انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۴۲۔عبدالرحمٰن بن ابی لیلیؒ نام ونسب عبدالرحمٰن نام،ابو عیسیٰ کنیت،والد کا نام یسار اورکنیت ابی لیلیٰ تھی ، اس نےنام کی جگہ لے لی، نسب نامہ یہ ہے عبدالرحمن بن یسار بن بلال بن بلیل بن احیحہ بن الحلاج بن الحیرش ابن حجبا بن کلفہ بن عوف بن عمرو بن عوف اوسی انصاری۔ ابن ابی لیلی علمی اعتبار سے ممتاز تابعین میں تھے، ان کے والد ابی لیلی صحابی تھے اور متعدوغزوات میں آنحضرتﷺ کی ہمرکابی اورجہاد کا شرف حاصل کیا تھا کوفہ آباد ہونے کے بعد یہاں بودوباش اختیار کرلی تھی،، جنگِ صفین میں حضرت علیؓ کی حمایت میں شہید ہوئے ۔ (تہذیب التہذیب:۶/۳۶۷) پیدائش عبدالرحمن حضرت عمرؓ کے وسط عہدِ خلافت میں پیدا ہوئے۔ (تہذیب التہذیب:۶/۳۶۷) فضل وکمال علمی اعتبار سے عبدالرحمن بلند مرتبہ تھے، خوش قسمتی سے انہوں نے زمانہ ایسا پایا تھا جب صحابہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی؛چنانچہ انہوں نے ایک سو بیس انصار صحابی کو دیکھا تھا (ابن سعد:۲/۷۶) اور ان میں بہتوں سے فائدہ اٹھایا ان کے فیض وبرکات نے عبد الرحمن کو دولتِ علم سے مالا مال کردیا،علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق وجلالت پر سب کا اتفاق ہے،انہیں قرآن وحدیث اورفقہ جملہ فنون میں درک تھا۔ قرآن قرآن کی قرأ ت کا خاص ذوق تھا، ان کے یہاں ہر وقت قراء کا مجمع لگا رہتا تھا ،مجاہد کا بیان ہے کہ عبدالرحمن کے ایک خاص مکان میں بہت سے مصاحف رکھے رہتے تھے،یہاں ہر وقت قراء کا مجمع رہتا تھا، صرف کھانے کے اوقات میں یہ لوگ یہاں سے ہٹتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۵۰) حدیث حدیث کے وہ ممتاز حفاظ میں تھے، حافظ ذہبی انہیں امام لکھتے ہیں (تہذیب التہذیب:۶/۲۶۰) صحابہ میں انہوں نے اپنے والد ابو لیلیؓ، عمرؓ، علیؓ،سعدؓ،حذیفہؓ،معاذ بن جبلؓ، مقداد بن اسودؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، ابوذر غفاریؓ،ابی بن کعبؓ، بلال بن رباحؓ،سہل بن حنیفؓ، ابن عمرؓ،عبدالرحمن بن ابی بکرؓ، قیس بن سعدؓ، ابو ایوب انصاریؓ،کعب بن عجرہؓ، عبداللہ بن زیدؓ، ابو سعید خدریؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ،انس بن مالک، براء بن عازب، زید بن ارقم،سمرہ بن جندبؓ، صہیبؓ،عبدالرحمن بن سمرہؓ، عبداللہ بن حکم اور اسید بن حضیرؓ وغیرہ سے استفادہ کیا تھا، ان میں بعضوں سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (ایضاً:۲۶۱) حلقہ درس حدیث میں ان کا علم اتنا وسیع اورمسلم تھا کہ صحابہ تک ان کے حلقہ درس میں شریک ہوکر ان کی احادیث سنتے تھے،عبدالملک بن عمیر کا بیان ہے کہ میں نے عبدالرحمن کے حلقہ درس میں متعدد صحابہ کو دیکھا جن میں ایک براء تھے،یہ لوگ خاموشی کے ساتھ عبدالرحمن کی احادیث سنتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۷۶) مذاکرہ حدیث حفظ حدیث کے لیے مذاکرہ ضروری سمجھتے تھے ؛چنانچہ خود ان کے یہاں برابر مذاکرہ حدیث جاری رہتا تھا اور دوسروں کو بھی ہدایت کرتے تھے کہ حدیث کی زندگی اس کے مذاکرہ میں ہے۔ (ایضاً:۷۶) فقہ فقہ میں بھی پوری دستگاہ حاصل تھی، حافظ ذہبی انہیں امام وفقیہ لکھتے ہیں۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۵۰) عہدہ قضاء ان کا فقہی کمال اتنا مسلم تھا کہ جب حجاج نے کوفہ کے عہدہ قضا کا انتظام کرنا چاہا تو اس کی نظر انہی پر پڑی،اس کے پولیس افسر حوشب نے مخالفت بھی کی اور کہا کہ اگر آپ علی بن ابی طالب کو قاضی بنانا چاہتے ہیں تو انہیں بنائیں (ابن سعد:۶/۷۶) (یعنی وہ ان ہی کی طرح تمہاری مخالفت کریں گے )لیکن حجاج نے اس کے باوجود ان ہی کو قاضی بنایا،پھر کچھ دنوں کے بعد اختلاف کی بنا پر جن کا تذکرہ آگے آئے گا معزول کردیا۔ (تہذیب التہذیب:۶/۳۶۱) احتیاط فتاویٰ کے جوابات دینے میں بڑے محتاط تھے، کہا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ایک سو بیس انصاری اصحاب کو دیکھا کہ جب ان میں سے کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تھا تو وہ اپنا پہلو بچا کر چاہتا تھا کہ دوسرا شخص جواب دے دے اوراب یہ حال ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ (ابن سعد: /۷۵) تلامذہ ان کے تلامذہ کا دائرہ خاصا وسیع تھا، ان میں ان کے لڑکے عیسیٰ،پوتے عبداللہ عمرو بن میمون شعبی ثابت البنانی،حکم بن عتبہ،حسین بن عبدالرحمن،عمرو بن مرہ،مجاہد بن جبیر، یحییٰ بن الجزا،ہلال الوزان،یزید بن ابی زیاد،ابو اسحٰق شیبانی،منہال بن عمرو،عبد الملک بن عمیر، اعمش اوراسمٰعیل بن ابی خالد وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۶/۳۶۱) سادگی طبعاً نہایت سادہ مزاج تھے تکلفات کو سخت ناپسند کرتے تھے، ایک مرتبہ وضو کے بعد منہ پونچھنے کے لیے رومال پیش کیا،انہوں نے پھینک دیا۔ ہیبت لیکن اس سادگی کے باوجود لوگوں کے دلوں میں ان کی اتنی عظمت ہیبت تھی کہ ان کے ساتھ امراء کی جیسی عظمت کرتے تھے۔ ایک آزمائش: ان کے دور قضات میں انہیں ایک سخت آزمائش سے دوچار ہونا پڑاان کا پورا گھر حضرت علی کے فدائیوں میں تھا ان کے والد ابو لیلی حضرت علی کی حمایت میں جنگ صفین میں مارے گئے تھے (تہذیب الاسماء:۱/۴)خود یہ جنگ جمل میں حضرت علی کے پرجوش حامیوں میں تھے اوران کی فوج کا علم ان کے ہاتھ میں تھا،خارجیوں کے مقابلہ میں نہروان کے معرکہ میں بھی حضرت علیؓ کے ساتھ تھے، اس فدویت کی بناء پر حجاج نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ حضرت علیؓ پر تبرا کریں،تو یہ توریہ کرتے تھے صاف برا نہ کہتے تھے، اس لیے حجاج نے ان کو معزول کرکے انہیں مارا۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۵۰) ایک بہترین اسوہ عبدالرحمن علوی تھے یعنی حضرت عثمان کے مقابلہ میں حضرت علیؓ کی فضیلت کے قائل تھے،ان کے ایک دوسرے معاصر عبداللہ بن حکیم عثمانی تھے، لیکن اس اختلاف عقیدہ کے باوجود دونوں ایک مسجد میں نماز پڑھتے تھے اور کبھی حضرت عثمانؓ اور علیؓ کی فضیلت پر بحث ومناظرہ نہ کرتے تھے۔ (تاریخ خطیب بغدادی:۱۰/۲۰۱) وفات حجاج کے ان مظالم سے تنگ آکر اس کی مخالفت میں ابن اشعث کے ساتھ ہوگئے تھے اور اسی جنگ میں وہ کام آئے یاڈوب کر انتقال کیا۔