انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبادہؓ بشر نام ونسب عباد نام،ابو بشر،ابو رافع کنیت، قبیلہ ٔ عبدالاشہل سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے،عباد بن بشر بن دقش بن زغبہ بن زعور اء بن عبدالاشہل بن حشم بن حارث بن خزرج بن عمرو (بنت) بن مالک بن اوس اسلام مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر ایمان لائے۔ غزوات اورعام حالات حضرت ابو حذیفہؓ بن عتبہ سے برادری ہوئی، بدر میں شریک تھے،غزوۂ احد اورتمام غزوات ومشاہد میں نمایاں حصہ لیا۔ کعب بن اشرف کے قتل میں محمد بن مسلمہ کے ساتھ شریک تھے اور بھی چند اشخاص تھے جن میں بعض کے نام یہ ہیں، ابو عبس بن جبر، ابو نائلہ سلکان بن سلامہ، حارث بن اوس، ابن معاذ، اس واقعہ میں چونکہ غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی تھی اور اسلام کے ایک بڑے دشمن کا خاتمہ ہوا تھا اس لئے فرط مسرت میں چند شعر کہے ہیں جن کو صاحب استیعاب نے نقل کیا ہے۔ (استیعاب:۲/۴۲۶) اصل واقعہ ہم محمد بن سلمہ کے حالات میں آئندہ لکھیں گے ان اشعار سے اس کی کس قدر تفصیل معلوم ہوتی ہے !اور وہ یہ ہے کہ عبادؓ بن بشر نے اس کو دو مرتبہ آواز دی اورکہا ذرہ رہن رکھنے آئےہیں، وہ جلدی سے باہر آیا، محمد بن مسلمہ نے گردن پکڑ کر تلوار کا وار کیا اور ابو عبس نے مار کر کونہ میں ڈال دیا، اس جماعت کی کل تعداد ۵ تھی۔ ۸ ھ میں خندق کا معرکہ پیش آیا، اس میں وہ آنحضرتﷺ کے خیمہ کا چندانصار کے ساتھ ہر رات پہرہ دیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد:۴۸) حدیبیہ میں ۶ھ میں ،قریش نے آنحضرتﷺ کی آمد کی خبر سن کر خالد بن ولیدؓ کو ۲۰۰ سواروں کے ساتھ آگے بھیجا تھا،اس موقع پر عباد بن بشر ۲۰ سواروں کے ساتھ خالد کے سامنے پڑے تھے۔ (طبقات ابن سعد:۶۹) غزوۂ طائف کے بعد محرم ۹ھ میں آنحضرتﷺ نے سلیم اور مزنیہ میں صدقات کا عامل بنا کر بھیجا۔ (طبقات ابن سعد:۱۱۵) اسی سنہ میں بنی مصطلق میں بھی عامل صدقات ہوکر گئے اور دس روز رہ کر واپس آئے، یہاں صدقات وصول کرنے کے علاوہ اسلام کی تبلیغ بھی کرتے تھے ،یعنی قرآن پڑھائے تھے اور احکام شریعت کی تعلیم دیتے تھے، یہ تمام کام انہوں نے نہایت خوبی سے انجام دیئے، ابن سعد لکھتے ہیں:فلم یعد ما امرہ رسول اللہ ﷺ یضیع حقا(طبقات ابن سعد:۱۱۶)یعنی آنحضرتﷺ نے جو کچھ حکم دیا تھا اس سے سر مو تجاوز نہیں کیا اور کسی حق کو ضائع نہیں کیا۔ غزوۂ تبوک (۹ھ )میں رات کو تمام لشکر کے گرد گشت لگاتے تھے ،پہرہ دینے والوں کی ایک خاص تعداد تھی اور یہ ان پر افسر بنائے گئے تھے۔ (طبقات ابن سعد:۱۲۰) وفات حضرت عبادؓ اکابر صحابہؓ میں تھے، اس بنا پر ان کی حدیثوں کا ہمارے پاس بڑا مجموعہ ہونا چاہیے تھا،لیکن اس کے خلاف ان سے صرف دو حدیثیں مروی ہیں، جن میں ایک ابو داؤد میں مندرج ہے ،لیکن اصل یہ ہے کہ اس وقت تک اشاعتِ حدیث کا وقت نہیں آیا تھا، صحابہ ؓ کثرت سے ہر جگہ موجود تھے، جو خود آغوشِ نبوت کے پروردہ تھے اس بنا پر بیان روایت اور ترویج حدیث کی ضرورت ہی مفقود تھی۔ اس کے ما سوا آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد تمام عرب میدان جنگ بن گیا تھا،ہر طرف سے فتنے اٹھ رہے تھے،مدعیان نبوت کی الگ سازشیں تھیں، ایسے وقت میں ظاہر ہے کہ خامۂ و قرطاس کی جگہ تیغ و علم زیادہ ضروری تھے۔ ان فرائض کے بعد جب کبھی سکون و اطمینان نصیب ہوتا،دوسرا فرض بھی ادا کرتے تھے،چنانچہ بنو مصطلق میں ۱۰ روزرہ کر قرآن مجیدپڑھایا اور شریعت کے تمام ضروری مسائل تلقین کئے۔ اخلاق جوش ایمان کا نظارہ غزوات میں معلوم ہوتا تھا،جانبازی اور سرفروشی کے ساتھ آنحضرتﷺ اورمسلمانوں کی حفاظت میں رات رات بھر پہرہ دینا اور پھر دن کو شریک جہاد ہونا، وہ لازوال سعادت ہے جو بہت کم لوگوں کو میسر آتی ہے۔ یہ شب بیداری میدان جنگ تک محدود نہ تھی یوں بھی عبادت الہی میں رات کا بہت سا وقت صرف ہوتا تھا، ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے مکان میں آنحضرتﷺ تہجد پڑھنے اٹھے اور حضرت عبادؓ کی آواز سنی تو فرمایا: خدا ان کی مغفرت کرے،امام بخاری نے تاریخ میں اور ابو یعلی نے مسند میں حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے کہ انصار میں تین شخص سب سے بہتر تھے،حضرت سعد بن معاذ، حضرت اسیدؓ بن حضیر، حضرت عباد ؓ بن بشرؓ