انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شخصیت اورجمہوریت انسانی نسل جہاں ایک طرف اشرف المخلوقات اورمخدوم کائنات ہے،دوسری طرف اُس کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کسی ایک اعلیٰ اور طاقتور ہستی کو اپنا مرکز اورمقتدا بناکر رہے اوریہی فطری تقاضا ہے جو اس کو توحید باری تعالیٰ کی طرف رہبری کرتا اور تمام معبودانِ باطلہ سے منحرف بناکر اکیلے خدا کی پرستش پر آمادہ کرتا ہے،شیطانی فریب کاریوں میں سب سے بڑی فریب کاری یہ تھی کہ انسان نے حکومت وسلطنت کے لئے قابلیت اورصفات حسنہ کی شرط کو فراموش کرکے وراثت اورنسب کے تعلق کو حکومت اور بادشاہی کے لئے بطور شرط لازم تسلیم کرلیا اور اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے شخصوں کو جو بادشاہت اورحکومت کے حق دارنہ تھے محض بادشاہ کی اولاد ہونے کے سبب بادشاہ بننے اور مستحق بادشاہت لوگوں کو ذلیل وخوار بنانے کا موقع ملنے لگا، نوع انسان کی اس غلطی نے دنیا میں بڑی بڑٰی خرابیاں اور ہنگامہ آرائیاں برپا کیں اوربنی آدم کو اپنی اس غلطی کے بڑے بڑے خمیازے بھگتنے پڑے۔ قرآن کریم نے نازل اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہوکر دنیا کی اس عالمگیر گمراہی اورنوع انسان کی اس عظیم الشان غلط روی کا علاج کیا اورجامع جمیع کمالات انسانیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود حکومت کی فرماں روائی کرکے فرائض رسالت ونبوت کے علاوہ دنیوی بادشاہت وحکومت کا بھی بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا اورنوع انسان کو بتایا کہ بادشاہ کے فرائض کیا ہوتے ہیں اور بہترین تربیت حاصل کردہ گروہ،یعنی صحابہ کرامؓ نے آپ کی تعلیم کے موافق بہترین شخص یعنی مستحق حکومت اورقابل فرماں روائی کے لئے وراثت قابلِ لحاظ ہے،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کا انتخاب بھی جائز استحقاق اوراُسی صحیح اصول پر ہوا ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب اگرچہ وراثت اور نسب کے تعلقات کا لحاظ کئے بغیر ہوا مگر مسلمانوں کے بعض طبقات اوربعض افراد کو اس انتخاب میں قدر ے انقباض رہا اورخود حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رشتہ داروں اور ہم قبیلہ لوگوں کی رعایت زیادہ مرعی رکھی؛چنانچہ ان کا زمانہ فتن سے خالی نہ رہا،پس کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت رسول جس طرح ۲۳ سال تک اپنی زندگی کا نمونہ نوع انسان کی زندگیوں کو سدھارنے کے لئے پیش کیا، اسی طرح ۱ھ سے ۲۳ھ تک یعنی ۲۳ سال تک سلطنت وفرماں روائی کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ، جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ۲۳ سال نوع انسان کے لیے قابل اقتداء ہیں اسی طرح آنحضرتﷺ کی مدنی زندگی،حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت،حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کے کل۲۳ سال سلاطین عالم کے لئے قابلِ تقلید ہیں۔ خلافتِ راشدہ کے بعد انسانی کمزوری اورشیطانی فریب کاری نے پھر وراثت کے تعلقات کو حصولِ سلطنت کے لئے ضروری قراردے دیا اور حکومت وسلطنت بجائے اس کے کہ مستحق اورقابل افراد کا حصہ ہوتی،مخصوص خاندانوں کا حق سمجھی جانے لگی اورلائق فرماں رواؤں کے بعد ان کے نالائق بیٹے تختِ حکومت پر جلوہ فرما نظر آنے لگے اوران نالائقوں سے تختِ سلطنت پاک کرنے کے لئے لوگوں کو بڑی بڑی محنتیں اوراذیتیں برداشت کرنی پڑیں،بالآخر ان مصیبتوں سے تنگ آکر لوگوں نے اُس جمہوریت کا سہارا پکڑا جو فرانس وامریکہ وغیرہ کے ممالک میں آج کل نظر آتی ہے،حالانکہ جس طرح وراثتی شخصی سلطنتیں نوعِ انسان کے لئے مضر تھیں اسی طرح یہ جمہوریتیں بھی نوع انسان کے لئے مفیدو بابرکت نہیں ہوسکتیں،فطرتِ انسانی کے عین موافق اورہرطرح مفید وبابرکت وہی طرز حکومت ہے جس کا نمونہ سنہ ہجری کی ابتدائی چہارم صدی نے پیش کیا تھا اور وہ جمہوری وشخصی سلطنتوں کی ایک درمیانی حالت ہے۔