انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مصعب بن زبی رضی اللہ عنہ کا قتل آخرعبدالملک اپنی مکمل تیاریوں کے بعد شام سے عراق کی جانب فوج لے کرچلا، عبدالملک دمشق سے اس وقت روانہ ہوا ہے جب کہ اس کے پاس روساء کوفہ کے بہت سے خطوط پہنچ چکے تھے کہ آپ کوفوراً عراق پرحملہ آور ہونا چاہیے، عبدالملک کے مشیروں نے روانگی کے وقت اس کوروکا کہ کہیں اہلِ عراق اور اہلِ کوفہ کے یہ خطوط اسی قسم کے نہ ہوں جیسے انھوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کولکھے تھے، عبدالملک نے کہا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ تومحض کوفہ کے بھروسے پرچل دیئے تھے اور میں ایک زبردست فوج کے ساتھ جارہا ہوں، مجھ کوان کی بدعہدی یابے وفائی سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور مجھ کویقین ہے کہ وہ جب مجھ کوایک طاقتور فوج کے ساتھ دیکھیں گے توہرگز اپنے ان وعدوں سے جووہ خطوط میں کررہے ہیں، نہ پھریں گے۔ آخر عبدالملک فوج لے کرچلا، ادھر سے اس کے آنے کی خبر سن کرمصعب بن زبیر بھی روانہ ہوئے، جس زمانے میں عبدالملک کی فوج کشی کی خبر کوفہ میں پہنچی، اس سے پہلے مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ، عمربن عبداللہ بن معمر کوخوارج کے مقابلے کے لیئے بصرہ سے فارس کی طرف بھیج چکے تھے؛ لہٰذا عمر بن عبداللہ بھی اس لڑائی میں موجود نہ تھا، دارجاثلیق کے قریب دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل پہنچ کرخیمہ زن ہوئے، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کی فوج بہت تھوڑی تھی؛ کیونکہ عین روانگی کے وقت بہت سے لوگوں نے حیلے بہانے کرکے جانے سے انکار کردیا تھا، جولوگ میدان میں ساتھ آئے تھے اُن میں سے بھی زیادہ حصہ دشمن سے ملا ہوا تھا اور اس بات کا منتظر تھا کہ لڑائی شروع ہوتودشمن سے جاملیں؛ غرض لڑائی شروع ہوئی، عبدالملک نے پوری طاقت سے اوّل اسی حصہ فوج پرحملہ کیا جوابراہیم بن مالک کی ماتحتی میں تھی؛ کیونکہ اس کوابراہیم بن مالک کی طرف سے بہت خوف تھا، یہ حملہ عبدالملک کے بھائی محمد بن مروان نے کیا تھا، طرفین سے خوب خوب دادِ شجاعت دی گئی، آخرابراہیم نے محمد بن مروان کوپیچھے ڈھکیل دیا، محمد بن مروان کوہزیمت ہوتے ہوئے دیکھ کرعبدالملک نے عبیداللہ بن یزید کوایک تازہ دم فوج کے ساتھ محمد کی مدد پربھیجا، اب جم کرمقابلہ ہونے لگا؛ اسی معرکہ میں مسلم بن عمروباہلی قتیبہ بن مسلم کا باپ بھی کام آیا۔ ابراہیم پردشمنوں کا ہجوم دیکھ کرمصعب بن زبیر نے عتاب بن ورقاء کوابراہیم کی مدد کے لیے بھیجا عتاب بن ورقاء پہلے ہی درپردہ عبدالملک کی بیعت کرچکا تھا وہ قرار داد کے موافق فوراً میدان سے فرار ہوگیا، ابراہیم دشمنوں کے نرغے میں گھرکربڑی بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا، ابراہیم بن ملک کے مارے جاتے ہی عبدالملک اور اہلِ شام کا دل بڑھ گیا اور ان کواپنی فتح کا کامل یقین ہوگیا، مصعب بن زبیر نے دوسرے سرداروں اور اپنے ہمراہیوں سے آگے بڑھنے اور حملہ کرنے کے لیے کہا؛ مگرکوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا، سب نے اس کان سنا اور اس کان پراڑادیا، معدودے چند آدمی تھے جومیدان میں لڑرہے تھے، باقی تمام فوج کوفیوں کی کھڑی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی۔ کوفیوں کی یہ غداری درحقیقت اُس غداری سے جوانھوں نے امام حسین علیہ السلام سے کی بہت بڑھی ہوئی تھی؛ کیونکہ امام حسین کا ساتھ نہ دینے میں اُن کوابن زیاد اور اس کے لشکر نے مجبور کردیا تھا اور خوف وہراس ان پرغالب ہوگیا تھا؛ لیکن مصعب بن زبیر کا ساتھ نہ دینا سراسر ان کی شرارت وغداری اور محسن کشی تھی، عبدالملک یہ نہیں چاہتا تھا کہ مصعب بن زبیر قتل کئے جائیں، اس لیے اس نے اپنے بھائی محمد بن مروان کومصعب کے پاس بھیجا اور کہلا بھجوایا کہ آپ کی طرف سے اب لڑائی کی شکل بگڑ چکی ہے، آپ کوکسی طرح فتح نہیں ہوسکتی، میں آپ کوامان دیتا ہوں، آپ میری امان قبول کرلیں، مصعب نے اس کا انکاری جواب دیا اور کہا کہ مجھ کوصرف خدا کی امان کافی ہے اس کے بعد مصعب بن زبیر کے بیٹے عیسیٰ سے محمد بن مروان نے کہا کہ تم کواور تمہارے باپ مصعب دونوں کوامیرالمؤمنین عبدالملک نے امان دی ہے، عیسیٰ نے یہ سن کرباپ سے آکرکہا، مصعب نے کہا کہ ہاں یہ تومجھ کویقین ہے کہ اہلِ شام تمہارے ساتھ وعدہ پورا کریں گے؛ اگرتمہارا جی چاہے توتم اُن کی امان میں چلے جاؤ، عیسیٰ نے کہا کہ میں قریش کی عورتوں کویہ کہنے کا موقع ہرگز نہ دوں گا کہ عیسیٰ اپنی جان بچانے کے لیے باپ سے جدا ہوگیا، مصعب نے کہا اچھا تم اپنے چچا عبداللہ بن زبیر کی طرف مکہ روانہ ہوجاؤ اور اُن کواہلِ عراق کی غداری کا حال سناؤ، مجھ کویہی چھوڑ جاؤ میں نے اپنے آپ کومقتول سمجھ لیا ہے، عیسیٰ نے کہا میں یہ خبر جاکر نہ سناؤں گا، مناسب یہ ہے کہ آپ اس میدانِ جنگ سے واپس چلیں اور سیدھے بصرے پہنچیں وہاں کے لوگ آپ سے بہت خوش ہیں اور آپ کے ہرطرح مطیع ہیں، بصرہ پہنچ کرکچھ تدارک کیا جاسکے گا، یاپھرمکہ کی طرف چلیے۔ مصعب نے کہا کہ صاحبزادے یہ ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ تمام قریش میں میرے میدان سے بھاگنے کا چرچا ہوجائے گا؛ بہتر یہ ہے کہ تم ہرایک خیال کوچھوڑدو اور دشمن پرحملہ کرو، عیسیٰ یہ سنتے ہی اپنے چند ہمراہیوں سمیت دشمن پرحملہ آور ہوا اور سیکڑوں کوخاک وخون میں لٹا کرمصعب بن زبیر کی آنکھوں کے سامنے خود بھی ہمیشہ کے لیے سوگیا، اس کے بعد عبدالملک آگے بڑھ کرآیا اور مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بڑی منت اور اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ اب میدان سے چلے جائیں یاامان قبول کرلیں؛ یہاں تک کہ اس نے اس اصرار میں الحاح وعاجزی سے کام لیا؛ مگرمصعب نے اس کی طرف مطلق التفات نہ کیا، یہ وقت بھی عجیب وغریب وقت ہوگا کہ عبدالملک اپنی خفیہ تدابیر کے نتائج دیکھ دیکھ کرخوش ہورہا ہوگا۔ کوفیوں کا لشکر میدان میں موجو دہے؛ مگرامیراپنے امیر کا ساتھ نہیں دیتا اور دور سے تماشا دیکھ رہا ہے، دوسری طرف مصعب بن زبیر حیران ہوں گے کہ جولشکر میرے اشاروں پرکام کرتا اور گردنیں کٹواتا تھا وہ میری مدد نہیں کرتا، کوفیوں نے مصعب بن زبیر اور امام حسین دونوں کے قتل کرانے میں ایک ہی درجہ کا جرم کیا؛ لیکن یہ دونوں جرم دومختلف شکلوں میں ظاہر ہوئے وہاں امام حسین علیہ السلام اپنے دشمنوں سے چاہتے تھے کہ وہ ان کومیدانِ جنگ سے مکہ یادمشق یاکسی اور طرف کوچ کرجانے دیں؛ یہاں مصعب بن زبیر کے دشمن خود چاہتے تھے کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ میدان سے نکل جائیں، وہاں امام حسین کے دشمنوں نے ان کی بات قبول نہیں کی اور یہاں مصعب بن زبیر نے اپنے دشمنوں کی بات نہیں مانی، نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہوا۔ مصعب بن زبیر اپنے بیٹے عیسیٰ کے مارے جانے کے بعد اپنے خیمہ میں گئے، سرمیں تیل ڈالا، خوشبو لگائی اور باہرآکرشمشیر بدست دشمن پرحملہ آور ہوئے، اس حملہ میں آپ کا ساتھ دینے والے صرف سات آدمی باقی تھے جوان کے ساتھ ہی مارے گئے، مصعب بن زبیر نے ایسا سخت حملہ کیا کہ شامیوں کی صفوں کودرہم برہم کردیا، آخر تیروں، تلواروں اور نیزوں کے زخموں سے چور چور ہوکر بے ہوش ہوگئے، ان کے گرتے ہی شامیوں نے ان کا سرکاٹ لیا اور سنہ۷۱ھ میں دس برس کے بعد کربلا کا تماشا دارجاثلیق میں دہرایا گیا۔ عبدالملک نے اسی میدان میں تمام لشکر کوفہ سے اپنی خلافت کی بیعت لی اور وہاں سے روانہ ہوکر کوفہ کے قریب مقامِ نخیلہ میں چالیس دن ٹھہرا رہا جب اہلِ کوفہ کی طرف سے بہرطور اطمینان حاصل ہوگیا توشہر میں داخل ہوا، جامع مسجد میں خطبہ دیا، لوگوں سے حسنِ سلوک کا وعدہ کیا، انعام واکرام سے خوش کیا، فارس وخراسان وبصرہ واہواز وغیرہ کے عاملوں کوخط لکھا کہ رعایا سے ہمارے نام پربیعت لے لو، مہلب بن ابی صفرہ کوبھی اس کی جگہ پربدستور قائم رکھا، سب نے عبدالملک کی خلافت کوتسلیم کرلیا اور بجز تسلیم کرنے کے اب ان کے لیے کوئی چارہ بھی نہ تھا، صرف عبداللہ بن حازم نے کہ وہ بھی ایک حصہ خراسان کے حاکم تھے بیعت سے انکار کیا اور بحرین بن ورقاء صریمی کے ہاتھ سے چند ہی روم کے بعد مارے گئے۔ بصرہ کی گورنری عبدالملک نے خالد بن اسید کوسپرد کی اور اپنے بھائی بشیر بن مروان کوکوفہ کا گورنر بنایا، مصعب بن زبیر کا سرعبدالملک نے کوفہ سے دمشق کی جانب بھیج دیا تھا، یہ سر جب دمشق میں پہنچا تولوگوں نے اس کی تشہیر کا ارادہ کیا؛ لیکن عبدالملک کی بیوی عاتکہ بنتِ یزید بن معاویہ نے لوگوں کوممانعت کی اور اس سرکولے کرغسل دینے کے بعد دفن کردیا، مہلب بن ابی صفرہ نے بھی عبدالملک کی اطاعت اختیار کرکے لوگوں سے بیعت لے لی۔