انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابیاتؓ قبولِ اسلام لطافتِ طبع رقتِ قلب اور اثرپذیری ایک نیک سرشت انسان کا اصلی جوہر ہیں اور ان ہی کے ذریعہ سے وہ ہرقسم کی پندوموعظت، تعلیم وتربیت اور ارشاد وہدایت کوقبول کرسکتا ہے، پھولوں کی پنکھڑیاں، نسیم صبح کی خاموش حرکت سے مل جاتی ہیں؛ لیکن تناوردرخت کوبادِ صرصر کے جھونکے بھی نہیں ہلاسکتے، شعاعِ نگاہ آئینہ کے اندر سے گذرجاتی ہے؛ لیکن پتھروں پرفولادی تیر بھی نہیں اثر کرتے، بعینہ یہی حال انسان کا بھی ہے، لطیف الطبع اور رقیق القلب آدمی ہردعوتِ حق کوآسانی سے قبول کرلیتا ہے؛ لیکن سنگدل اور غلیظ القلب لوگوں پربڑے بڑے معجزے بھی اثر نہیں کرتے اس فرقِ مراتب کی جزئی مثالیں ہرجگہ مل سکتی ہیں؛ لیکن اشاعتِ اسلام کی تاریخ تمام تراسی قسم کی مثالوں سے لبریز ہے، کفار میں ہم کوبہت سے اشقیاء کا نام معلوم ہے جنہوں نے ہزاروں کوششوں کے بعد بھی خدائے ذوالجلال کے آگے سرنہیں جھکایا؛ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سینکڑوں بزرگ ہیں جوتوحید کی آواز کے سننے کے ساتھ ہی اسلام کے حلقے میں داخل ہوگئے، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ صحابیات رضی اللہ عنھن بھی اس فضیلت میں شریک ہیں اور نہ صرف شریک ہیں؛ بلکہ ان سے اسبق واقدم ہیں؛ چنانچہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بغیر کسی قسم کی کدوکاوش اور جبرواکراہ کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی اپنے خدا کے آگے سرجھکایا، تاریخ ابن خمیس میں حضرت رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ يَوْمُ الْإِثْنَيْنِ، وَصَلَّتْ خَدِيْجَةُ آخَر يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَصَلَّى عَلَي يَوْم الثلاثاءِ مِن الغد، ثُمَّ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ ثُمَّ أَبُوْبَکْر۔ (تاریخ ابن خمیس:۲۸۶) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دوشنبہ کے دن مبعوث ہوا اور خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس دن کے آخری حصہ میں نماز پڑھی اور علی نے دوسرے دن منگل کونماز پڑھی اس کے بعد زید بن حارثہ اور ابوبکرشریک نماز ہوئے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آفتاب رسالت سے پہلے دن جوشعاع افقِ عالم پرچمکی وہ ایک رقیق القلب مقدس خاتون کے سینۂ نور سے چھن کرنکلی۔ اعلانِ اسلام ابتدائے اسلام میں اسلام قبول کرنے سے زیادہ اظہارِ اسلام کے لیے ہمت، شجاعت اور جسارت کی ضرورت تھی؛ لیکن باوجود کفار کی روک ٹوک اور جوروستم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ صحابیات رضی اللہ عنھن نے بھی نہایت جرأت وبیباکی کے ساتھ اپنے اسلام کا اظہار کیا؛ چنانچہ ابتدا میں جن سات بزرگوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا تھا ان میں چھ آدمی یعنی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضرت خباب رضی اللہ عنہ، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ مرد تھے اور ساتویں ایک غریب صحابیہ یعنی حضرت عمار رضی اللہ عنہا کی والدہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ (تاریخ خمیس:۲۵۷) صحابیات نے اپنی نیک طینتی سے صرف ااسانی کے ساتھ اسلام ہی کوقبول نہیں کیا؛ بلکہ انہوں نے نہایت آسانی کے ساتھ اسلام کی اشاعت بھی کی؛ چنانچہ صحیح بخاری، کتاب التیمم میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ایک سفر میں ایک عورت کوپکڑ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اس کے پاس پانی کے مشکیزے تھے اور صحابہ نے پانی ہی کی ضرورت سے اس کوپکڑا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پانی لیا تواس کی قیمت ادا فرمائی اس کوآپ کی اس دیانت سے اسی وقت آپ کی نبوت کا یقین آگیا اور اس کے اثر سے اس کا تمام قبیلہ بھی مسلمان ہوگیا۔ تحمل شدائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ صحابیات نے بھی اسلام کے لیے ہرقسم کی تکلیفیں برداشت کیں اور ان کے ایمان میں ذرہ برابر بھی تزلزل واقع نہیں ہوا۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا تواُن کوکفار نے طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کیں سب سے سخت اذیت یہ تھی کہ ان کومکہ کی تپتی ریت میں لوہے کی زرہ پہناکر دھوپ میں کھڑا کردیتے تھے؛ لیکن بایں ہمہ وہ اسلام پرثابت قدم رہتی تھیں ایک دن کفار نے حسب معمول ان کولوہے کی زرہ پہناکر دھوپ میں زمین پرلٹادیا تھا؛ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا توفرمایا: صبرکرو! تمہارا ٹھکانا جنت میں ہے؛ لیکن کفار کواس پربھی تسکین نہیں ہوئی اور ابوجہل نے ان کی ران میں برچھی مارکر ان کوشہید کردیا؛ چنانچہ اسلام میں سب سے پہلے شرفِ شہادت ان ہی کونصیب ہوا۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا) اور صحابیات کی یہ سب سے بڑی فضیلت ہے کہ سب سے پہلے ایک صحابیہ نے اسلام قبول کیا اور سب سے پہلے ایک صحابیہ نے شرفِ شہادت حاصل کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن جب اسلام لائیں اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کواس کا حال معلوم ہوا تواس قدر ماراکہ بدن لہولہان ہوگیا؛ لیکن انہوں نے صاف صاف کہدیا کہ جوکچھ کرنا ہوکرو میں تواسلام لاچکی (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ) لبینہ رضی اللہ عنہا کوبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ مارتے مارتے تھک جاتے توکہتے کہ میں نے رحم کی بناپر نہیں؛ بلکہ تم کواس وجہ سے چھوڑدیا ہے کہ تھک گیا ہوں؛ اسی طرح وہ زنیرہ رضی اللہ عنہا کوبھی جوان کے گھرانے کی کنیز تھیں، نہایت اذیت دیتے تھے۔ قطع علائق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایمان لائے توان کے تمام رشتے ناطے منقطع ہوگئے؛ لیکن اس سے ان کی قوتِ ایمانی میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہوا، صحابیات کی حالت اس معاملہ میں صحابہ کرام سے بھی زیادہ نازک تھی انسان اگرچہ اپنے تمام اعزہ واقارب کی اعانت کا محتاج ہوجاتا ہے؛ لیکن عورت کی زندگی کا تمام تردارومدار شوہر کی اعانت وامداد پرہوتا ہے اور وہ کسی حالت میں بھی اس سے بےنیاز نہیں ہوسکتی، باپ بیٹے سے، بیٹا باپ سے قطعِ تعلق کرکے زندگی بسرکرسکتا ہے؛ لیکن عورت شوہر سے جدا ہوکر بالکل بیکس وبےسہارہ ہوجاتی ہے؛ لیکن باایں ہمہ صحابیات رضی اللہ عنھن نے اسلام کے لیے اس نازک رشتے کوبھی منقطع کیا اور اپنے کافر شوہروں سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہوگئیں؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد جب یہ آیت نازل ہوئی: وَلَاتُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ۔ ترجمہ:کافرہ عورتوں سے تعلق نہ رکھو۔ (الممتحنۃ:۱۰) توجس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنی کافرہ عورتوں کوطلاق دے دی؛ اسی طرح بہت سی صحابیات رضی اللہ عنھن بھی کافر شوہروں کوچھوڑ کرہجرت کرآئیں اور ان میں سے ایک بھی اپنے شوہر کے پاس واپس نہ گئی؛ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: وَمَانَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ ارْتَدَّتْ بَعْدَ إِيمَانِهَا۔ (بخاری، كِتَاب الشُّرُوطِ،بَاب الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ،حدیث نمبر:۲۵۲۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: ہم کوکسی ایسی مہاجرہ عورت کا حال معلوم نہیں جوایمان لاکر مرتد ہوئی ہو۔