انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ابو لبابہ کی توبہ ابو لبابہ کو یہ خیال آتے ہی وہاں ٹھہرنا پسند نہیں کئے اور فوراً روتے ہوئے واپس ہوئے اور سوچا کہ حضور ﷺ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا ، احساس شرمندگی کے ساتھ دوسرے راستے سے مدینہ چلے گئے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے اپنے آپ کو باندھ لیا اور قسم کھائی کہ اب کبھی بنو قریظہ کی زمین پر قدم نہیں رکھوں گا ، جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرماتا اور حضورﷺ اپنے دست مبارک سے آزاد نہیں فرماتے اسی طرح بندھا رہوں گا ، جب ابو لبابہ کے واپس ہونے میں دیر ہوئی تو حضوراکرم ﷺ نے دریافت کیا ، کسی نے بتلایا کہ وہ تو مسجد نبوی میں ستون سے بندھے کھڑے ہیں ، تفصیل سن کر آپﷺ نے فرمایا اگر وہ سیدھے میرے پاس آتے تو میں ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا ؛لیکن انہوں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپردکر دیا ہے تو جب تک ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی میں انہیں کھول نہیں سکتا، ان کی بیٹی آکر کھجور کھلاتی اور پانی پلاتی ، قضائے حاجت اور نماز کے وقت کھولا جاتا پھر باندھ دیا جاتا ، پندرہ دن اور بہ روایت دیگر بیس دن تک اسی طرح بھاری زنجیر سے بندھے رہے ، سولہویں دن جب کہ حضور اکرم ﷺ حضرت اُم سلمہ ؓ کے حجرے میں تشریف فرما تھے تو صبح مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ابو لبابہ کا گناہ معاف کر دیا ہے اور ان کی توبہ قبول کر دی ہے ، حضرت اُم سلمہ ؓ نے اپنے حجرے سے آواز دی ! ابو لبابہ : بشارت ہو تمہاری توبہ قبول ہو گئی ، لوگ ان کی زنجیریں کھولنے کے لئے دوڑے لیکن انہوں نے کہا مجھے مت کھولو ، میں حضور اکرم ﷺ کے ہاتھ سے آزاد ہونا چاہتا ہوں ، جب حضور اکرم ﷺ نماز فجر کے لئے تشریف لائے تو انہیں مبارکباد دی اور اپنے دستِ مبارک سے ان کی زنجیریں کھولیں ، مسجد نبوی میں آج بھی یہ جگہ استوانہ ابو لبابہ کے نام سے موجود ہے ۔