انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام ابوحنیفہؒ کے یہاں متونِ حدیث جانچنے کا معیار امام الائمہ، سیدالفقہاء، ذکی الاُمت، رئیس المحدثین، مجدد وقت حضرت نعمان بن ثابت الکوفی رحمۃ اللہ علیہ میں جہاں خالق کائنات حق جل مجدہ نے بہت سی خوبیاں اور بھلائیاں ودیعت رکھی تھیں، وہاں ان کوعلم حدیث سے بھی وافرحصہ مرحمت فرمایا تھا، آپ بہت بڑے محدث تھے، تمام علماء محدثین نے آپ کی محدثانہ شان کوتسلیم کیا ہے، علامہ حافظ ذہبیؒ اور حافظ ابن کثیر جیسے نقاد علماء نے آپ کوبڑے اونچے اونچے القاب سے یاد کیا ہے، ان کی تصانیف ان پر شاہد عدل ہیں۔ واقعہ ہے کہ آپ کو فن حدیث سے بھی کافی شغف اور والہانہ لگاؤ تھا، آپ کی آحری کوشش یہی ہوا کرتی تھی کہ صحیح احادیث پر عمل ہوجائے، اس دور میں جووضاعین حدیث پیدا ہوکر جھوٹی جھوٹی احادیث بیان کرتے تھے، اس کے پیش نظر آپ نے احادیث کے اخذ وقبول کے لیے کڑی شرطیں لگائیں تاکہ کسی غیرحدیث کوحدیث سمجھ کر قبول نہ کرلیا جائے؛ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم کے شرائط امام بخاری وامام مسلم کے شرائط سے بھی سخت ہیں۱؎۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے متون احادیث کوجانچنے کے لیے جومعیار قائم کیا تھا ذیل میں ہم اس کا ذکر کریں گے: پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ احادیث کی تین قسمیں ہیں، خبرِمتواتر، خبرِمشہور، خبرِاحاد، اوّل الذکر دونوں قسمیں تمام علماء کے نزدیک مقبول ومسلم ہیں، اب رہی آخری قسم خبرِواحد، تواس کے قبول یاعدم قبول کے بارے میں محدثین کے یہاں اچھاخاصا اختلاف پایا جاتا ہے، بعض اسے کچھ شرائط کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور بعض حضرات احکام کے باب میں اس کا بالکل اعتبار نہیں کرتے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بعض شرائط کے ساتھ خبرِواحد کوقبول کیا ہے، آپ نے خبرِواحد کوقبول کرنے کے لیے بعض شرائط سند کے تعلق سے لگائے اور بعض شرائط ایسی لگائیں، جن کا تعلق براہِ راست متونِ حدیث سے ہے، جسے درایت سے تعبیر کیا جاتا ہے، درایت کے لحاظ سے احادیث کی جانچ میں امام اعظم ابوحنیفہؒ کوسبقت حاصل ہے، آپ نے ہی سب سے پہلے اس جہت سے متون حدیث کوپرکھنے کے اصول وضع کئے، ذیل میں ان اصول کی وضاحت کی جارہی ہے۔ (۱)مقام ابی حنیفہ:۱۳۵، دارالاشاعت دیوبند۔ پہلی اصل خبرِواحد کتاب اللہ کے کسی حکم سے نہ ٹکراتی ہو؛ اگرکہیں ایسی صورت پیش آئے گی توکتاب اللہ پر عمل کیا جائے۲؎۔ کیونکہ قرآن مجید نص قطعی ہے اور اپنے ثبوت کے اعتبار سے ہرشک وشبہ سے بالاتر ہے، احادیث میں سوائے احادیث متواترہ کے کوئی اس درجہ صحت وقوت کے ساتھ ثابت نہیں، اس لیے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے یہاں خبرواحد کے مقبول ہونے کے لیے قرآن مجید سے اس کی مخالفت نہ ہونا ضروری ہے؛ چنانچہ امام سرخسی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اذاکان الحدیث مخالفا لکتاب اللہ فانہ لایکون مقبولا ولاحجۃ للعمل بہ عاما کان الایۃ اوخاصا نصا اوظاھرا عندنا علی مابینا ان تخصیص العام بخبرالواحد لایجوز ابتداء وکذا ترک الظاھر فیہ والعمل علی نوع من المجاز لایجوز بخبر الواحد عندنا"۳؎۔ حدیث (خبرِواحد) کتاب اللہ کے خلاف ہوتوہمارے نزدیک مقبول اور عمل کے لیے حجت نہیں ہوگی، چاہے آیت عام ہویاخاص، نص ہویاظاہر، جیسا کہ ہم پہلے ذکرکرچکے ہیں کہ خبرِواحد سے کتاب اللہ کے کسی عام حکم کوخاص کرنا ابتداءً جائز نہیں ہے؛ اسی طرح خبرِواحد کی وجہ سے ظاہری معنی کوچھوڑ دینا اور مجازی معنی پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی لیے بعض اوقات ایک حدیث سند کے اعتبار سے قوی ہوتی ہے؛ لیکن قرآن کے معارض ہونے کی وجہ سے اس میں تاویل کی جاتی ہے اور اس کا ایسا مصداق متعین کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید سے اس کا تعارض نہ رہے۔ (الف)مثلا حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے آپﷺ کا ارشاد مروی ہے: "لانفقۃ ولاسکنیٰ للمبتوتہ"۴؎۔ مطلقہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکنیٰ۔ لیکن یہ حدیث بظاہر درجِ ذیل آیات کے مخالف ہے: "أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ..... وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ"۵؎۔ تم ان کو (مطلقہ عورتوں کو)اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں توحمل پیدا ہونے تک ان کو (کھانے پینے کا) خرچ دو۔ یہ آیت عام ہے، اس میں نفقہ اور سکنی ہرمطلقہ کا حق بتایا گیا ہے؛ خواہ وہ مطلقہ بائنہ ہو یارجعیہ، اس عام حکم کے خلاف خبرِواحد ہے، اس لیے حنفیہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی حدیث ایک استثنائی واقعہ ہے، اسے موردِنص پر ہی محمول کیا جائے گا اور اصل حکم یہ ہے کہ مطلقہ خواہ بائنہ ہو یارجعیہ دونوں ہی کے لیے نفقہ وسکنیٰ واجب ہے۔ (ب)مس ذَکر ناقضِ وضوء ہے یانہیں؟ اس سلسلے میں آپﷺ سے ایک حدیث (خبرِواحد)یہ مروی ہے: "عَنْ زَیْدُبْنُ خَالِدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللہِﷺ من مس فرجہ فلیتوضا"۶؎۔ زید بن خالدؓ سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کویہ کہتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنا فرج چھوا چاہئے کہ وہ وضوء کرے۔ یہ حدیث کتاب اللہ کے مخالف ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی اور ڈھیلا سے استنجاء اور پاکی حاصل کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے، باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ"۷؎۔ اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کوپسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کوپسند کرتا ہے۔ پانی سے استنجاء مس فرج کے بغیر محال ہے؛ کیونکہ پانی سے استنجاء کرتے وقت مس فرج یقیناً ہوگا؛ مگراس کے باوجود قرآنِ پاک نے اسے ذریعہ تطہیر قرار دیا ہے؛ جبکہ خبرِواحد تقاضا کرتی ہے کہ مس فرج حدث ہوجووضو کوواجب کرے؛ لہٰذا احناف نے یہاں کتاب اللہ سے مستفاد حکم کوجوں کا توں برقرار رکھا اور خبرِواحد میں یہ تاویل کی کہ اس میں وضو سے مراد وضولغوی ہے، یعنی اگرکوئی مس فرج کرے تواس کومحض ہاتھ دھولینا کافی ہے، وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔ (ج)اسی طرح آپﷺ کا ارشاد ہے: "أَيُّمَاامْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ"۸؎۔ جوبھی عورت خود اپنا نکاح کرے اپنے ولی کے اجازت کے بغیر تواس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے ارشاد: "فَلَاتَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ"۹؎۔ توتم ان کواس امر سے مت روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کرلیں۔ کے خلاف ہے؛ کیونکہ آیت کریمہ توعورتوں کوولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کرنے کوثابت کرتی ہے، جب کہ یہ خبرِواحد اس نکاح کوباطل قرار دیتی ہے؛ لہٰذا احناف نے آیت کے حکم کواپنی جگہ پر برقرار رکھا اور یہ کہا کہ بالغہ عورتوں کوولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا جائز ہے اور خبرِواحد کا تعلق ان بالغہ عورتوں سے ہے، جومجنونہ ہوکہ اس کانکاح ولی کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ مجنونہ اپنے جنون کی وجہ سے خود اپنے نفس کی مالکہ نہیں ہے اورنہ وہ اپنے نفع وضرر کو سمجھ سکتی ہیں۔ (۲)المنار مع نورالانوار:۱۸۹۔ مقدمہ اعلاء السنن:۱/۷۸۔ کشف الاسرار:۳/۱۹۔ اصول الشاشی:۷۶۔ قواعد فی علوم الحدیث۔ مفتاح الفلاح:۱۱۲۔ حسامی:۷۰۔ البحرالمحیط:۴/۳۴۲۔ ارشادالفحول:۸۵۔ (۳)اصول سرخسی:۱/۳۶۴۔ (۴)ابوداؤد:۱/۳۱۲۔ (۵)الطلاق:۶، ترجمہ حکیم الامتؒ۔ (۶)طحاوی شریف:۱/۵۹۔ (۷)التوبۃ:۱۰۸، ترجمہ حکیم الامتؒ۔ (۸)ترمذی،كِتَاب النِّكَاحِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ لَانِكَاحَ إِلَّابِوَلِيٍّ،حدیث نمبر:۱۰۲۱، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۹)البقرۃ:۲۳۲، ترجمہ حکیم الامتؒ۔ دوسری اصل سنت معروفہ خواہ متواترہ ہویامشہورہ،’ اس کے خلاف اگرکوئی خبرِواحد ہوتواس کی کوئی تاویل کریں گے، یاترک کردیں گے اور سنت معروفہ پر عمل کریں گے۱۰؎، مثلاً:ایک خبرِ واحد حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے یمین اور ایک شاہد کے ذریعہ مدعی کے حق میں فیصلہ فرمایا: "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِيَمِينٍ وَشَاهِدٍ"۱۱؎۔ لیکن یہ خبرِواحد آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مشہور بلکہ متواتر حدیث کے خلاف ہے اور وہ حدیث یہ ہے: "الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِى وَالْيَمِينَ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ"۱۲؎۔ بینہ مدعی کے ذمہ ہے یمین منکر پر لازم ہے۔ اس وجہ سے امام صاحبؒ نے خبرِمتواتر سے مستفاد حکم کوعام حکم قرار دیا اور خبرِواحد سے ثابت شدہ مسئلہ کوایک استثنائی واقعہ قرار دیا ہے۔ (۱۰)المنار مع نورالانوار:۱۸۹۔ مقدمہ اعلاء السنن:۱/۸۷۔ کشف الاسرار:۳/۱۹۔ اصول الشاشی:۷۶۔ ارشاد الفحول:۸۵۔ مفتاح الفلاح:۱۱۲۔ حسامی:۷۰۔ البحرالمحیط:۴/۳۴۲۔ (۱۱)مسلم،كِتَاب الْأَقْضِيَةِ،بَاب الْقَضَاءِ بِالْيَمِينِ وَالشَّاهِدِ،حدیث نمبر:۳۲۳۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۲)السنن الکبریٰ للبیہقی، باب الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِى وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ،حدیث نمبر:۲۱۷۳۳۔ صفحہ نمبر:۵۲/۴۵۸، شاملہ، موقع وزارة الأوقاف المصرية۔ تیسری اصل خبرِواحد صحابہ کرامؓ کے دور میں متروک العمل ومتروک الاستدلال نہ ہو، جب صحابہ کرامؓ کے دور میں اختلاف ہوا ہو اور استدلال کی ضرورت کے باوجوداس حدیث کی طرف توجہ والتفات نہ کی گئی ہو اور نہ اس پر عمل کیا گیا ہو تویہ دلیل ہوگی کہ وہ خبرِواحد مؤدل ہے یامردود ہے۱۳؎،مثال کے طور پر حدیث ہے: "عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ أَلَامَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ وَلَايَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ"۱۴؎۔ آپﷺ نے ایک مرتبہ لوگوں سے خطاب کرکے فرمایا: خبردار!جو کسی مالدار یتیم کا والی ہو تواسے چاہئے کہ وہ اس تجارت میں لگادے اور اس کوایسے ہی نہ چھوڑے کہ زکوٰۃ اس کوکھاجائے (یعنی ہرسال اس کی زکوٰۃنکالنے کی وجہ سے اس کا مال کم ہوتا چلا جائے)۔ حدیث مذکور سے پتہ چلتا ہے کہ زکوٰۃ بچہ پر بھی واجب ہے؛ لیکن جب صحابہ کرامؓ کے دور میں یہ مسئلہ سامنے آیا کہ بچہ کے مال پر زکوٰۃ واجب ہے یانہیں؟ توصحابہؓ میں اختلاف کے باوجود کسی فریق نے مذکورہ حدیث سے استدل نہیں کیا، ان حضرات کی اس حدیث سے بے توجہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لائق استدلال نہیں ہے؛ ورنہ صحابہ کرام جوحضورﷺ کے ایک ایک قول اور ایک ایک فعل کوجس طرح اپنی زندگی میں داخل کرتے تھے اور ان سے جس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے، اپنی مثال آپ ہے؛ اسی وجہ سے امام صاحبؒ نے اس حدیث کوقبول نہیں کیا اور فرمایا کہ بچہ کے مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور حدیث بالا کی تاویل کی کہ صدقہ سے مراد زکوٰۃ نہیں؛ بلکہ نفقہ مراد ہے؛ کیونکہ ایک موقع پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "نفقۃ المرأ علی نفسہ صدقۃ"۱۵؎۔ اس حدیث میں نفقہ کوبھی صدقہ کہا گیا ہے؛ اسی طرح حدیث بالا میں بھی یتیم کے نفقہ کوصدقہ کہہ دیا گیا ہے اورمطلب یہ ہے کہ یتیم کے مال کوتجارت میں لگادینا چاہیے؛ ورنہ اس پر مال نفقہ کے طور پر روزانہ خرچ ہوتا رہے گا توایک دن ایسا آئیگا کہ اس کا سارا مال یونہی خرچ ہوجائے گا۔ (۱۳)المنار مع نورالانوار:۱۸۹۔ کشف الاسرار:۳/۱۹۔ اصول الشاشی:۷۶۔ مقدمہ اعلاء السنن:۱/۷۸۔ مفتاح الفلاح:۱۱۲۔ حسامی:۷۰۔ البحرالمحیط:۴/۳۴۲۔ (۱۴)ترمذی، كِتَاب الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي زَكَاةِ مَالِ الْيَتِيمِ،حدیث نمبر:۵۸۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ (۱۵)اوردہ علی القاری فی شرح مختصر المنار کذا فی حاشیۃ نورالانوار:۱۹۰۔ چوتھی اصل خبرواحد کسی ایسے باب میں وارد ہو، جس میں ابتلاء عام ہو؛ تووہ خبرِواحد بھی قابلِ قبول نہ ہوگی۱۶؎، کیونکہ ابتلاءعام کے باوجود اس باب میں خبرِ واحد ہونا واقعی شبہ پیدا کرتا ہے، مثلاً: ابوہریرہؓ کی حدیث ہے: "عَنْ سَعِيْدُ بْنُ أَبِيْ سَعِيْدٍ عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّهٗ كَانَ يَجْهَرُ بِبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ"۱۷؎۔ سعید بن ابی سعیدؓ سے مروی ہے وہ ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؓ بسم اللہ الرحمن الرحیم (نماز میں) جہراً پڑھتے تھے۔ یہ خبرِواحد نماز کے معاملہ میں ہے، نماز ایک ایسی عبادت ہے جسے روزانہ ہرمسلمان کم ازکم پانچ دفعہ ادا کرتا ہے اور آپﷺ کے دور سے آج تک یہ عبادت مسلسل کی جارہی ہے؛ نیز وہ جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، اس میں ہزاروں لوگوں کی حاضری ہوتی ہے؛ ایسی عبادت میں صرف ابوہریرہؓ آپﷺ سے تسمیہ جہراً پڑھتے سنا، یہ توایک انوکھی سی بات ہوگی اور بہت عجیب چیز ہوگی؛ لہٰذا حضرت ابوہریرہؓ کی یہ خبرِواحد جوایسے باب میں وارد ہوئی ہے، جس میں ابتلاء عام ہے، مقبول نہیں ہوگی، متروک العمل ہوجائے گی۔ (۱۶)المنار مع نورالانوار:۱۸۹۔ اصول الشاشی:۷۶۔ کشف الاسرار:۳/۱۹۔ مقدمہ اعلاء السنن:۱/۷۸۔ البحرالمحیط:۳/۳۴۲۔ الاحکام الآمدی:۲/۱۶۰۔ مفتاح الفلاح:۱۱۲۔ حسامی:۷۰۔ ارشاد الفحول:۸۶۔ (۱۷)مصنف ابن ابی شیبہ، تحقیق سعید اللحام، حدیث نمبر:۱۹۴، صفحہ نمبر:۱/۴۴۹، شاملہ، موقع یعسوب۔ پانچویں اصل خبرِواحد شریعت کے عمومی مزاج ومذاق اور اصول وقواعد سے مطابقت رکھتی ہو اور اگروہ اپنے مضمون اور متن کے اعتبار سے شریعت کے عام اور مسلمہ اصول ومبادی کے خلاف ہو تواسے رد کردیا جائے گا۱۸؎، چنانچہ قاضی ابوزید دبوسیؒ فرماتے ہیں: "الاصل عن اصحابنا ان خبر الاحاد متی ورد مخالفا لنفس الاصول لم یقل اصحابنا"۱۹؎۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک اصول یہ ہے کہ خبرِواحد جب نفس اصول کے خلاف ہوتواس کوقبول نہیں کیا جائے گا۔ مثلاً: صلوٰۃ خسوف (سورج گہن چاند گہن کی نماز) سے متعلق روایتوں کودیکھئے، جن میں ایک رکعت میں ایک رکوع سے پانچ رکوع تک تعداد مروی ہے، جمہور نے سند قوی پر نگاہ رکھتے ہوئے اس روایت کوترجیح دیا، جس میں ایک رکعت میں دورکوع کا تذکرہ ہے: "عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَرَ فِي صَلَاةِ الْخُسُوفِ بِقِرَاءَتِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ"۲۰؎۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ سورج گہن کی نماز میں قرأت جہراً کیا دورکعت میں چار رکوع اور چار سجدے کیئے۔ حنفیہ نے ان روایتوں کوترک کرکے ایسی روایتوں کوترجیح دی، جس میں ایک رکوع کا اشارہ ملتا ہے؛ کیونکہ یہ نماز کی عمومی کیفیت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ (۱۸)ارشاد الفحول:۸۵۔ (۱۹)تاسیس النظر:۷۷۔ (۲۰)مسلم، كِتَاب الْكُسُوفِ،بَاب صَلَاةِ الْكُسُوفِ،حدیث نمبر:۱۵۰۲، شاملہ، موقع الإسلام۔ چھٹی اصل کبھی خبرِواحد کومحض اس لیے ترک کردیا جاتا ہے کہ راوی نے خود اپنی روایت کے خلاف بعد میں عمل کرنا شروع کردیا ہو۲۱؎۔ مثلاً: حضرت ابوہریرہؓ آپﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب کتا کسی برتن میں منھ ڈال دے تواسے سات مرتبہ دھویا جائے؛ چنانچہ بیہقیؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے: "إِذَاوَلَغَ الْكَلْبُ فِى إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أُولاَهُنَّ أَوْأُخْرَاهُنَّ بِتُرَابٍ"۲۲؎۔ برتن میں جب کتا منھ ڈال دے توبرتن کوسات مرتبہ دھویا جائے، پہلی مرتبہ یاآخری مرتبہ مٹی سے ملے۔ اس حدیث پر احناف کا عمل نہیں ہے؛ کیونکہ راوی حدیث ابوہریرہؓ کا عمل خود مذکورہ روایت کے خلاف ہے، وہ ایسے برتن کوصرف تین مرتبہ دھوتے تھے؛ چنانچہ دارِقطنی کی روایت میں ہے: "عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّهُ كَانَ إِذَاوَلَغَ الْكَلْبُ فِى الإِنَاءِ أَهْرَاقَهُ وَغَسَلَهُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ"۲۳؎۔ عطاءؒ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں، جب کتا برتن میں منھ ڈال دیتا توآپ اس کے پانی کوپھینک دیتے اور برتن کوتین مرتبہ دھودیتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کے اس عمل کے پیشِ نظر احناف نے سات مرتبہ دھونے والی روایت کوچھوڑ کر تین مرتبہ دھونے کے عمل کواختیار کیا ہے، جیسا کہ علامہ زرکشی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ولایضر عمل الراوی بخلافہ خلافا لجمہور الحنفیۃ..... ولذالک لم یوجبوا التسبیع بخبر أبی ھریرۃ فی ولوغ الکلب لمخالفتہ ایاہ"۲۴؎۔ راوی کا عمل روایت کے خلاف ہوتوکوئی حرج نہیں ہے، وہ خبرِواحد معمول بہا ہی ہوگی؛ لیکن احناف کے یہاں یہ مسلک نہیں ہے؛ اسی وجہ سے انھوں نے کسی برتن میں کتے کے منہ ڈالنے کے بعد اسے سات مرتبہ دھونے کوواجب قرار نہیں دیا ہے؛ کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ کا عمل خود ان کی روایت کے خلاف ہے۔ (۲۱)ارشادالفحول:۸۶۔ (۲۲)السنن الکبریٰ للبیہقی، كتاب الطهارة،باب إِدْخَالِ التُّرَابِ فِى إِحْدَى غَسْلاَتِهِ،حدیث نمبر:۱۱۸۹، شاملہ، موقع وزارة الأوقاف المصرية۔ (۲۳)سنن دارِقطنی، کتاب الطهارة،باب كُلِّ طَعَامٍ وَقَعَتْ فِيهِ دَابَّةٌ لَيْسَ لَهَا دَمٌ،حدیث نمبر:۲۰۳، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف المصرية۔ (۲۴)البحرالمحیط:۴/۲۴۶۔