انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وفد تُجیب اس وفد میں تیرہ افراد شامل تھے ،یمن میں بنی کندہ کی سلطنت میں سکون نامی جگہ سے آئے تھے جو وسط حضرموت میں واقع تھا، وہ اپنے ساتھ زکوٰۃ و صدقات کا بہت سامان لائے تھے، حضوراکرم ﷺ نے انھیں اچھی جگہ ٹھہرایا اور حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ ان کی اچھی مہمان داری کریں ، صدقات و زکوٰۃ کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اسے اپنی قوم کے حاجت مندوں میں تقسیم کرو، عرض کیا کہ اس کے باوجود بچ رہا ہے ، حضور ﷺ ان کی آمد سے بہت خوش ہوئے ، یہ لوگ مدینہ میں بہت کم عرصہ ٹھہرے لیکن اس دوران کتاب اللہ ، فرائض اور سنن کے بارے میں برابر پوچھتے رہے ، جب واپس ہونے لگے تو حضور ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ انہیں دوسرے وفود سے زیادہ القابات اور تحائف دو ، جب یہ لوگ حضور ﷺ سے دداعی ملاقات کے لئے آئے تو آپﷺ نے پوچھا: تم میں کوئی باقی تو نہیں رہ گیا ؟ عرض کیا : ایک لڑکا ہے جو قیام گاہ پر جانوروں اور اسباب کی نگرانی کر رہا ہے، آپﷺ نے اسے طلب فرمایا … وہ لڑکا حاضر ہوا اور عرض کیا : میں بھی بنی ابذیٰ کا ایک فرد ہوں، میرے ساتھیوں کی حاجت تو آپﷺ نے پوری فرمادی ، اب میں حاضر ہوں میری حاجت بھی پوری فرمادیجیے، فرمایا : تمہاری کیاحاجت ہے ؟ عرض کیا … اﷲ سے دعا کیجیے کہ وہ میری مغفرت کرے، مجھ پر رحمت نازل کرے اورمیر ی امیری میرے دل میں کردے، فرمایا کہ اے اﷲ! اس کی مغفرت کر ، اس پر رحمت نازل کر اور اس کی امیری اس کے دل میں کردے ،حجتہ الوداع کے موقع پر منیٰ میں بنی ابذیٰ کے سولہ لوگوں نے حضور ﷺسے منیٰ میں ملاقات کی تو آپﷺ نے اس لڑکے کے متعلق دریافت فرمایا انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اس جیسا قانع اور دل کا غنی انسان نہیں دیکھا، آپﷺ نے فرمایا ! مجھے امید ہے کہ و ہ اس دنیا سے مکمل طور پر رخصت ہوگا ، عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہر انسان مکمل طور پر نہیں مرتا ؟ فرمایا انسان خواہشات کی دنیا میں بھٹکتا پھرتا ہے اور ایسے میں موت اسے پکڑ لیتی ہے،حضوراکرم ﷺ کی وفات کے بعد یمن میں جھوٹے نبیوں اور ارتداد کا فتنہ پیدا ہوا تو اس لڑکے نے بنی ابذیٰ کے لوگوں کو اس سے بچایا جس کی وجہ سے ان میں کوئی مرتد نہیں ہوا، حضرت ابو بکر ؓ صدیق وفد تجیب کی تعریف فرمایاکرتے تھے۔ وفد اشعر یین یہ یمن کے بہت بڑے اور معزز قبیلہ کا وفد تھا جو اپنے جد امجد اشعر سے منسوب تھا ، اشعر کے جسم پر بہت بال تھے ، عربی میں اشعر کے معنی بال کے ہیں ، حضور اکرمﷺ کی خدمت میں اشعر یین کے دو وفد آئے پہلاوفد ۷ ہجری میں آیا جس میں (۵۳) افراد تھے اوراسی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری بھی تھے، یہ لوگ جہاز میں سوار ہو کر چلے لیکن ہوائے مختلف نے جہاز کو حبشہ پہنچا دیا ، وہاں حضرت جعفرؓ طیّار موجود تھے، وہ اپنے ساتھ لے کر عرب کو روانہ ہوئے ، اس زمانہ میں خیبر فتح ہو چکا تھا اور آنحضرت ﷺ یہیں تشریف فرما تھے چنانچہ ان لوگوں نے شرف باریابی حاصل کیا، دوسرا وفد ۹ ہجری میں آیا جو غالباً یمن کے حمیر خاندان سے تھا ، حضور ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس اہل یمن آتے ہیں، یہ لوگ مثل ابر ہیں اور دنیا میں بسنے والوں میں سب سے بہترین ، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایمان تو بس یمن ہی میں ہے ‘ حکومت بھی یمن ہی میں ہے ، حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب اشعرئیین کا وفد آیا تو یہ لوگ جوشِ مسرت سے یہ رجز پڑھتے تھے : ( صحیح بخاری بحوالہ سیرۃ البنی ) ھذا نلقی الا حبّتہ محمد او حزبہ کل ہم دوستوں سے ملیں گے محمد اورپیروانِ محمدﷺ سے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا … یا رسول اللہ ! ہم اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ اپنے مذہب کے کچھ احکام سیکھیں اور ابتدائے کائنات کے کچھ حالات پوچھیں ، آپﷺ نے فرمایا : پہلے خدا تھا اور کچھ نہ تھا اس کا تخت پانی پر تھا اس نے ہر چیز کتاب میں لکھ دی ہے . (صحیح بخاری بحوالہ سیرۃ البنی ، سیرت احمد مجتبیٰ) ، وفد بنی عبدالقیس اس وفد میں (۱۴) سوار تھے جن کے رئیس عبداللہ بن عوف الاشجع العصری تھے، یہ وفد بحرین کے لوگوں کا تھا اور یہ لوگ اس سے پہلے ۵ ہجری میں آئے تھے، وفد کے دیگر لوگ اپنی سواریوں سے اترتے ہی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ؛لیکن رئیس وفد اشجع نے پہلے اونٹ کو باندھا، پھر ہاتھ منہ دھو کر کپڑے تبدیل کئے اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے، بیعت کے وقت حضورﷺ نے ان سے دریافت فرمایا ! کیا تم اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتے ہو ؟ عرض کیا کہ وہ اپنا ذمہ لیتے ہیں ‘ قوم کو دعوت دیں گے اور اگر وہ نہ مانیں تو ان سے لڑیں گے، حضور ﷺ نے فرمایا کہ درست ہے ، رئیس وفد نے عرض کیا کہ ان کا ملک بہت دور ہے اور درمیان میں مضر کی آبادیاں ہیں جو کافر ہیں ، صرف حرام مہینوں یعنی رجب ، ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم میں جبکہ جنگ بند رہتی ہے حاضر ہو سکتے ہیں، اس لئے انہوں نے ایک جامع عمل بتلانے کی درخواست کی، جس پر حضور ﷺ نے فرمایا! چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں ، ان چار چیزوں پر عمل کرو : (۱) اللہ پر ایمان، وحدانیت اور رسالت (۲) صلوٰۃ کا قیام (۳) زکوٰۃ ادا کرنا اور مال غنیمت میں سے خمس نکالنا (۴) رمضان کے روزے رکھنا ، چار چیزوں سے منع کرتا ہوں : (۱) دباء ( کدو کا تونبا) (۲) ختم سبز لاکھی گڑیا ) (۳) نقیر ( کھدی ہوئی لکڑی کا برتن) (۴) مزفت ( روغنی برتن) ، یہ چاروں برتنوں کے اقسام ہیں جن میں شراب بنائی جاتی تھی،پھر فرمایا ! یہ احکام ان تک پہنچا دو جو یہاں نہیں آسکے،ان میں ایک شخص جارود بن علاء نصرانی تھے، انہوں نے پوچھا … میں دین حق پر ہوں، کیا آپﷺ میری ضمانت لیتے ہیں ؟ فرمایا ! جس کی طرف میں بلاتا ہوں وہ ا س سے بہتر ہے جس پر تم ہو ، میں ضامن ہوں ، وہ مسلمان ہو گئے ، اس قبیلہ کے لوگ بھی اسلام لائے اور زمانہ ارتداد میں بڑی استقامت سے اسلام پر قائم رہے، اس وفد کے لوگ مدینہ میں دس دن تک مقیم رہے ، واپسی کے وقت ہر شخص کو بارہ اوقیہ اور امیر کو ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی بطور تحفہ دی گئی۔