انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولتِ غوریہ ہرات کے مشرقی کوہستان میں غور ایک وسیع خطہ کا نام ہے،محمود غزنوی نے اس علاقے کو فتح کرکے اپنی سلطنت کا ایک صوبہ بنالیا تھا،غورکے باشندوں نے دوسری صدی ہجری کے شروع میں اسلام قبول کرلیا تھا اوریہاں سب افغانی قومیں آباد تھیں محمود غزنوی نے غور کی صوبہ داری پر انہیں افغانوں کے ایک شریف شخص کو مامور فرمایا تھا،جس کے خاندان میں غور کی حکومت بطور صوبہ داری چلی آتی تھی،اتفاقاً سلطان بہرام غزنوی اورغور کے حاکم قطب الدین میں کسی بات پا ناچاقی ہوئی اورنوبت جنگ وپیکار تک پہنچی،اس لڑائی میں قطب الدین غوری مارا گیا،قطب الدین غوری کے بھائی سیف الدین نے اپنے بھائی کے انتقام میں غزنی پر فوج کشی کرکے بہرام غزنوی کو غزنوی سے نکال دیا،اورخود تخت غزنی پر متصرف ہوا،بہرام غزنوی نے اطراف ملک سے امداد حاصل کرکے غزنی پر حملہ کیا اورسیف الدین کو گرفتار کرکے نہایت بے دردی اورسخت اذیتوں کے ساتھ قتل کیا۔ اس کا حال جب تیسرے بھائی علاؤ الدین غوری کو معلوم ہوا تو وہ اپنے دونوں مقتول بھائیوں کے خون کا بدلہ لینے کے لئے غزنی پر حملہ آور ہوا،علاؤالدین غوری اور اُس کے ہم وطن نہایت جوش وخروش کے ساتھ غزنی کی طرف بڑھے تو بہرام غزنوی نے اُن کو زر وجواہر کالالچ دے کر واپس کرنا چاہا اورصلح وآشتی کی تمہید ڈالی ،لیکن علاء الدین غوری اوراُس کے ہمراہیوں کو جب یہ خیال آتا تھا کہ سیف الدین کو کس طرح بیل پر سوار کرکے غزنی کے گلی کوچوں میں تشہیر کیا گیا تھا اورنہایت ظالمانہ طور پر اُس کی جان نکالی گئی تھیتو وہ غیظ وغضب اورجوشِ انتقام میں دیوانے ہوجاتے تھے،اسی لئے بہرام کی تدبیر صلح کارگر نہ ہوئی،علاؤ الدین نے غزنی کو فتح کرلیا،اوربہرام غزنوی ہندوستان کی طرف بھاگ آیا،علاؤ الدین غوری نے اپنے بھائی کے انتقام میں باشندگانِ غزنی کا قتل عام کیا،سلاطینِ غزنی کے بعض مقبروں کو مسمار کیامکانوں کو آگ لگادی اورایک ہفتہ تک اس قتل وخوں ریزی کے سلسلے کو جاری رکھا جس کی وجہ سے علاؤالدین جہاں سوز کے نام سے مشہور ہوا غزنی کے بہت سے لوگوں کو گرفتار کرکے لے گیا اوروہاں اُن کو قتل کرکے اُن کے خون سے گارابنواکر شہر پناہ کی تعمیر میں استعمال کیا،یہ واقعہ ۵۴۷ھ کا ہے،علاؤالدین جہاں سوز غوری نے غزنی کی فتح کے بعد غزنی میں اپنا ایک نائب السلطنت مقرر کیا اورخود غور کی جانب اپنے دارالحکومت فیروز کوہ کی جانب چلا گیا، اس طرح غزنی غور کی سلطنت کا ایک صوبہ بن گیا،بہرام غزنوی چونکہ سلطان سنجر سلجوقی کی سیادت کو تسلیم کرچکا تھا،لہذااُس نے ہندوستان سے سلطان سنجر سلجوقی کے پاس فریاد نامے بھیجے،سلطان سنجر سلجوقی نے دوسرے سال حملہ کرکے غور وغزنی کو فتح کرکے بہرام غزنوی کو پھر اپنی طرف سے غزنی پر قابض کردیا اورعلاؤالدین جہاں سوز غوری کو گرفتار کرکے اپنے ہمراہ لے گیا،علاؤالدین غوری نے غزنی کی تباہی میں جو کچھ کیا جوشِ انتقام سے کیا ورنہ وہ بہت سمجھ دار دور اندیش اورقابل شخص تھا ؛چنانچہ چند ہی روز کے بعد سلطان سنجر نے علاؤالدین کی قابلیتوں سے واقف اورخوش ہوکر اُس کو رہا کردیا، اوروہ اپنے وطن غور میں آکر پھر حکومت کرنے لگا،اس کے بعد ہی ترکانِ غزنے سلطان سنجر کو گرفتار کرلیا اورسلجو قیوں کا رعب واقتدار کم ہواسلطان سنجر چار سال تک ترکان ِ غزنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہا یہ قید اسی قسم کی تھی جیسے کہ ہندوستان کا بادشاہ جہانگیر مہابت خان کی قید میں تھا یعنی۔۔۔۔۔۔ غزون کے وقت سلطان سنجر کو تخت پر بٹھاتے اوراُس کے سامنے مؤدبانہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے اوررات کے وقت اُس کو ایک آہنی قفس میں بند کردیتے ،سلطان سنجر ہی کو اپنا بادشاہ اورسلطان ۔۔۔۔ اورجہاں چاہتے اپنے ساتھ اُس کو لئے پھرتے تھے،سلطان سنجر کے قید ہونے کے بعد علاؤ الدین ۔۔۔۔۔۔۔۔ نے بہرام غزنوی کو بے دخل کرکے غزنی پر بھی قبضہ کرلیا اورچند روز کے بعد اپنی موت سے ۔۔۔۔۔۔ علاؤ الدین غوری کو دولتِ غوریہ کا پہلا خود مختار بادشاہ سمجھنا چاہئے،اُس کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا سیف الدین ثانی غور کے تخت پر بیٹھا اورڈیڑھ سال کے قریب حکومت کرکے ترکان غزکی ایک لڑائی میں اپنے ہی ایک سردار کے ہاتھ سے ماراگیا۔ اُس کے بعد ولاؤ الدین غوری کا بھتیجا غیاث الدین غوری کا ایک بھائی شہاب الدین غوری تھا وہ بھی اپنے بھائی کے ساتھ اسی طرح حکومت وسلطنت میں شریک تھا، جس طرح طغرل بیگ سلجوقی اورچغر بیگ سلجوقی دونوں بھائی مل کر حکومت کرتے تھے،غیاث الدین وشہاب الدین دونوں بڑے اتفاق ومحبت سے رہتے تھے اور دنوں بادشاہ سمجھے جاتے تھے،شہاب الدین غوری اپنے بڑے بھائی غیاث الدین غوری کو اپنا آقا سمجھتا اوراُس کے ہر ایک منشا کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا،خراسان کے ملک کا اکثر حصہ اپنی حکومت میں شامل کرنے کے بعد غوریوں نے ہندوستان کی طرف توجہ کی، کیونکہ وہ اپنے آپ کو سلطنتِ غزنوی کا جانشین سمجھتے اورجس قدر ملک سلطان غزنوی کے قبضے میں تھا،اُس تمام ملک کو قبضہ میں لانا اپنا جائز حق تصور کرتے تھے،پنجاب میں بہرام غزنوی کی اولاد حکمراں تھی؛چنانچہ اُس سے پنجاب کا ملک چھین لینا انہوں نے ضروری سمجھا اورشہاب الدین غوری نے ۵۸۲ھ میں خسر وملک غزنوی کو لاہور سے گرفتار کرکے اپنے بھائی غیاث الدین غوری کے پاس غور کی طرف بھیج دیا اورخود دارالسلطنت لاہور پر قابض ومتصرف ہوا۔ ۵۹۹ھ میں غیاث الدین غوری کا انتقال ہوا اوراُس کی جگہ اُس کا بھائی شہاب الدین غوری فیروز کوہ میں تخت نشین ہوا،غیاث الدین غوری کے عہدِ حیات میں شہاب الدین غوری ہندوستان کے راجہ پرتھوی راج کو شکست دے کر اورگرفتار کرکے قتل کرچکا تھا،اب جب کہ وہ فیروز کوہ میں غور کے تکت پر بیٹھا تو ہندوستان میں اُس کی طرف سے اُس کا غلام قطب الدین ایبک فرماں روا تھا، اپنی بادشاہت کے زمانے میں سلطان شہاب الدین غوری ایک مرتبہ ہندوستان آیا ہوا تھا، یہاں سے واپس غور کی طرف جارہا تھا ۶۰۲ھ میں فدائیوں یا گکھڑوں کے ہاتھ سے اپنے خیمے میں رات کے وقت دھوکے سے شہید کیا گیا، شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد دولتِ غوریہ کا شیرازہ درہم برہم ہوگیا،ہندوستان میں قطب الدین ایبک مستقل بادشاہ اورخاندانِ غلامان کی سلطنت کا بانی ہوا،اورفیروز کوہ کے تخت پر اُس کا بھتیجا سلطان محمود غوری ابن غیاث الدین غوری متمکن ہوا۔ ۶۰۷ھ میں محمود غوری بھی مقتول ہوا،اُس کے بعد اُس کا بیٹا بہاؤ الدین تخت نشین ہوا جس کو خوارزم شاہ نے قید کرلیا،اس کے بعد اس خاندان کے متوسلین نے یکے بعد دیگرے برائے نام غور میں حکومت کی اوربہت جلد اس خاندان کا خاتمہ ہوگیا۔