انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۶۷۔محمد بن مسلم ؒ نام ونسب محمد نام، ابوبکر کنیت،نسب نامہ یہ ہے،محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبداللہ بن شہاب ابن حارث بن زہرہ بن کلاب بن قرشی،زہری کے والد کا نام مسلم تھا،لیکن وہ اپنے دادا شہاب بن حارث کی نسبت سے ابن شہاب مشہور ہوئے،ان کے پرداد ا عبداللہ بن شہاب آغاز اسلام میں دوسرے عمائد قریش کی طرح آنحضرت ﷺ کے سخت دشمن تھے اور بدر واُحد کے مشہور معرکوں میں مشرکین کے ساتھ اسلام کے استیصال کے لیے نکلے تھے اور شرکائے احد کے،ان پر جوش مشرکین میں تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کردینے یا خود لڑکر مرجانے کا عہد کیا تھا۔ (ابن خلکان:۱/۴۵۱) اسی دشمن اسلام کی نسل میں محمد بن مسلم پیدا ہوئے،جن کے دینی خدمات کو اسلامی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی، وہ ان چند آئمہ اسلام میں سے ایک ہیں،جن کی ذات سے اسلام کے مذہبی علوم میں زندگی پیدا ہوئی اور اس کی روشنی سے ساری دنیائے اسلام منور ہوئی۔ حصول علم کی استعداد علمی کمالات کے اعتبار سے ابن شہاب کا کوئی معاصر ان کا ہم پایہ نہ تھا،حصول علم کی استعداد ان میں فطری تھی،ذہانت ذکاوت اورقوت حافظ بے نظیر پائی تھی ذہین ایسے تھے کہ کسی مسئلہ کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت نہ پیش آئی تھی، حافظہ اتنا قوی تھا کہ ایک مرتبہ جوبات سن لی وہ ہمیشہ کے لیے لوح دل پر نقش ہوگئی، اوردوبارہ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑی (تہذیب التہذیب:۹/۴۴۸) ان کی قوت حافظہ کی یہ ادنیٰ مثال ہے کہ اسی دن میں پورا کلام اللہ حفظ کرلیا تھا،ساری عمر میں صرف ایک مرتبہ ایک حدیث میں کچھ شبہ پیدا ہوا تھا،لیکن پوچھنے کے بعد معلوم ہوا کہ جس طریقہ سے ان کو یاد تھی ویسی ہی تھی۔ (ایضاً:۹۸) ذوق وطلب ا س ذہن اورحافظہ کے ساتھ ان کے ذوق اورطلب وجستجو کا بھی یہی حال تھا،علم وفن کا کوئی خرمن ایسا نہ تھا جس سے انہوں نے خوشہ چینی نہ کی ہو، آٹھ سال تک امام مدینہ سعید بن مسیب کی خدمت میں رہے تھے، اس عہد کا مدینہ وہ تھا جس کی گلی گلی علم وفن کا مرکز تھی یہاں کے تمام زن ومرد اوربوڑھے بچے ایک علمی درس گاہ تھے، ابن شہاب گھر گھر آکر سب سے استفادہ کرتے تھے، ابو الزناد کا بیان ہے کہ ہم لوگ زہری کے ساتھ علماء کے گھروں کا چکر لگاتے تھے،زہری کے ساتھ تختیاں اوربیاضیں ہوتی تھیں،وہ جو کچھ سنتے جاتے تھے، اس کو قلمبند کرتے جاتے تھے۔ (ایضاً:۹۶) علمی مجلسوں میں وہ سب سے پہلے جاتے اور بلا امتیاز بوڑھوں اوربچوں سب سے استفادہ کرتے تھے،ان مجلسوں سے نکلنے کے بعد وہ مدینہ کی گلیوں کا طواف کرتے اور تمام بچوں اوربوڑھوں اورعورتوں تک سے استفادہ کرتے ،سعد بن ابراہیم کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ زہری علم میں آپ لوگوں پر کیسے فائق ہوگئے، انہوں نے جواب دیا کہ وہ علمی مجالس میں سب سے پہلے آتے تھے، یہاں سے اٹھ کر وہ انصار کے گھروں پر جاتے اورکوئی جوان نوخیز ادھیڑ عمر مرد اوربوڑھی عورتیں باقی نہ رہتی،جس سے وہ فائدہ نہ حاصل کرتے ہوں،یہاں تک کہ پردہ نشین عورتوں تک کے پاس چلے جاتے۔ (تہذیب التہذیب:۹/۴۴۹) جہاں کسی فاضلہ خاتون کا پتہ چلتا فوراً اس کے پاس پہنچتے ،ان کا خود بیان ہے کہ ایک مرتبہ قاسم بن محمد نے مجھ سے کہا کہ تم میں علم کی بڑی حرص ہے،اس لیے میں تم کو علم کے ظرف کا پتہ بتاتا ہوں،انہوں نے کہا ضرور بتا ئیے،قاسم نے کہا عبدالرحمن کی لڑکی کے پاس جاؤ،انہوں نے ام المومنین عائشہؓ کے آغوش تربیت میں پرورش پائی ہے؛چنانچہ میں ان کے پاس گیا،واقعی وہ علم کا بحر بیکراں تھیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۹) ہمہ گیری ان کا ذوق ہمہ گیر تھا،کسی خاص علم وفن کی تخصیص نہ تھی؛بلکہ وہ ہر علم یکسان ذوق سے حاصل کرتے تھے اور جو کچھ سنتے تھے سب کچھ لکھ لیتے تھے، ابو الزناد کا بیان ہے کہ ہم لوگ صرف حلال وحرام کے مسائل قلمبند کرتے تھے اورزہری جو کچھ سنتے تھے،سب کچھ لکھ لیتے تھے،جب آگے چل کر ضرورت پڑی تو معلوم ہوا کہ وہ سب سے بڑے عالم ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۶) جامعیت ان کے ذوق کی اس ہمہ گیری کی وجہ سے انہیں جملہ علوم وفنون میں یکساں دستگاہ حاصل تھی،جس فن پر وہ گفتگو کرتے تھے،معلوم ہوتا تھا کہ یہی ان کا خاص فن ہے،لیث کا بیان ہے کہ میں نے زہری سے زیادہ جامع شخصیت نہیں دیکھی،جب وہ ترغیب پر گفتگو کرتے تو معلوم ہوتا کہ وہ اسی کے بڑے عالم ہیں،جب قرآن اورسنت پر بولتے تو معلوم ہوتا یہی ان کا خاص فن ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۶)معمر کا بیان ہے کہ جن جن فنون میں ان کو درک تھا،ان میں وہ اپنا مثل نہ رکھتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۹/۴۴۹) قرآن قرآن کے وہ بڑے حافظ تھے اور اس کے متعلقات پر ان کی نظر اتنی وسیع تھی کہ کلام اللہ ان کا خاص موضوع معلوم ہوتا تھا،نافع نے جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ جیسے حبر الامۃ کے تربیت یافتہ تھے،ان سے قرآن کا دورہ کیا تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۹) حدیث اگرچہ ان کو جملہ فنون میں یکساں کمال حاصل تھا،لیکن ان کا خاص فن حدیث وسنت تھا،اس کا انہیں جتنا ذوق تھا اور جس مشقت سے انہوں نے صدہاخرمنوں سے ایک ایک دانہ چن کر علم کا انبار لگایا تھا،اس کے حالات اوپر گزرچکے ہیں،انہوں نے اس عہد کے تمام آئمہ اوراکابر علما کا علم اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا، ابن مدینی کا بیان ہے کہ حجاز میں ثقات کا سارا علم زہری اورعمرو بن دینار کے درمیان تقسیم تھا،ان کی احادیث کی تعداد دو ہزار دوسو تک پہنچی۔ (تہذیب :۹/۴۴۷) سنن رسول اورسنن صحابہ انہیں سنن رسول اورسنن صحابہ کے ساتھ بڑا ذوق تھا اورمدینہ کے جملہ سنن انہوں نے قلمبند کرلیے تھے،صالح بن کیسان کا بیان ہے کہ وہ تحصیل علم میں زہری کے ساتھ تھے،انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم کو سنن لکھ لینا چاہیے؛چنانچہ ہم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے تمام سنن لکھ لیے،سنن رسول کو قلمبند کرنے کے بعد انہوں نے کہا اب صحابہ کے سنن کو لکھنا چاہیے،لیکن سنن صحابہ ہم لوگوں نے نہیں لکھے اورانہوں نے لکھ لیے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کامیاب رہے اور میں نے موقع ضائع کردیا۔ (ایضاً:۴۴۸) مدینہ کے سنن رسول اورسنن صحابہ انہی کی ذات سے محفوظ رہے تھے، امام شافعی فرماتے تھے کہ اگر زہری نہ ہوتے تو مدینہ کے سنن ضائع ہوجاتے (تہذیب الاسماء:۱/۹۱) وہ بالاتفاق اپنے زمانہ کے سنن کے سب سے بڑے عالم تھے عمر بن عبدالعزیزؓ فرمایا کرتے تھے کہ اب ابن شہاب سے زیادہ سنت ماضیہ کا جاننے والا کوئی نہیں رہا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۷) علم حاضر انہوں نے حافظہ ایسا پایا تھا کہ جو کچھ حاصل کیا تھا وہ سب محفوظ تھا، وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنے سینہ میں جو علم ودیعت کیا وہ نہیں بھولا (تہذیب :۹/۴۴۸)پھر حفظ کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ سیکڑوں حدیثیں سناجاتے تھے اور جب پھر انہیں دہرانے کی ضرورت ہوتی تھی تو ایک حرف کا بھی تغیر وتبدل نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ہشام بن عبدالملک نے اپنے کسی لڑکے کے واسطے ان سے حدیثیں کہنے کی درخواست کی،انہوں نے چار سو حدیثیں قلمبند کرادیں،ایک مہینہ کے بعد ہشام نے امتحاناً کہا کہ وہ مجموعہ گم ہوگیا،انہوں نے پھر لکھوادیا،بعد میں دونوں مجموعوں میں مقابلہ کیا گیا تو ایک حرف کا فرق نہ تھا (تذکرہ الحفاظ:۱/۹۷)علاوہ ان احادیث سنن کے جو ان کے سینہ ہی میں رہ گئیں ان کی مرویات کی تعداد دوہزار سے اوپر ہے (ایضاً:۹۶) غرض حدیث میں ان کا پایہ نہایت بلند تھا، امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کے مناقب اورثناء وصفت اوران کے حفظ کے کمالات شمار سے باہر ہیں۔ (تہذیب الاسماء،ج اول،ق ۱،ص:۱۹۱) مرویات کا پایہ حفظ حدیث میں روایات کی کثرت سے زیادہ ان کی کیفیت اورنوعیت معیار کمال ہے،اس اعتبار سے زہری کی روایات کا جو پایہ تھا اس کا اندازہ ان رائیوں سے ہوگا عمروبن دینار جو خود بہت بڑے محدث تھے فرماتے تھے کہ میں نے زہری سے زیادہ حدیث میں کسی کو انص نہیں دیکھا (تہذیب التہذیب:۹/۴۸)امام احمد بن حنبل اور اسحٰق بن راہویہ کی رائے ہے کہ زہری کی وہ روایات اصح ہیں جو انہوں نے سالم سے اورسالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہیں۔ (تہذیب الاسماء:۱/۹۱) شیوخ چونکہ زہری نے ہر خرمن سے خوشہ چینی کی تھی،اس لیے ان کے شیوخ کا دائرہ نہایت وسیع تھا جن میں بہت سی فاضلہ خواتین بھی ہیں،ان کے عہد کے صحابہ اوراکابر تابعین میں کوئی ایسا شخص نہ تھا، جس سے انہوں نے استفادہ نہ کیا ہو،صحابہ میں عبداللہ بن عمرؓ،عبداللہ بن جعفر، ربیعہ بن عبادؓ، مسور بن مخزمہؓ،انس بن مالکؓ، سہل بن سعدؓ،سائب بن یزیدؓ،شبیبؓ،ابو جمیلہؓ عبدالرحمن بن ازہرؓ،محمد بن ربیعؓ،عبداللہ بن ثعلبہؓ،عبداللہ بن عامرؓ بن ربیعہ،ابو امامہؓ،سعد بن سہل اورابوالطفیلؓ،وغیرہ اکابر تابعین میں سعید بن مسیب،مدینہ کے ساتوں مشہور فقہاء ان کےعلاوہ تابعین کی ایک بڑی جماعت سے فیض اٹھایا تھا،جن کی فہرست بہت طویل ہے۔ تلامذہ ابن شہاب کی ذات مرجع انام تھی، اس لیے ان کے تلامذہ کی تعداد بھی بے شمار ہے ان میں سے بعض ممتاز تلامذہ حدیث کے نام یہ ہیں عطاء بن ابی رباح ،عمر بن عبدالعزیز ،عمروبن دینار، صالح بن کیسان،یحییٰ بن سعید انصاری،ایوب سختیانی ،عبداللہ بن مسلم زہری امام اوزاعی،ابن جریج،محمد بن علی بن حسین، محمد بن منکدر،منصور بن معتمر،موسیٰ بن عقبہ ،ہشام بن عروہ،امام مالک،معمر الزبیدی، ابن ابی ذیب لیث، اسحٰق بن یحییٰ کلبی اوربکربن وائل وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب:۹/۴۴۶،وتہذیب الاسماء،ج۱ ،ق ۱،ص۷۹۱) فقہ فقہ میں بھی بہت بلند پایہ رکھتے تھے،مدینہ کے ساتوں مشہور فقہا کا علم ان کے سینہ میں محفوظ تھا (ابن خلکان :۱/۴۵۱) ان کے علاوہ اس عہد کے تمام اکابر فقہاء کے علم کے وہ وارث تھے جعفر بن ربیعہ کا بیان ہے کہ میں نے عراک بن مالک سے پوچھا کہ مدینہ میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے انہوں نے کہا سعید بن مسیب عروہ اورعبداللہ بن عبداللہ،یہ نام گنا نے کے بعد کہا میرے نزدیک زہری ان سب سے بڑے عالم تھے،اس لیے کہ انہوں نے ان سب کا علم اپنے علم میں شامل کرلیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۹/۴۴۸) فتاوی اس فقہی کمال کی وجہ سے وہ مدینہ کی مجلس افتا کے مسند نشین تھے ،ان کے فتاوی کے تعداد اتنی زیادہ تھی کہ محمد بن نوح نے فقہی ترتیب سے اُن کو تین ضخیم جلدوں میں جمع کیا تھا۔ (علام الموقعین:۱/۶۶) مغازی مغازی کے وہ امام تھے،ان سے پہلے کسی نے مغازی کی طرف توجہ نہ کی تھی، تاریخ اسلام میں وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مغازی پر مستقل کتاب لکھی،امام سہیلی کے بیان کے مطابق یہ اس فن کی سب سے پہلی کتاب تھی،ان کی ذات سے مغازی اورسیرت کا عام مذاق پیدا ہوگیا،ان کے تلامذہ میں یعقوب بن ابراہیم،محمد بن صالح ،عبدالرحمن بن عبدالعزیز موسیٰ بن عقبہ اورمحمد بن اسحٰق نے اس فن میں بڑا کمال پیدا کیا ،خصوصاً آخر الذکر دونوں تلامذہ نے بڑی شہرت اورناموری حاصل کی۔ علماء میں ابن شہاب کا درجہ زہری کا علمی مرتبہ اس عہد کے تمام علماء اوراربابِ کمال میں مسلم تھا، ایوب سختیانی کہتے تھے کہ میں نے زہری سے بڑا عالم نہیں دیکھا،کسی نے پوچھا حسن بصری کو بھی نہیں،انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں نے زہری سے بڑا کسی کو بھی نہیں پایا (تہذیب الاسماء:۱/۹۱)مکحول جنہوں نے تحصیل علم کے سلسلہ میں ساری دنیا چھان ماری تھی اور دنیائے اسلام کے تمام بڑے بڑے علماء سے ملے تھے، کسی نے پوچھا تم سب سے بڑے کس عالم سے ملے،انہوں نے جواب دیا ابن شہاب سے،امام مالک فرماتے تھے کہ دنیا میں زہری کا کوئی مثل نہ تھا، سعد بن ابراہیم یہاں تک مبالغہ کرتے تھے کہ میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے بعد زہری کے اتنا علم کسی میں نہ تھا۔ (تہذیب الاسماء:۱/۹۲) اشاعتِ علم خدا نے زہری کو جس فیاضی کے ساتھ علم کی دولت عطا کی تھی، اسی فیاضی کے ساتھ انہوں نے اس کو تقسیم کیا اوراس کی اشاعت میں سعی بلیغ کی،فرمایا کرتے تھے نہ کسی نے تحصیل علم میں میری جیسی مشقت اٹھائی اورنہ اس کی اشاعت میں،ان کے تلامذہ کی فہرست سے ان کے علمی خدمات کا کسی قدر اندازہ ہوتا ہے۔ علمی انہماک ان کی پوری زندگی علم میں ڈوبی ہوئی تھی اس کے سوا ان کا کوئی مشغلہ نہ تھا،علمی انہماک میں وہ دنیا ومافیہا حتی کہ بیوی تک سے بے خبر ہوجاتے تھے،جب گھر آتے تھے تو کتابوں کے ڈھیرمیں گم ہوجاتے تھے، ان کی بیوی نے ایک دن تنگ آکر کہا،خدا کی قسم یہ کتابیں میرے لیے تین سوتنوں سے زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ عہدۂ قضاء اورخلفاء سے تعلقات عبد الملک، عمر بن عبدالعزیز اورہشام وغیرہ جو چھ خلفاء زہری کے زمانہ میں تھے، ان سب سے ان کے گہرے تعلقات تھے،اس کا آغاز عبدالملک سے ہوا،عبدالملک خود بڑاصاحبِ علم اورجوہر شناس تھا، اگر وہ خلیفہ ہوکر برباد نہ ہوگیا ہوتا تو عہد تابعین کا نہایت جلیل القدر عالم ہوتا، امام شعبی اس کے علمی کمالات کے اتنے معترف تھے کہ فرماتے تھے، میں جن لوگوں سے ملا عبدالملک کے سوا اپنے کو سب سے افضل پایا،عبدالملک کے سامنے جب میں کوئی حدیث بیان کرتایا شعر پڑھتا،تو وہ اس میں اوراضافہ کردیتا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۷) زہری سب سے اول ۸۰ ھ میں عبدالملک کے پاس دمشق گئے وہ ان کے علمی کمالات سے بہت متاثر ہوا، زہری مقروض تھے،ان کا کل قرض ادا کردیا،قرض کی ادائیگی کے علاوہ اوربھی سلوک کیے اورانہیں دمشق کے عہدۂ قضاء پر ممتاز کیا (ابن حلکان:۱/۴۵۲) اس تعلق سے زہری کا دمشق میں مستقل قیام ہوگیا تھا اوروہ عبدالملک ہی کے ساتھ رہتے تھے،اموی خلفاء میں عبدالملک کے بعد عمر بن عبدالعزیز بڑے صاحب علم اور جوہرشناس تھے،وہ زہری کو بہت مانتے تھے؛بلکہ ان کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے،اوپر زہری کے بارہ میں ان کے بعض اقوال گزرچکے ہیں،انہوں نے تمام ممالک محروسہ میں اعلان کروایاتھاکہ سب لوگ ابن شہاب کی اقتدا کیا کریں کہ ان سے زیادہ سنت ماضیہ کا جاننے والا کوئی نہیں مل سکتا۔ (ابن خلکان:۱/۴۵۱) عبدالملک کی وفات کے بعد زہری اس کے لڑکے ہشام کے ساتھ رہنے لگے تھے(ایضاً:۴۵۱) پھر ہشام کے لڑکے کے اتالیق ہوگئے تھے،ہشام پر بھی ان کا بڑا اثر تھا اور وہ انہیں بہت مانتا تھا، اس نے ہزاروں روپیہ کا ان کا قرض ادا کیا،ہشام کے ساتھ ان کی درباری گفتگو اورحاضر جوابی کے بعض دلچسپ واقعات تاریخوں میں مذکور ہیں،ایک دن یہ اورابو الزناد ہشام کے دربار میں تھے،ہشام نے ان سے سوال کیا کہ اہل مدینہ کے وظیفے کس مہینہ میں تقسیم ہواکرتے تھے،زہری نے لا علمی ظاہر کی،اس نے ابوالزناد سے پوچھا،انہوں نے بتایا محرم میں یہ جواب سُن کر ہشام نے زہری سے کہا کہ ابوبکر! یہ علم تم کو آج حاصل ہوا،زہری نے برجستہ جواب دیا امیرا لمومنین کی مجلس ایسی ہی ہے کہ اس سے علمی استفادہ کیا جائے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۹) فیاضی فیاضی اورسیر چشمی زہری کا نمایاں وصف تھا،وہ دولت کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے،عمروبن دینار کا بیان ہے کہ میں نے درہم ودینار کو زہری کی نگاہ سے زیادہ کسی کی نگاہ میں بے وقعت نہیں دیکھا، وہ اس کو اونٹ کی مینگنی سے زیادہ سمجھتے تھے،اسی کا نتیجہ تھا کہ بے دریغ روپیہ لٹاتے تھے اور بار بار مقروض ہوجاتے تھے،عبدالملک اورہشام نے بارہا ان کا قرض ادا کیا،لیکن ان کی بخششوں نے ان کو ہمیشہ مقروض رکھا، ولید بن محمد موقری کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ زہری سے کہا کہ ابوبکر تم میں صرف ایک عیب قرض لینے کا ہے،جواب دیا مجھ پر قرض ہی کیا ہے،کل چالیس ہزار دینار کا قرض ہے اور میرے پاس چار غلام ہیں جن میں سے ایک چالیس ہزار دینار کا قرض ہے اور میرے پاس چار غلام ہیں جن میں سے ایک چالیس ہزار سے زیادہ بہتر ہے اور صرف ایک پوتا میرا وارث ہے میری تو تمنا یہ ہے کہ کسی کو میری وراثت نہ ملتی۔ وفات ۱۲۴ میں یہ آفتاب علم وعمل دنیا سے روپوش ہوا۔ حلیہ قد پستہ تھا،سر پر کاکلین تھیں۔