انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت زید بن ثابتؓ انصاری صحابہ میں ایک بلند نام حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بھی ہے، آپﷺ نے ان کی ذکاوت دیکھ کر کہا: تم دیگر زبانوں کو سیکھ لو، تو آپ ؓ نے صرف پندرہ دن کے قلیل عرصہ میں کئی زبانیں سیکھ لیں اور اسی سے دفاع اسلام کا کام انجام دیا۔ (البدایہ والنہایۃ: ۸/۳۳) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مدینہ طیبہ کے دس فقہاء عظام نے اکتسابِ فیض کیا (طبقات الفقہاء: ۱/۴۶) نیز ابن حجر عسقلانی (متوفی: ۸۵۲م لکھتے ہیں: زید بن ثابتؓ مدینہ کے سردار تھے قضاء میں ، فقہ وفتاوی میں ، علم قرأۃ وعلم فرائض میں (الاصابہ فی معرفۃ الصحابۃ:۱/۳۹۱) نیز امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے نزدیک عمر بن الخطابؓ کے بعد مدینہ منورہ میں لوگوں کے امام حضرت زید بن ثابتؓ ہیں۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب:۱/۱۶۰) آپ رضی اللہ عنہ اور فتاویٰ بہت ہی کم افراد ہیں جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ میمون میں فتوی دینے کی سعادت نصیب ہوئی، غور کرنے کہ بات ہے ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ گرامی موجود ہے، نیز اکا بر صحابہ علم وفضل تقوی کے لحاظ سے کئی گنا درجات میں آگے ہیں، ان سب کی موجودگی میں فتوی دینا ، فقہ وفتاویٰ میں مہارت کی علامت ہے، چنانچہ سہل بن ابی خیثمہ سے مروی ہے: "کَانَ الَّذِیْنَ یُفْتُوْنَ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللہِﷺ ثَلَاثَۃٌ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَثَلَاثَۃٌ مِنَ الْاَنْصَارِ، عُمَرُؓ، وَعُثْمَانُؓ، وَعَلِیٌّؓ وَأُبَیُ بْنُ کَعْبٍؓ، وَمَعَاذُ بُنُ جَبَلٍ ؓ، وَزَیْدٌ بنُ ثَابِتٍ"۔ وہ افراد جو آپﷺ کے زمانے میں فتوی دیا کرتے تھے ، تین مہاجرین ہیں اور تین انصاری صحابہ ، مہاجرین میں سےحضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ اور انصار میں سے ابی بن کعبؓ، معاذ بن جبلؓ اور زید بن ثابت ؓہیں۔ (سبل الہدی والرشاد وفی سیرۃ خیر العباد: ۱۱/۳۲۸) ابن حزم اندلسی (متوفی: ۴۵۶ھ) نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فہرست پیش کی ہے جن سے کثرت سے فتاوی مردی ہیں ، ان میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی شمار کیا ہے (جوامع السیرۃ: ۱/۳۲۵) نیز امام احمد رحمہ اللہ سے مروی ہے: "کَانَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍؓ أَحَدَ اَصْحَابِ الفَتْویٰ وَہُمْ سِتَّۃٌ، عُمَرُ وَعَلِیُّ، وَاِبْنُ مَسْعُوْدٍ، أُبَی بْنُ کَعْبٍ وَاَبُوْمُوْسٰی وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ ؓ"۔ کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اربابِ فتاوی میں سے ایک ہیں اور اربابِ فتوی چھ ہیں، عمر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔ (الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ: ۱/۳۹۰) نیز قبیصہ کے واسطے سے مروی ہے: "کَانَ زَیْدٌ رَأسًا بِاالْمَدِیْنَۃِ فِی الْقَضَاءِ وَالْفَتْوَیٰ وَالْقِرَاءَ ۃِ وَالْفَرَائِضِ"۔ زید بن ثابتؓ قضاء فتوی قرأت اور علم فرائض کے سلسہ میں مدینہ کے سردار تھے۔ (الاصابہ: ۱/۳۹۱) آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی اجتہادی استعداد وصلاحیت کی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اتنا اعتماد حاصل کرلیا تھا کہ سلیمان بن یسار کہتے ہیں: "کَانَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ لَایَقْدِ مَانِ عَلیٰ زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ أَحَدًا فِیْ الْقَضَاءِ وَالْفَتْوَیٰ وَالْفَرَائِضِ وَالْقِرَأَۃِ"۔ ( طبقات الفقہاء: ۱/۴۶) کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ قضاء اور فتوی اور قرأت اور علم فرائض کے سلسہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ پر کسی کو ترجیح نہیں دیا کرتے تھے۔ گویا ان مسائل میں ان سے رجوع کیا جاتا تھا، جلیل القدر تابعی مسروق ؒ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ان چھ افراد میں شمار کیا ہے جو مرجعیت کے حامل ہیں ، یعنی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علوم ان ہی چھ افراد پر ختم ہوتے ہیں۔ "شَامَمْتُ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍﷺ فَوَجَدْتُّ عِلْمَہُمْ یَنْتَہِیْ إِلیٰ سِتَّۃِ عَلِیٍؓ وَعَبْدِ اللہِ وَعُمَرَؓ، وَزَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍؓ، وَأَبِی الدَّرْدَاءِ، وَأُبَیٍ بنِ کَعْبٍؓ، ثُمَّ شَامَمْتُ السِتَّۃَ فَوَجَدْتُ عِلْمَہُمُ اِنْتَہٰی اِلیٰ عَلِیٍ وَعَبْدِ اللہِ"۔ (اعلام الموقعین: ۱/۱۶) میں نے آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا جائزہ لیا ، تو میں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے علم کو چھ افراد پر ختم ہوتا ہوا محسوس کیا ، حضرت علیؓ ، عبد اللہ بن مسعود ؓ، عمرؓ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، ابودرداء رضی اللہ عنہ ، ابی بن کعب پر ، پھر ان چھ کا جائزہ لیا تو ان کا علم دو ہی افراد پر ختم ہورہا ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر۔ الغرض فتوی واجتہاد میں آپؓ کی استعداد ولیاقت نیز آپ کی مرجعیت مسلم ہے ، تابعین اور تبع تابعین خود صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نہ یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ سے شرفِ تلمذ رکھتی ہے بلکہ آپؓ کے بعدآ پ کے مسلک کے مطابق فتوی بھی دیا کرتی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اجتہاد ی مسائل (۱)مکاتب وہ غلام ہے جسے آقا نے یہ کہد یا ہو کہ اتنی رقم دیکر تم آزاد ہوجاؤ، اس معاملہ کے بعد اس مکاتب غلام کا بدل ِکتابت کی ادائیگی سے قبل ہی انتقال ہوجائے، تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ کتابت کا معاملہ فسخ ہوجائیگا، غلام کا ادا کردہ مال اور غلام کا مملوکہ مال آقا کا ہوگا، امام شافعیؒ نے اسی قول کو اختیا ر کیاہے، اس لئے کہ اصل جس پر معاملہ واقع ہوا ہے وہ غلام کی ذات ہے ، عقد کا معاملہ اسی کی جانب منسوب ہوگا،اور عقد فاسد ہونے کی صورت میں معاملہ اس کی قیمت کی جانب لوٹے گا، جیسے عقد فاسد ہونے کی صورت میں مبیع کی قیمت کی جانب معاملہ لوٹتا ہے۔ (کشف الاسرارعن اصول البزدوی:۴/۴۴۱) علمِ فرائض فقہی ابواب میں دشوارترین باب فرائض کا ہے ، میراث کے مسائل میں ہرایک کا د ماغ کام بھی نہیں کرتا اور ہر ایک کو اس سے مناسبت بھی نہیں ہوتی، اس دشوار باب میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی امامت مسلم ہے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: "أَفْرَضُ اُمَّتِیْ زَیْدٌ بنُ ثَابِتٍؓ"۔ کہ میری امت میں فرائض کا سب سے زیادہ علم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ہے (مستدرک حاکم: ۴/۳۷۲) ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مقامِ جابیہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: "مَنْ أَرَادَ أَنْ یَسْأَلَ عَنِ الْفَرَائِضِ فَلْیَأْتِ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہٗ"۔ کہ جو شخص فرائض یعنی میراث کے مسائل کے بارے میں سوال کرنا چاہے وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے پوچھ لے (اعلام الموقعین: ۱/۲۱) (۱)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے مشہور شاگرد عکرمہ کو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا؛ تاکہ ایک مسئلہ کے سلسلہ میں استفسار کریں، وہ مسئلہ یہ تھا کہ ایک عورت کا انتقال ہوجائے ، اب ورثاء میں صرف شوہر اور والدین موجود ہوں تو ان تینوں میں مال کیسے تقسیم ہوگا ؟ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شوہر کو پورے مال کا آدھا حصہ دیا جائے اس کے بعد جو مال بچاہے اس کا تہائی حصہ ماں کو دیدے، اور بقیہ مال والد کو دیا جائے، اکثر صحابہؓ کا یہی مسلک ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ جب ایک ہی جنس کے مرد یاعورت جمع ہوجائیں تو ایسی صورت میں مرد کے لیے دوحصے اور عورت کے لیے ایک حصہ مقرر ہے، جیسے بیٹا اور بیٹی جمع ہوں یابھائی بہن جمع ہوں؛ اسی طرح جب ماں باپ شوہر کے ساتھ جمع ہوں تو شوہر کے حصہ لینے کے بعد کل مال کے تین حصے کرکے ایک ثلث ماں کو اور دوثلث باپ کو دیا جائیگا؛ یہی بات مشہور قاعدۂ میراث کے موافق ہے اور اگر مذکورہ مثال میں ماں کو ثلث کل دیا جائے تو معروف قاعدۂ میراث کے مخالف عمل ہوگا کہ عورت دوحصوں کی حقدار ہو اور مرد صرف ایک ہی حصہ پائے۔ (تفسیرکبیر: ۵/۷۸) مسئلہ کی نوعیت یوں ہوگی: مسئلہ۶ میت شوہر ماں باپ نصف۳ ثلث مابقی۱ عصبہ۲ عکرمۃ ؒ کہتے ہیں: میں یہ جواب سن کر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مسئلہ کی تفصیل بتادی ، یہ سن کر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جاؤ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس اور ان سے سوال کرو کہ کہیں قرآن کریم میں ثلث مابقی کا بھی تذکرہ آیا ہے اور اگر کسی نے اس صورت میں ماں کو کل مال کا ثلث دیدیا تو کیا اس نے غلطی کی ۔ عکرمہؒ نے زید بن ثابت کے پاس ابن عباسؓ کے سوال کو نقل کیا تو انہوں نے کہا کہ بالکل غلطی نہ کی؛ بلکہ ایک رائے کو انہوں نے اختیار کیا ہی اور ایک رائے کو ہم نے اختیار کیاہے۔ (الفصول فی الاصول: ۳/۱۳۶)