انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہرثمہ بن اعین کا قتل فضل بن سہل نے ہارون الرشید کی وفات کے بعد مامون الرشید کی خوب ہمت بندھائی تھی اور اُسی نے امین کے مقابلے کے لیے سازوسامان کیے تھے، مامون نے اس کووزیراعظم اور صاحب السیف والقلم بنادیا تھا، ایرانی مامون کی طرف سے اس لیے مائل تھے کہ اس کی ماں ایرانی تھی، اس نے جعفر سے تربیت پائی تھی، ایرانیوں کوچوتھائی خراج معاف کردیا تھا؛ لہٰذا فضل کواپنی وزارت اور خلیفہ پرقابو حاصل کرنے کے لیے ہرقسم کی سہولت حاصل تھی، اس نے مامون کواس بات پرآمادہ کرلیا تھا کہ وہ مرو ہی کودارالخلافہ رکھے، جوخراسان کا دارالصدر تھا؛ یہاں اہلِ عرب کوکوئی زوروقوت حاصل نہیں ہوسکتی تھی؛ اگرمامون الرشید بغداد چلاجاتا توفضل بن سہل کا یہ زور قائم نہیں رہ سکتا تھا اور یہاں اہلِ عرب خلیفہ کواس طرح فضل کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح نہیں چھوڑ سکتے تھے، فضل بن سہل نے اپنے بھائی محسن بن سہل کوعراق وحجاز وغیرہ ممالک کا حاکم ووائسرائے بناکر اہلِ عرب کے زور کوکم کرنے کا سامان کردیا تھا، ہرثمہ اور طاہر دوزبردست سپہ سالار تھے؛ جنھوں نے مامون کی خلافت قائم کرنے کے لیے بڑے بڑے جنگی کارنامے دکھائے تھے، طاہر کی شہرت اگرچہ ہرثمہ سے بڑھ گئی تھی؛ مگرہرثمہ کی قدامت نے اس کمی کوپورا کردیا تھا اور دونوں کودربارِ خلافت سے برابر کے داعیے تھے۔ طاہر کویہ محسوس ہوچکا تھا کہ امین کے قتل کرنے میں اس نے مامون کی اُس فطری محبت کوجوبھائی کوبھائی کے ساتھ ہوتی ہے، صدمہ پہنچایا ہے؛ اسی لیے اُس کواُس کے مفتوحہ علاقہ کی حکومت نہ ملی؛ بلکہ اُس کی جگہ حسن بن سہل کوفضل بن سہل بآسانی مامون کے حسب منشاء ممالکِ مغربیہ کا وایسرائے مقرر کرسکا، پس طاہر تواہلِ عجم کا زور توڑنے اور مامون کومرو سے بغداد کی طرف لانے کے لیے کوشش وحرکت نہیں کرسکتا تھا، صرف ہرثمہ بناعین ہی یہ جرأت کرسکتا تھا کہ وہ خلیفہ کواہلِ عرب کے حسب منشاء توجہ دلائے، ہرثمہ کویہ بات بھی معلوم ہوچکی تھی کہ مامون الرشید کے پاس کوئی خط کوئی درخواست کوئی عرض داشت براہِ راست بلاتوسط فضل بن سہل ہرگز نہیں پہنچ سکتی، اس کویہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ خلیفہ کسی شخص سے بلاتوسط فضل کے ملاقات نہیں کرسکتا، یعنی کوئی شخص فضل کی اجازت کے بغیر خلیفہ تک نہیں پہنچ سکتا، اس حالت میں مامون الرشید کی حالت قریباً ویسی ہی تھی جیسی کہ ہندوستان کے بادشاہ جہانگیر کی مہابت خاں کی قید میں۔ تاریخ اسلامیہ میں یہ سب سے پہلی مثال تھی کہ خلیفہ کواس کے وزیر نے گویا نظربند کررکھا تھا اور خلیفہ اپنے آپ کوشاید نظربند نہیں سمجھتا تھا، اب ابوالسرایا کے قتل اور مکہ کی طرف فوج بھیجنے کے بعد ہرثمہ کومعلوم ہوا کہ مامون الرشید کواب تک عراق وحجاز کی بغاوتوں کا کوئی حال معلوم نہیں ہوا اور وہ ملک کی عام حالت سے بالکل بے خبر ہے؛ چنانچہ ہرثمہ فوراً خراسان کی طرف اس ارادے سے روانہ ہوا کہ میں خود دربار میں حاضر ہوکر تمام حالات سے خلیفہ کوواقف کروں گا اور فضل بن سہل کی ان کاروائیوں سے اس نے اب تک خلیفہ کوبے خبر رکھا ہے افشا کردوں گا، ہرثمہ حسن بن سہل سے رُخصت ہوئے بغیر خراسان کی طرف روانہ ہوگیا، فضل بن سہل کوجب اس کی اطلاع ہوئی کہ ہرثمہ دربارِ خلافت کی طرف آرہا ہے تواُس نے مامون الرشید سے یہ حکم لکھواکر بھجوادیا کہ تم راستے ہی سے شام وحجاز کی طرف چلے جاؤ وہاں تمہاری سخت ضرورت ہے، ہمارے پاس خراسان میں آنے کی ابھی ضرورت نہیں۔ ہرثمہ چونکہ حقیقت سے پہلے ہی آگاہ تھا، اُس نے مامون کے اس فرمان کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنی خدماتِ جلیلہ اور حقوقِ خدامت پربھروسہ کئے ہوئے مرو کی جانب گرم سفر رہا؛ حتی کہ جب مرو کے قریب پہنچا تواس کوخیال آیا کہ مبادا فضل بن سہل مجھ کودربار میں باریاب ہی نہ ہونے دے اور میرے آنے کا حال ہی مامون الرشید کومعلوم نہ ہو؛ لہٰذا اُس نے شہر میں داخل ہوتے ہوئے نقارہ بجانے کا حکم دیا؛ تاکہ خلیفہ کومعلوم ہوجائے کہ کوئی بڑا سردار شہر میں داخل ہورہا ہے، اُدھر جب فضل کومعلوم ہوا کہ ہرثمہ نے حکم کی تعمیل نہیں کی اور برابر مرو کی طرف بڑھتا چلا آتا ہے اور میری شکایت کرنے کا قصد رکھتا ہے تواس نے مامون الرشید سے کہا کہ مجھ کومعتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ابوالسرایا کوہرثمہ نے بغاوت پرآمادہ کیا تھا اور جب ہرثمہ کواس کی سرکوبی پرمامور کیا گیا تواس نے ابوالسرایا کو صاف بچ کرنکل جانے دیا اور حسن بن علی نے اُس کا کام تمام کیا، اب اُس کی نیت کا حال توخدا کومعلوم ہے؛ مگراُس کی شوخ چشمی اور گستاخی کی انتہا ہوگئی ہے کہ آپ نے اس کوشام کی طرف جانے کا حکم دیا اور اُس نے اس حکم کوپڑھ کرذرا بھی پرواہ نہ کی اور خود سرانہ طور پرمرو کی طرف آرہا ہے۔ جب ہرثمہ مرو میں داخل ہوا اور شوروغل اور نقارے کی آواز مامون کا کانوں تک پہنچی تواُس نے دریافت کیا کہ یہ کیسا شور ہے؟ فضل نے کہا کہ ہرثمہ آپہنچا ہے اور وہی گستاخانہ اور فاتحانہ انداز میں داخل ہورہا ہے، ان باتوں سے مامون کوسخت غصہ آیا، آخر ہرثمہ دربار میں آپہنچا، قبل اس کے کہ وہ اپنا مقصودِ اصلی اظہار وبیان میں لائے، مامون نے اُس سے جواب طلب کیا کہ حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی؟ ہرثمہ اس کے متعلق معذرت کرنے لگا؛ لیکن مامون کا طیش وغضب اس درجہ بڑھ چکا تھا کہ اُس نے فوراً اُس کونہایت بے عزتی کے ساتھ دربار سے نکلواکر جیل خانہ میں بھجوادیا، غالباً اس کی کارگذاریاں خود سفارشی بنتیں اور غصہ فرو ہونے کے بعد مامون جلدی یادیر میں اس کی طرف ملتفت ہوتا؛ مگرفضل بن سہل نے اس موقعہ کوہاتھ سے جانے نہیں دیا اور جیل خانہ میں اس کوقتل کراکر اطلاع دیدی کہ ہرثمہ جیل میں فوت ہوگیا، مامو کوہرثمہ کے فوت ہونے کی خبر سن کرکوئی ملال نہیں ہوا اور اس کی وہ حالت جوپہلے سے قائم تھی اور جس کے تبدیل کرن کے لیے ہرثمہ نے بیڑا اُٹھایا تھا بدستور قائم رہی، اب بظاہر کوئی طاقت اور کوئی تدبیر ایسی نہ تھی جواس کام کا بیڑا اُٹھائے؛ مگرقدرت نے خود ایسے سامان فراہم کریئے کہ فضل کوحسرتناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔