انوار اسلام |
س کتاب ک |
رسول ﷺ نے نمازِ عید کے لئے عورتوں کو لانے کا حکم فرمایا، پھر منع کیوں کیا گیا؟ ابتداءًا عورتوں کو مسجد اور عیدگاہ میں جانے کی اجازت تھی، بلکہ عیدگاہ میں تو حالتِ حیض میں بھی اجازت تھی، اگرچہ نماز میں شریک نہ ہوں، پھر اس کے بعد دوسرا ارشاد فرمایا وہ یہ کہ "عورت کا اپنے مکان میں نماز پڑھنا بہتر ہے مسجد نبوی میں حضور اکرم ﷺ کے پیچھےنماز پڑھنے سے"، اس پر عورتیں بڑی حد تک مسجد میں جانے سے رک گئیں۔ حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو بڑی علمی تدبیر سے مسجد جانے سے روکا یعنی ایسی تدبیر کی کہ جس سے انہوں نے مسجد جانا بند کردیا، حضرت عمرؓ کے دریافت پر کہ ‘‘نماز پڑھنے کے لئے مسجد کیوں نہیں جاتی ہو؟’’ تو جواب دیا کہ ‘‘اب مسجد جانے کا زمانہ نہیں رہا، لوگوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے’’، حالانکہ پہلے جایا کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ ‘‘اگر عمر کو میرا مسجد جانا پسند نہیں تو وہ منع کردیں میں نہیں جاؤں گی، لیکن چونکہ حضور اکرم ﷺ نے اجازت دے رکھی تھی اس لئے میں جانے سے باز نہیں آؤں گی’’، مگر جب تجربہ ہوا تو خود ہی سمجھ میں آگیا کہ اب جانا ٹھیک نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ"اگر آج حضور اکرم ﷺ تشریف فرماہوتے اور عورتوں کی حالت ملاحظہ فرماتے تو عورتوں کو ہرگز مسجد جانے کی اجازت نہ ملتی، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں مسجد جانے سے روک دی گئی تھیں اسی طرح اس امت کی عورتیں بھی روک دی جاتیں"۔ غور کا مقام ہے کہ اگر حضرت عمرؓ موجود ہوتے یا حضرت عائشہؓ موجود ہوتیں تو موجودہ عورتوں کے متعلق کیا رائے قائم کی جاتی، علماء کا منع فرمانا روایات کی بناء پر ہے، محض کسی خود ساختہ رسم کی بناء پر نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ:۸/۳۹۵،مکتبہ شیخ الاسلام،دیوبند)