انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہجرت کا پہلا سال ہجرت کے پہلے سال میں جو واقعات رونما ہوئے اُن میں مسجد نبوی کی تعمیر، مکان نبوی کی تعمیر، بعض رہے ہوئے مومنوں کا مدینہ آجانا وغیرہ اوپر مذکور ہوچکے ہیں،اسی ذیل میں حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ کی وفات بھی قابل تذکرہ ہے،ابو امامہؓ پہلے سے بیمار نہ تھے،اچانک اُن پر کسی مرض کا ایسا حملہ ہوا کہ فوت ہوگئے،یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکوں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ اس کے دوستوں میں سے ایک شخص اس طرح اچانک فوت ہوگیا ،اُن کی وفات کے بعد قبیلۂ بنو نجار کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابو امامہ ہمارا سردار تھا اب اس کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا قائم مقام کوئی شخص ہم میں سے سردار مقرر فرمادیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم بنو نجار میرے ماموں ہو،اس لئے میں بھی تم میں شامل ہوں اورمیں خود تمہارا نقیب (سردار) ہوں ،بنو نجار یہ سن کر باغ باغ ہوگئے اوریہ اندیشہ بھی دُور ہوگیا کہ اگر کسی دوسرے شخص کو ان میں سے سردار مقرر کیا جاتا تو انہیں میں سے دوسرے اشخاص جن کو اپنی سرداری کی توقع ہوتی ،اُس کے رقیب بن جاتے اور قبیلہ کا باہمی اتفاق چند روز کے لئے کسی قدر کمزور ہوجاتا،اس طرح اس قبیلہ کی ہمت اور باہمی اتفاق میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پہنچ کر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ اورکوشش صرف فرمائی وہ شہر کا امن وامان اورباشندوں کے تعلقاتِ باہمی کا خوش گوار بنانا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو جاتے ہی محسوس فرمایا کہ مہاجرین کی جماعت مکہ سے آئی ہے،وہ اہل مدینہ کے لئے باعث اذیت اورموجب پیچیدگی نہ ہونے پائے،ساتھ ہی آپ کو یہ بھی خیال تھا کہ مہاجرین جنہوں نے دین کی خاطر انتہائی تکلیفیں برداشت کی ہیں اوراپنے گھر ،وطن،عزیز واقارب،مال و زر،خاندان، برادری سب کو چھوڑ کر مدینہ میں آپڑے ہیں اور زیادہ پریشان ودل شکستہ نہ ہوں؛چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انصار ومہاجرین کو ایک جلسہ میں جمع کرکے اخوتِ اسلامی کا وعظ فرمایا اورمسلمانوں کے اندر مواخاۃ یا بھائی چارہ قائم کرکے مہاجرین وانصار کے تعلقات کو نہایت خوش گوار بنادیا ،عموماً ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار کے درمیان مواخاۃ قائم ہوگئی،حضرت ابوبکرؓ کے دینی بھائی خارجہ بن زبیر انصاریؓ بنے،حضرت عمر فاروقؓ کے دینی بھائی حضرت عتبان بن مالک انصاریؓ ہوئے،حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کا بھائی چارہ سعد بن معاذ انصاریؓ سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا سعد بن الربیع انصاریؓ سے،حضرت زبیر بن العوامؓ کا سلامہ بن سلامہؓ سے،حضرت عثمان بن عفانؓ کا ثابت بن المنذر انصاریؓ سے رشتہ اخوت قائم ہوا،اسی طرح طلحہ بن عبید اللہ اور کعب بن مالکؓ میں،مصعب بن عمیرؓ اورابو ایوب انصاریؓ میں،عمار بن یاسرؓ اورحذیفہ بن الیمانؓ میں بھائی چار مستحکم ہوا،غرض ایک ایک مہاجر کا ایک ایک انصاری سے رشتہ اخوت قائم ہوگیا،اس عہد مواخاۃ کوانصار یہ مدینہ نے اس خلوص اوراحتیاط کے ساتھ نباہا کہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر تلاش نہیں کی جاسکتی،تمام مہاجرین کو انصار نے حقیقی معنوں میں اپنا بھائی سمجھا اوربے دریغ اپنا تمام مال واسباب ان کے سپرد کردیا،بعض انصار نے تو یہاں تک اپنے مہاجر بھائیوں کی دل داری مد نظر رکھی کہ اگر دو بیویاں تھیں تو ایک کو طلاق دے کر اپنے مہاجر بھائی سے اس کا نکاح کردیا،مہاجرین نے بھی اپنا بار اپنے انصار بھائیوں پر نہیں ڈالنا چاہا؛بلکہ انہوں نے نہایت جفا کشی اور مستعدی کے ساتھ محنت مزدوریاں کیں دکان داری اور تجارتیں شروع کیں اوراپنی ضروریاتِ زندگی اپنی قوتِ بازو سے مہیا کرنے لگے اوراپنے انصار بھائیوں کے لئے موجب تقویت بن گئے۔