انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خوارج کی شورش اوپر بیان ہوچکا ہے کہ جس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ حکمین کا فیصلہ سننے کے لئے چار سو آدمی مقام اذرج کی طرف بھیجنے لگے تھے تو حرقوص بن زہیر نے کہا تھا کہ آپؓ اب بھی اپنی پنچایت کی کارروائی میں حصہ نہ لیں اورملکِ شام پر چڑھائی کریں،لیکن حضرت علیؓ نے اس بات کے ماننے سے صاف انکار فرمادیا تھا اورکہا تھا کہ ہم بد عہدی نہیں کرسکتے اور اپنے تحریری اقرار نامہ سے نہیں پھر سکتے ،اب حرقوص اور تمام خوارج نے جب دیکھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پنچایت اورپنچوں کے فیصلے کو بے حقیقت اورناقابل التفات ثابت کرکے لوگوں کو ملکِ شام پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں تو زرعہ بن البرح اورحرقوص بن زہیر دونوں خارجی سردار حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا کہ آپ نے ہمارے صحیح مشورہ کو پہلے حقارت سے رد کردیا اوراب آپ کو وہی کام کرنا پڑا جس کے لئے ہم کہتے تھے پنچایت کے تسلیم کرنے میں آپ نے غلطی کی تھی،لیکن آپ نے اس غلطی کو تسلیم نہیں کیا؛حالانکہ اب آپ پنچایت کو بے حقیقت بتاتے اورملکِ شام پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں،پس اب ہم آپ کا ساتھ اُس وقت دیں گے جب آپ اپنی غلطی اور گناہ کا اقرار کرکے اُس سے توبہ کریں گے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ پنچایت کے تسلیم کرنے اور حکم مقرر کرنے میں تم ہی لوگوں نے تو مجھ کو مجبور کیا تھا ،ورنہ لڑائی کے ذریعہ اُسی وقت فیصلہ ہوچکا ہوتا،یہ کیسی اُلٹی بات ہے کہ اب مجھ کو خطا کار ٹھہراتے اورمجھ سے توبہ کراتے ہو،انہوں نے کہا کہ اچھا ہم تسلیم کئے لیتے ہیں کہ ہم نے بھی گناہ کیا،لہذا ہم بھی توبہ کرتے ہیں، آپ بھی اپنے گناہ کا اقرار کرکے توبہ کریں پھر شامیوں سے لڑنے چلیں،حضرت علیؓ نے فرمایا ،جب میں گناہ ہی تسلیم نہیں کرتا تو توبہ کیسے کروں، یہ سُن کر وہ دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے اور لَا حُکْمَ الاَّ لِلّٰہ لَا حُکْمَ الَّا لِلّٰہ کہتے ہوئے اپنی قیام گاہوں کی طرف چلے گئے اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسجد کوفہ میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو مسجد کے ایک گوشہ سے ایک خارجی نے بلند آواز سے کہا کہ لاَ حُکمَ اِلاَّ لِلّٰہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ دیکھو یہ لوگ کلمہ حق سے باطل کا اظہار کرتےہیں،اس کے بعد آپؓ نے پھر خطبہ شروع کیا تو یہی آواز آئی لاَ حُکمَ اِلاَّ لِلّٰہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ بہت ہی نامناسب برتاؤ کررہے ہو،ہم تم کو مسجدوں میں آنے سے منع نہیں کرتے،جب تک تم ہمارے ساتھ رہے ہم نے مالِ غنیمت میں بھی تم کو برابر حصہ دیا اور ہم تمہارے ساتھ اُس وقت تک نہ لڑیں گے جب تک کہ تم ہم سے نہ لڑو،اورہم اب تمہاری بابت اللہ کے حکم کو دیکھیں گے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے،یہ فرما کر حضرت علیؓ مسجد سے نکل کر مکان کی طرف تشریف لے گئے،ان کے بعد خارجی لوگ بھی عبداللہ بن وہب کے مکان پر بغرض مشورت جمع ہوئے،عبداللہ بن وہب حرقوص بن زہیر،حمزہ بن سنان،زید بن حصین الطائی،شریح بن ادنی عنسی وغیرہ کی یہی رائے قرار پائی کہ بصرہ سے نکل کر پہاڑی مقامات کو قرار گاہ بنانا اورحضرت علیؓ کی حکومت سے آزاد ہوکر اپنی الگ حکومت قائم کرنا چاہئے،ہمزہ بن سنان اسدی نے کہا کہ روانگی سے پہلے ہم کو چاہئے کہ ایک شخص کو امیر بنالیں اوراس کے ہاتھ میں اپنا جھنڈا دیں۔ اس کام کے لئے اگلے دن شریح کے مکان پر پھر مجلس منعقد ہوئی،اس مجلس میں عبداللہ بن وہب کو خوارج نے اپنا امیر بنایا اوراس کے ہاتھ پر بیعت کی،عبداللہ بن وہب نے کہا کہ ہم کو یہاں سے اب کسی ایسے شہر کی جانب چلنا چاہئے جہاں ہم خدا کے حکم کو جاری کرسکیں کیونکہ ہم اہلِ حق ہیں،شریح نے کہا کہ ہم کومدائن کی طرف جانا چاہئے ؛کیونکہ اس پر ہمارا قبضہ بڑی آسانی سے ہوجائے گا اوروہاں کی تھوڑی سی فوج کو ہم بآسانی مغلوب کرسکیں گے، وہیں ہم اپنے اُن بھائیوں کو بُلوالیں گے جو بصرہ میں موجود ہیں،زید بن حصین نے کہا کہ اگر ہم سب کے سب مجتمع ہوکر گئے تو عجب نہیں ہمارا تعاقب کیا جائے،لہذا مناسب یہ ہے کہ دو دو ،چار چار، دس دس کی ٹولیوں میں یہاں سے نکلیں اور اوّل مدائن نہیں ؛بلکہ نہروان کی جانب چلیں اووہیں اپنے بھائیوں کو خط بھیج کر بصرہ سے بلوالیں،اسی آخری رائے کو سب نے پسند کیا،قرارداد کے موافق یہ لوگ متفرق طور پر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں کوفہ سے نکلے،کوفے سے نکل کر انہوں نے خوارجِ بصرہ کو لکھا کہ تم بھی بصرے سے نکلو ہم سے نہروان میں آملو،بصرہ سے مشعر تیمی پانسو خوارج کی جمعیت لے کر نکلا،جب کوفہ میں حضرت علیؓ کو معلوم ہوا کہ خوارج کی جمعیت کثیر کوفہ سے نکل کر مدائن کی طرف روانہ ہوئی ہے تو انہوں نے مدائن کے عامل سعد بن مسعود کےپاس تیز رو ایلچی بھیجا کہ خوارج کی روک تھام کریں اوران سے غافل نہ رہیں،سعد بن مسعود نے اپنے بھتیجے کو اپنا قائم مقام بناکرمدائن میں چھوڑا اور خود فوج لے کر خوارج کے روکنے کو روانہ ہوئے راستے میں خوارج کی ایک جمعیت سے مقام کرج میں مقابلہ ہوا،شام تک لڑائی رہی رات کی تاریکی میں خوارج دجلہ کو عبور کرگئے،اس کے بعد بصرے کے خوارج پہنچ گئے،اُن سے بھی مقابلہ ومقاتلہ ہوا وہ بھی دجلہ کو عبور کرنے اورمقام نہروان میں اپنے بھائیوں سے جاملنے میں کامیاب ہوگئے، نہروان میں خوارج نے اپنی جمعیت کو خوب مضبوط اورمنظم کرلیا اورحضرت علیؓ اوراُن کے تابعین پر کفر کا فتویٰ لگا کر اُن لوگوں کو جو حضرت علیؓ کو حق پر تسلیم کرتے تھے قتل کرنا شروع کیا،ان کی جمعیت روز بروز ترقی کرتی گئی، یہاں تک کہ پچیس ہزار تک نوبت پہنچ گئی۔