انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اہل دوزخ اور اہل جنت کی آپس میں گفتگو اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَنَادَى أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُوا نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ ، الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُمْ بِالْآخِرَةِ کَافِرُونَ ، وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ ، وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ، وَنَادَى أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ ، أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ ، وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْکَافِرِينَ . (الاعراف:۴۴،۵۰) (ترجمہ)اور(جب اہل جنت جنت میں جا پہنچیں گے اس وقت)اہل جنت اہل دوزخ کو(اپنی حالت پر خوشی ظاہر کرنے کو اور ان کی حسرت بڑھانے کو)پکاریں گے کہ ہم سے جو ہمارے رب نے وعدہ فرمایا تھا(کہ ایمان اوراعمال صالحہ اختیار کرنے سے جنت دیں گے)ہم نے اس کو واقع کے مطابق پایا، سو(تم بتلاؤ کہ)تم سے جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا(کہ کفر کے سبب دوزخ میں پڑیں گے)تم نے بھی اس کو مطابق واقع پایا؟وہ(اہل دوزخ جواب میں)کہیں گے ہاں(واقعی سب باتیں اللہ اوررسول کی ٹھیک نکلیں)پھر ان دوزخیوں کی حسرت اورجنتیوں کی مسرت بڑھانے کو)ایک پکارنے والا(یعنی کوئی فرشتہ)دونوں(فریق)کے درمیان میں (کھڑا ہوکر)پکارے گا کہ اللہ تعالی کی مار ہو ان ظالموں پر جو اللہ کی راہ(یعنی دین حق) سے اعراض کیا کرتے تھے اور اس(دین حق) میں (ہمیشہ بزعم خود)کجی (کی باتیں)تلاش کرتےرہتے تھے(کہ اس میں عیب اور اعتراض پیدا کریں)اور وہ لوگ آخرت کے بھی منکر تھے(جس کا نتیجہ آج بھگت رہے ہیں، یہ کلام تو اہل جنت اوران کی تائید میں اس سرکاری منادی کا مذکور ہوا، آگے اعراف والوں کا ذکر ہے اوران دونوں (فریق یعنی اہل جنت اوراہل دوزخ) کے درمیان آڑ(یعنی دیوار)ہوگی،اس کا خاصہ یہ ہوگا کہ جنت کا اثر دوزخ تک اوردوزخ کا اثر جنت تک نہ جانے دے گی )اور(اس دیوارکا اس کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے اوراس پر سے جنتی اور دوزخی سب نظر آئیں گے سو) اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے(جن کی نیکیاں اور برائیاں میزان میں برابر وزن کی ہوئیں) وہ لوگ(اہل جنت اوراہل دوزخ میں سے )ہر ایک کو(علاوہ جنت اوردوزخ کے اندر ہونے کی علامت کے)ان کے قیافہ سے(بھی)پہچانیں گے(قیافہ یہ کہ اہل جنت کے چہروں پر نورانیت کو پکار کر کہیں گے السلام علیکم ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اوراس کے امیدوار ہوں گے اورجب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف جاپڑیں گی(اس وقت ہول کھاکر)کہیں گے اے ہمارے رب ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ(عذاب میں)شامل نہ کیجئے اور اہل اعراف (دوزخیوں میں سے)بہت سے آدمیوں کو ان کے قیافہ (ظلمت وکدورت چہرہ)سے پہچانیں گے(کہ یہ کافر ہیں)پکاریں گے(اور) کہیں گے کہ تمہاری جماعت اورتمہارا اپنے کو بڑاسمجھنا (اور انبیاء کی اتباع نہ کرنا)تمہارے کچھ کام نہ آیا(اب دیکھو تو) کیا یہ (جو جنت میں عیش کر رہے ہیں) وہی (مسلمان ہیں)جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ان پر اللہ تعالی اپنی رحمت نہ کرے گا(تو ان پر تو اتنی بڑی رحمت ہوئی کہ)ان کو یہ حکم ہوگیا کہ جاؤ جنت میں (جہاں)تم پر نہ کچھ خوف ہے اورنہ تم مغموم ہوگےاور(جس طرح اوپر جنت والوں نے دوزخ والوں سے گفتگو کی اسی طرح)دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ(ہم مارے بھوک اورپیاس اورگرمی کے بے دم ہوئے جاتے ہیں خدا کے واسطے)ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈالدو (شاید کچھ تسکین ہو جائے) یا اور ہی کچھ دیدو جو اللہ تعالی نے تم کو دے رکھا ہے جنت والے(جواب میں)کہیں گے کہ اللہ تعالی نے دونوں چیزوں کی(یعنی کھانے اورپینے کی)کافروں کے لئے بندش کر رکھی ہے۔ کافروں پر جنت کی نعمتیں حرام ہیں (فائدہ)حضرت ابن عباسؓ مذکورہ آخری آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ایک آدمی اپنے(جنتی)بھائی کو پکار کر کہے گا کہ میں تو آگ سے جل رہا ہوں مجھ پر پانی (یا کچھ اور)پلٹ دے تو (اللہ تعالی کی طرف سے)کہا جائے گا کہ اسے جو اب دو تو وہ(جنتی )کہے گا اللہ تعالی نے ان کو کافروں پر حرام کردیا ہے۔ ابوبکربن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے تو جتنی مدت تک اللہ چاہیں گے وہ انہیں جواب نہیں دیں گے،جب انہیں اجازت ملے گی کہ انہیں جواب دو جبکہ صلہ رحمی اوررحمت ختم کردی گئی ہے تو اہل جنت کہیں گے کہ اے اہل جہنم تم پر اللہ کی لعنت ہو،اے اہل جہنم تم پر اللہ کا غضب ہو،اے اہل جہنم تمہاری کوئی خواہش پوری نہ ہو، تمہیں کوئی بھلائی نہ پہنچے، تم کیا کہتے ہو؟ تو اہل جہنم کہیں گے کیا دنیا میں ہم تمہارے باپ،بیٹے،بھائی اورکنبہ نہ تھے تو اہل جنت کہیں گے ہاں(تم ٹھیک کہتے ہو)تو وہ کہیں گے تم ہم پر تھوڑاسا پانی یا جو کچھ اللہ تعالی نے تمہیں رزق عطاء کررکھا ہے ہمیں بھی دیدو،تو وہ(اہل جنت جواب میں)کہیں گے ان دونوں کو اللہ تعالی نے کافروں(اپنے دشمنوں )پر حرام کردیا ہے (اس لئے ہم تمہاری یہ آرزو پوری نہیں کرسکتے) تباہی سے نجات پر خوشی کا اظہار اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ ، قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي کَانَ لِي قَرِينٌ،يَقُولُ أَإِنَّکَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ ، أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَدِينُونَ ، قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ ، فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ ، قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ (الصافات:۵۲،۵۶) (ترجمہ)ایک جنتی دوسرے جنتیوں کی طرف متوجہ ہوکر کہے گا کہ(دنیا میں)میرا ایک ملاقاتی تھا وہ کہا کرتا تھا کہ کیا تو(مرنے کے بعد زندہ ہونے)پر یقین کرتا ہے کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے(تو)کیا ہمیں جزا سزا ملے گی(اس لئے وہ ضرور دوزخ میں گیا ہوگا، اللہ تعالی کا ارشاد ہوگا کہ(اے اہل جنت) کیا تم جھانک کر (اس کو دیکھنا چاہتےہو؟اگر چاہو تو تم کو اجازت ہے) سو وہ شخص (جس نے قصہ بیان کیا تھا)جھانکے گا تو اس کو جہنم کے درمیان (پڑا ہوا) دیکھے گا(تو اس سے) کہے گا کہ خدا کی قسم تو تو مجھ کو تباہ ہی کرنے کو تھا۔ کوئی جنتی کسی دوزخی کو نہیں پہچان سکے گا فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ کی تفسیر میں خلید العصری کہتے ہیں کہ وہ جنتی اسے جہنم کے درمیان میں ہانڈی کی طرح ابلتا ہوا دیکھ کر کہے گا اللہ کی قسم اگر اللہ عزوجل (مجھے)اس کی پہچان نہ کراتے تو میں اسے نہ پہچان پاتا اس کی تو خوبصورتی اورشکل شباہت سب بگڑچکی ہوگی اور وہ اس موقعہ پر تو مجھے بھی(اس عذاب) میں گرانے ہی والا تھا۔ دوزخ میں داخل ہونے کے اسباب اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں "كُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِينَةٌ ، إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ ، فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ، عَنِ الْمُجْرِمِينَ ، مَا سَلَکَكُمْ فِي سَقَرَ" (المدثر:۳۸،۴۲) (ترجمہ)ہر شخص اپنے اعمال کے بدلہ میں (دوزخ میں) قید ہوگا مگر داہنے والے (مؤمنین) کہ وہ بہشتوں میں ہوں گے (اور)مجرموں کا حال(خود ان کفار ہی سے) پوچھتے ہوں گے(کہ)تم کو دوزخ میں کس بات نے داخل کیا؟ (فائدہ)اہل جہنم ان کے مذکورہ سوال کے جواب میں کہیں گے کہ (۱)ہم نماز نہیں پڑھتے تھے (۲)محتاج کو کھانا نہیں دیتے تھے (۳) دشمنان دین کے ساتھ ہم تعاون کیا کرتے تھے (۴)قیامت کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ دوزخ میں ان چار قسم کے لوگوں کے علاوہ کسی کو قید نہیں رکھا جائے گا ان چار قسم کے لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوگی۔ (تنبیہ)یہ سب خصوصیات کفار کی ہیں اگر مسلمانوں میں سے کوئی نماز نہیں پڑھتا یا محتاج کو کھانا نہیں دیتا تو وہ بالآخر دوزخ میں سزا بھگت کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ (امداد اللہ) بے نمازی دوزخ میں (حدیث)محمد بن علی اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے وہ نبی کریمﷺ سے اہل توحید کے متعلق جہنم سے نکلنے کا ذکر کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ثم یقول اللہ لاھل الجنۃ:اطلعوا الی من بقی فی النار فیطلعون الیھم فیقولون : مَا سَلَکَكُمْ فِي سَقَرَ ، قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّي . (المدثر:۴۲،۴۳) (ترجمہ)پھر اللہ تعالی جنت والوں کو ارشاد فرمائیں گے جو لوگ جہنم میں باقی رہ گئے ہیں ان کو جھانک کر دیکھو پس جب وہ ان کی طرف جھانکیں گے تو کہیں گے تمہیں کسی چیز نے جہنم میں ڈالا ہے؟وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑہتے تھے،یعنی ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اگر ہم نمازی ہوتے تو ان کے ساتھ ہم بھی نکال لئے جاتے۔ (اسماعیلی وغیرہ) بے عمل عالم کا انجام امام شعبیؒ فرماتے ہیں جنت سے ایک جماعت جہنم کی ایک جماعت کو جھانک کر دیکھے گی تو کہے گی تمہیں کیا ہوگیا تم لوگ جہنم میں کیوں ہو جبکہ ہم اسی پر تو عمل کرتے تھے جو تم ہمیں سکھلاتے تھے؟(اورہم اسی کے سبب آج جنت میں ہیں اور آپ لوگ دوزخ میں ہیں) تو وہ کہیں گے ہم تمہیں تو(دین کی) تعلیم دیتے تھے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ (امام احمد) حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ جنت میں جہنم کی طرف روشندان ہوں گے ان سے اہل جنت آگ کی طرف دیکھیں گے تو کہیں گے ان بد بختوں نے کیا جرم کیا ہے؟ حالانکہ ہم تو تمہاری تعلیم و تربیت کی برکت سے جنت میں داخل ہوچکے ہیں؟ تو وہ کہیں گے کہ ہم تمہیں تو(نیکی کا) حکم کرتے تھے اورخود عمل نہیں کرتے تھے اور تمہیں تو (برائیوں سے)روکتے تھے لیکن خود نہیں رکتے تھے۔ حضرت کعب فرماتے ہیں اہل جہنم اور اہل جنت کے درمیان روشندان ہوں گے اہل جنت کا ہر آدمی جب چاہے گا کہ وہ اہل جہنم میں اپنے دشمن کو دیکھے تو دیکھ لے گا۔ جنتی ایک دروازہ سے دوزخی کو دیکھ سکے گا امام فزاری کہتے ہیں ہر مومن کے لئے جنت میں چار دروازے ہوں گے ایک سے اس کی زیارت کرنے کے لئے فرشتے آئیں گے اور ایک سے اس کے پاس اس کی بیویاں حورعین داخل ہوں گی اور ایک دروازہ اس کے اوراہل جہنم کے درمیان بند رہے گا جو اس پر نعمت کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس وقت کھلے گا جب وہ ان کی طرف دیکھنا چاہے گا اورایک دروازہ اس کے اور"دارالسلام"کے درمیان ہوگا جب چاہے گا اس سے اپنے رب کے پاس داخل ہوجائے گا۔ (احمد بن ابی الحواری) حضرت ضحاکؒ فرمان باری تعالی:" فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ،عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ" (التطفیف:۳۴،۳۵) (ترجمہ)جو لوگ ایمان لائے وہ اس روز(جنت میں)کفار کے ساتھ طنز کریں گے تختوں پر بیٹھ کر(ان کو عذاب میں مبتلا) دیکھیں گے(جنتیوں کے یہ تخت) موتی اور یاقوت کے ہوں گے۔ (ابن ابی حاتم) حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ جنت اورجہنم کے درمیان تخت ہوں گے اور اہل جنت کے لئے دروازے کھول دئے جائیں گے تو وہ ان تختوں پر سے اہل جہنم کو دیکھیں گے کہ انہیں کیسے عذاب دیا جارہا ہے اور وہ ان سے ہنسی مذاق بھی کریں گے اور یہ اس لئے ہوگا کہ اس کے ساتھ اللہ تعالی اہل جنت کی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں گے کہ تم اللہ کے دشمن کی طرف دیکھو اللہ تعالی اس سے کیسے انتقام لے رہے ہیں۔ (ابن ابی حاتم) نیک مسلمان کی خدمت پر جہنم سے آزادی (حدیث)حضرت انسؓں حضورﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ان رجلا من اھل الجنۃ یشرف یوم القیامۃ علی اھل النار فینادیہ رجل من اھل النار:یا فلان ھل تعرفنی؟فیقول: لاواللہ لا اعرفک من انت؟ فیقول: ان الذی مررت بی فی دار الدنیا فاستسقیتنی شربۃ ماء فاسقیتک، قال قد عرفت فاشفع بھا عند ربک، فیسال اللہ عزوجل فیقول:یارب شفعنی فیہ فیؤ مر بہ فیخرج من النار (بیہقی وغیرہ) (ترجمہ)اہل جنت میں سے ایک آدمی روز قیامت دوزخیوں کو جھانکے گا تو اسے ایک دوزخی پکارے گا کہ اے فلاں کیا تو مجھے جانتا ہے؟ تو وہ(جنتی)کہے گا نہیں اللہ کی قسم میں تجھے نہیں پہچانتا،تو وہ کہے گا میں وہ ہوں کہ آپ ایک مرتبہ دنیا میں میرے پاس سے گذرے تھے اورمجھ سے تھوڑا سا پانی مانگا تھا اور میں نے آپ کو پانی پلایا تھا،وہ کہے گا کہ بے شک میں پہچان گیا ہوں(تو وہ دوزخی کہے گا)تو پھر میرے لئے اس کے بدلہ میں اپنے پروردگار کے ہاں شفاعت کرو،حضورﷺ فرماتے ہیں کہ وہ اللہ عزوجل سے سوال کرے گا اورکہے گا کہ اے میرے پروردگار آپ اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرمائیں،پھر اس کے لئے (آزادی کا)حکم دیا جائے گا اورجہنم سے نکال لیا جائے گا۔