراہیم بن شماسؒ نے ایک دفعہ امام وکیع سے سینانی کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا: ثبت سمع الحدیث معنا لاتبالی سمعت الحدیث منہ اومن ابن مبارک (ایضاً) وہ ثبت ہیں انہوں نے ہمارے ساتھ حدیث کا سماع حاصل کیا تھا،تم اگر ان سے یا ابن مبارک سے سماع کرو تو پھر کوئی پرواہ نہ کرنا چاہئے۔ علامہ سمعانی نے لکھا ہے کہ وہ علم اورعمر دونوں میں عبداللہ ابن مبارک کے بربر تھے (کتاب الانساب ورق:۳۲۳)باختلافِ روایت ربیع الاول ۱۹۱ھ یا ۱۹۲ھ میں انتقال ہوا۔ وفات علامہ ذہبی نے اول الذکر ہی کو راجح قرار دیا ہے (العبر:۱/۳۰۷) راما شاۃ ہی میں جہاں وہ ترکِ وطن کے بعد مقیم تھے،تدفین ہوئی۔ (سمانی:۳۲۳)