انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۴)جنت واہل جنت جنت کو حاصل کرنے کی دعوت جنت کی تجارت کے لیے اللہ تعالیٰ کی دعوت: اللہ تعالیٰ کا ارشادِگرامی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍo تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَo يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُo۔ (الصف:۱۰،۱۱،۱۲) ترجمہ:اے ایمان والو! کیا میں تم کوایسی تجارت (سوداگری) بتلاؤں جوتم کوایک دردناک عذاب سے بچالے (وہ یہ کہ) تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پرایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگرتم کچھ سمجھ رکھتے ہو (جب ایسا کروگے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور عمدہ مکانوں میں (داخل کرے گا)جوہمیشہ رہنے کے باغوں میں (بنے) ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ فائدہ: اس ارشاد میں مؤمنین کواللہ تعالیٰ نے ایک ایسی تجارت کے متعلق بتلایا ہے جودوزخ سے بچا کر جنت میں لے جانے والی ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول پرایمان لانا، اللہ کی اطاعت (جہاد وغیرہ) میں اپنے اموال اور نفوس کے ساتھ جہاد کرنا، اس سے معلوم ہوا کہ عذاب سے نجات اور جنت جیسی عظیم دولت مؤمنین مجاہدین نیکوکاروں کوعطاء ہوگی، ان آیات میں اسی بات کی ترغیب ہے کہ انسان جنت کے حصول اور دوزخ سے محفوظ ہونے کی تجارت کواپنا شیوہ بنائے یہی تجارت انسان کوآخرت میں سود مند ہے۔ جنت کی طرف دوڑو: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ۔ (آل عمران:۱۳۳) ترجمہ:اور مغفرت کی طرف دوڑو جوتمہارے پروردگار کی طرف سے (نصیب) ہو اور دوڑو جنت کی طرف (یعنی ایسے نیک کام اختیار کرو جس سے پروردگار تمہاری مغفرت کردیں اور تم کوجنت عنایت ہو اور وہ جنت ایسی ہے) جس کی وسعت ایسی (تو) ہے (ہی) جیسے سب آسمان اور زمین (اور زیادہ کی نفی نہیں؛ چنانچہ واقع میں زائد ہونا ثابت ہے اور) وہ تیار کی گئی ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لیے۔ فائدہ:اس آیت میں مسلمانوں کوجنت کی ترغیب فرماتے ہوئے اس کی طرف دوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور پرہیزگار ہی جوخدا کے فرمانبردار اور گناہ سے دور رہنے والے ہیں ان کے لیے تیار کی گئی ہے، اعمال جنت کی قیمت نہیں ہیں؛ لیکن عادت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسی بندے کونوازتا ہے جواعمالِ صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت کی طرف بلاتا ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ۔ (یونس:۲۵) ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ تمھیں جنت کی طرف بلاتا ہے۔ فائدہ:حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ دارالسلام سے مراد جنت ہے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۳۵) حدیث: حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ سَيِّداً بَنَى دَاراًوَصَنَعَ مَائِدَةً وَأَرْسَلَ دَاعِياً، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ المَائِدَةِ وَرَضِيَ عَنْهُ السَّيِّدُ فالسيد الله، والدارالإسلام، والمأدبة الجنة، والداعي محمد صلى الله عليه وآله وسلم۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۳۱۔درمنثور:۳/۳۰۵۔ تہذیب تاریخ دمشق:۱/۲۷۵) ترجمہ:ایک سردار نے ایک گھر بنایا اور ایک دسترخوان لگایا اور ایک داعی کوبھیجا، توجس نے اس داعی کولبیک کہاوہ اس گھر میں داخل ہوگیا اور دسترخوان سے کھایا اور سردار کوراضی کیا؛ پس سردار اللہ تعالی ہے اور گھر اسلام ہے اور دسترخوان جنت ہے اور بلانے والے محمدؐ ہے۔ تمھیں کیا معلوم تمہارے لیے کیا کیا انعام چھپا رکھے ہیں: حدیث:حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں جناب رسول اللہﷺ کی مجلس مبارک میں حاضر ہوا آپ نے اس میں جنت کی توصیف فرمائی یہاں تک کہ آپ نے اس کے اخیر میں یہ ارشاد فرمایا کہ جنت میں وہ کچھ ہے جس کوکسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گذرا؛ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَo فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَاأُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَاكَانُوا يَعْمَلُونَ۔ (السجدۃ:۱۶،۱۷) ترجمہ:ان کے پہلو خوابگاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں (خواہ فرض عشاء کے لیے یاتہجد کے لیے بھی اور خالی علیحدہ ہی نہیں ہوتے بلکہ) اس طور پر (علیحدہ ہوتے ہیں) کہ وہ لوگ اپنے رب کو (عذاب کے) خوف اور (جنت کی) امید سے پکارتے ہیں (یعنی ان کوجہنم سے پناہ اور جنت کے حصول کی فکر لگی رہتی ہے) اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں؛ سوکسی شخص کوخبر نہیں جوجوآنکھوں کی ٹھنڈک کاسامان ایسے لوگوں کے لیے خزانہ غیب میں موجود ہے، یہ ان کے اعمال (صالحہ) کا صلہ ملا ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کواعمالِ صالحہ کے ساتھ جنت کے حصول کی ترغیب فرمائی ہے خصوصاً رات کواللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی ایسی بڑی جزاء بیان فرمائی ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تہجد گزاروں اور رات کے وقت اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت اور ذکر الہٰی میں جاگنے والوں کے لیے جنت کے یہ بڑے بڑے انعامات ہیں جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَالَاعَيْنٌ رَأَتْ وَلَاأُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ قَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ ﴿ فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَاأُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ﴾ ۔ (بخاری، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ، بَاب قَوْلِهِ ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَاأُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ﴾ ،حدیث نمبر:۴۴۰۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کررکھا ہے جوکسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور کسی انسان کے دل سے اس کا خیال تک نہیں گذرا، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں اگرچاہو تو (یہ آیت) پڑھ لو (ترجمہ) سوکسی شخص کوخبرنہیں جوجوآنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسےلوگوں کے لیے خزانہ غیب (جنت) میں موجود ہے۔ جنت کا مختصر سانظارہ: حدیث:حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَلاَهَلْ مُشَمِّرٌ لِلْجَنَّةِ؟ فَإِنَّ الْجَنَّةَ لاَخَطَرَلَهَا، هِيَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ نُورٌ يَتَلأْلأُ، وَرَيْحَانَةٌ تَهْتَزُّ، وَقَصْرٌ مَشِيدٌ، وَنَهْرٌ مُطَّرِدٌ، وَثَمَرَةٌ نَضِجَةٌ، وَزَوْجَةٌ حَسْنَاءُ جَمِيلَةٌ، وَحُلَلٌ كَثِيرَةٌ، وَمُقَامٍ أَبْدا فِي دَارٍسَلِيمَةٍ، وَفَاكِهَةٍ، وَخُضْرَةٍ، وَحبرةٍ، وَنِعْمَةٍ فِي مَحِلَّةٍ عَالِيَةٍ، بَهِيَّةٍ، قَالُوا:نَعَمْ، يَارَسُولَ اللهِ، نَحْنُ الْمُشَمِّرُونَ لَهَا، قَالَ: قُولُوا: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ الْقَوْمُ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۱۔ ابن ماجہ:۴۳۳۲۔ ترغیب وترہیب، اصبہانی:۹۷۶۔ درمنثور:۱/۳۶۔ شرح السنہ:۱۵/۲۲۳) ترجمہ:کوئی جنت کی تیاری کے لیے تیار ہے؟ کیونکہ جنت فنا ہونے والی نہیں، رب کعبہ کی قسم! یہ ایسا نور ہے جولہلہانے والا ہے، ایسا پھولوں کا دستہ ہے جوجھوم رہا ہے اور ایسا محل ہے جوبلند وبالا ہے اور ایسی نہرہے جوجاری رہنے والی ہے؛ ایسا پھل ہے جوپکا ہوا تیار ہے؛ ایسی بیوی ہے جوبہت حسین وجمیل ہے، لباس ہیں جوبڑی تعداد میں ہیں، سلامتی کے گھر میں رہنی کی جگہ ہے ہمیشہ کے لیے، میوے ہیں، سبزہ زار ہے، خوشی ہے، نعمت ہے حسین اور بلند مقامات میں، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسول!ہم اس کے لیے تیار ہیں، فرمایا: انشاء اللہ کہہ لوتوصحابہ کرامؓ نے انشاء اللہ کہا۔ شوقِ جنت میں ایک صحابی کا انتقال: حدیث:حضرت ابن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ (الدھر:۱) تلاوت فرمائی یہ جس وقت نازل ہوئی اس وقت آپﷺ کے پاس ایک سیاہ فام آدمی بیٹھا تھا جوآپﷺ سے سوال کررہا تھا توحضرت عمربن خطابؓ نے اسے فرمایا: تمہارے لیے اتنا کافی ہے حضورﷺ پربوجھ نہ ہو؛ توآنحضرتﷺ نے فرمایا: اے ابنِ خطابؓ اسے چھوڑو، فرمایا: جب یہ سورت نازل ہوئی اس وقت یہ آدمی آپﷺ کے پاس موجود تھا جب آپﷺ نے یہ سورۃ اس کے سامنے پڑھی اور جنت کے حالات پرپہنچے تواس نے ایک دم چیخ ماری جس سے اس کی روح نکل گئی؛ توجناب رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا تمہارے ساتھی (یاتمہارے بھائی) کی روح جنت کے شوق نے نکالی ہے۔ (التذکرہ فی احوال الموتی وامورالآخرہ، قرطبی:۴۳۹) جنت کا طالب جنت کی محنت کرے: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مَارَأَيْتُ مِثْلَ الْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا، وَلَارَأَيْتُ مِثْلَ النَّارِ نَامَ هَارِبُهَا۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۵۷۔ حلیۃ:۸/۱۷۸۔ترمذی:۲۶۰۱۔ شرح السنہ:۱۴/۳۷۲۔ مسندالشہاب:۷۹۱۔نہایہ فی الفتن والملاحم:۲/۲۹۱) ترجمہ:میں نے جنت کی مثال نہیں دیکھی جس کا طالب سوگیا ہے اور نہ دوزخ جیسی (مصیبت اور عذاب) دیکھا ہے جس سے بھاگنے والا بھی سوگیا ہے۔ فائدہ: اس میں بھی طلب جنت کی خوب ترغیب دی گئی ہے۔ جنت کی امیدرکھنے والا جنت میں جائے گا: حدیث:حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جناب نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّمَا يَدْخُل الْجنَّة مَنْ يَرْجُوْهَا۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۵۹۔ حلیۃ:۳/۲۲۵۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۱۶۱۹۶۔ کنزالعمال:۵۸۶۶۔ درمنثور:۶/۳۱۴) ترجمہ:جنت میں وہی داخل ہوگا جواس کی اُمید رکھے گا (لہٰذا) ہم سب مسلمانوں کواس کا اُمید وار ہونا چاہئے۔ فائدہ:ایک حدیث میں حضرت انسؓ نے آنحضرتؐ سے یہ بیان فرمایا ہے کہ جنت میں اس کے حریص کے سوا کوئی نہیں جائے گا۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۶۰) اس لیے جنت میں جانے کی خوب خوب حرص کرنی چاہیے۔ جنت پرایمان لانا فرض ہے: حدیث:حضرت عمربن خطابؓ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرتﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللﷺ! ایمان کیا چیز ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَبِالْمَوْتِ وَبِالْبَعْثِ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ وَالْحِسَابِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَالْقَدَرِ كُلِّهِ۔ (صحیح مسلم:۱/۳۸۔ البعث والنشور:۱۱۱۔ مسندامام احمدؒ:۱/۲۷، بلفظہ) ترجمہ:یہ کہ توایمان لائے اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، موت پر، موت کے بعد جی اُٹھنے پر، حساب وکتاب پر، جنت پر، دوزخ پر اور ہرطرح کی (اچھی اور بری) تقدیر پر۔ فائدہ:اس حدیث پاک میں دوسرے عقائد کے ساتھ ساتھ جنت کوبھی ایمان کا جزقرار دیا ہے؛ لہٰذاجوشخص جنت کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ (شرح عقیدہ طحاویہ:۲/۱۶۱۔۱۷۴، طبع مکتبۃ المعارف ریاض) نیزقرآن پاک میں یہ متواتر احادیث مبارکہ میں جنت اور اس کے احوال کے متعلق جوکچھ موجود ہے وہ بھی ایمان کا جز ہے اس کا انکار بھی کفر ہے، بعض مغربی ذہن رکھنے والے نام نہاد محقق جنت کا اور اس کی بہت سی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں ان کواپنے ایمان کی فکر کرنی ضروری ہے، جنت کے حالات میں جوجوارشادات قرآن کریم یااحادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں احقر نے ان کویکجا کرنے کی ازحد کوشش کی ہے اس مجموعہ میں جنت کی ضروریات ایمان کوبخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔