انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** احتساب جوچیز مذہب واخلاق کو صحیح اصول پر قائم رکھتی ہے،شریعت کی اصطلاح میں اس کا نام احتساب ہے اورخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مختلف مدارج قائم کر دیئے ہیں۔ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ (مسلم) تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے اس کو اپنے ہاتھ سے مٹادے اگر اس میں اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے اس کا انکار کرے اوراگر یہ بھی نہیں کرسکتا تو دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ صحابہ کرام کے زمانے میں چونکہ تمام اخلاقی طاقتیں زندہ تھیں، اس لئے اس مقدس دور میں آخری درجہ کے سوا احتساب کے اور تمام مدارج قائم تھے۔ ایک روز نماز جمعہ کی صف بندی میں اس قدر کشمکش ہوئی کہ آگے کے لوگ پیچھے اورپیچھے کے لوگ آگے ہوگئے، حضرت انس بن مالک ؓ نے یہ بے ترتیبی دیکھی تو فرمایا کہ ہم لوگ عہد نبوت میں اس سے احتراز کرتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب الصفوف بین السواری) حضرت معاذؓ اپنی قوم کے امام تھے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کا ثواب بھی ضائع نہیں کرنا چاہتےتھے ،اس لئے پہلے آپ کے ساتھ نماز پڑھ لیتے تھے ،پھر آکر اپنی مسجد میں امامت کرتے تھے ، ایک روز اسی طرح امامت کی اور سورہ بقرہ پڑھنا شروع کیا، ایک کاروباری صحابی جو تھک کر چور ہوگئے تھے جماعت سے علیحدہ ہوگئے اور الگ نماز پڑھ لی ایک صحابی نے فوراً ٹوکاکہ تم منافق ہوگئے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب تخفیف الصلوٰۃ) حضرت عائشہؓ ایک دفعہ ایک گھر میں مہمان اتریں، صاحب خانہ کی دو لڑکیوں کو جواب جوان ہوچلی تھیں دیکھا کہ بے چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں، تاکید کی کہ آئندہ کوئی لڑکی بے چادر اوڑھے نماز نہ پڑھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے۔ (مسند ،جلد ۶،صفحہ ۹۶) ایک بار زیاد بن صبیح الحنفی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ نماز میں کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوئے ،بولے کہ نماز میں یہ پھانسی کی وضع؟ (جب بھانسی دی جاتی ہے تو مصلوب کے ہاتھ اسی طرح باندھ دیئے جاتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرماتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب التحضر والا قعاء) ایک دفعہ حضرت عائشہؓ کے بھائی عبدالرحمان بن ابی بکرؓ ان کے پاس آئے اور معمولی طرح سے جھٹ پٹ وضو کرکے چلے، حضرت عائشہؓ نے ٹوکا کہ "عبدالرحمان وضواچھی طرح کیا کرو" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے کہتے ہوئے سنا ہے کہ وضو میں جو عضو نہ بھیگے اس پر جہنم کی پھٹکار ہو۔ (مسند،جلد۶،صفحہ ۲۸۵) علی بن عبدالرحمان المعادی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نماز میں کنکریوں سے کھیل رہا تھا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا تو منع کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اختیار کرو،(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب الاشارۃ فی التشہد) ایک بار انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ نماز میں بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہے، بولے کہ اس طرح نہ بیٹھو یہ ان لوگوں کی نشست ہے جن کو عذاب دیا جائے گا۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب کرابیۃ الاعتماد علی الید فی الصلوٰۃ) حضرت ابو تمیمہ جہمیؒ ایک تابعی تھے ان کا معمول تھا کہ نماز صبح کے بعد بیٹھ کر کچھ وعظ و پند کرتے تھے اوراس میں آیات قرآن کی تلاوت فرماتے تھے اورجب کوئی آیت سجدہ آجاتی تھی تو سجدہ کرتے تھے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا تو بار بار منع کیا وہ باز نہ آئے تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ کے ساتھ نمازپڑھی ہے وہ طلوع آفتاب سے پہلے کوئی سجدہ نہیں کرتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الصوم فیمن یقراء السجدۃ بعد الصبح) ایک بار ایک صحابیہ خوب خوشبو لگا کر مسجد میں گئیں،پلٹیں تو راہ میں حضرت ابوہریرہؓ کا سامنا ہوگیا،خوشبو آئی تو پوچھا کہ یہ خوشبو مسجد میں جانے کے واسطے لگائی تھی بولیں ہاں ،فرمایا: میں نےاپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو عورت مسجد میں جانے کے لئے خوشبو لگائے اس کی نماز اس وقت تک مقبول نہیں ہوتی جب تک پلٹ کے غسل جنابت نہ کرلے۔ (ابوداؤد کتاب الترجل باب فی طیب المرأۃ) عرب میں یہ وحشیانہ طریقہ جاری تھا کہ اسیران جنگ کو باندھ کر قتل کرڈالتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی اور عملاً اس کو مٹادیا، ایک بار حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید ؓ کے پاس چار کافر گرفتار ہوکر آئے اور انہوں نے ان کو اسی طرح قتل کرڈالا، حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو خبر ہوئی تو فرمایا کہ آپ ﷺنے اس کی ممانعت فرمائی ہے، اگر مرغیاں بھی ہوتیں تو میں ان کو اس طرح نہ مرواتا۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب قتل الاسیر بالنبل) ایک بار حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ کابل میں ایک فوج کے ساتھ تھے ،اہل فوج نے مال غنیمت پایا اورباہم لوٹ مار کر کھاگئے، حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، سب نے اپنا اپنا حصہ واپس کردیا، اور دوبارہ انہوں نے اس کو تقسیم کیا۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی النہی عن النبہی اذا کان فی الطعام قلۃ فی ارض العدد) حضرت انس بن مالکؓ حکم بن ایوب کے پاس آئے ،دیکھا کہ چند نوجوان مرغی کو باندھ کر تیر کا نشانہ لگارہے ہیں ،فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد کتاب الضحایا باب فی الرفق بالذبیحہ) حضرت عائشہ نے ایک عورت کو دیکھا کہ اس کی چادر میں صلیب کے نقش ونگار بنے ہوئے ہیں، دیکھنے کے ساتھ ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔ (مسند جلد۶،صفحہ ۲۲۵) صحابہ کرام مرتے دم تک بھی فرض احتساب سے غافل نہیں ہوتے تھے، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ پر آثار موت طاری ہوئے تو ان کی بی بی رونے لگی فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تمہیں خبر نہیں،فورا ًچپ ہوگئیں۔ (ابوداؤد کتاب الجنائز باب فی النوح) ایک بار حضرت ابوحذیفہؓ نے مدائن میں ایک چبوترے پر چڑھ کے امامت کی، حضرت ابومسعودؓ نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچ لیا،اور وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کیا تمہیں خبر نہیں کہ عہد نبوت میں لوگ اس سے روکے جاتے تھے؟ بولے تم نے دامن کھینچا،تو مجھے یاد آیا۔ مدائن ہی میں ایک دوسرے موقع پر حضرت عمار بن یاسرؓ نے بھی ایساہی کیا تو حضرت حذیفہؓ نے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا اور وہ چبوترے سے نیچے اتر آئے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب الامام یقوم مکانا ارفع من مکان القوم) ایک بار حضرت امام حسن علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے ،حضرت ابو رافع ؓ بھی حسن اتفاق سے آگئے دیکھا کہ ان کے بال گندھے ہوئے ہیں، فوراً ہاتھ سے کھول دیئے ،انہوں نے برہم ہوکر ان کی طرف دیکھا بولے کہ نماز پڑھیے، برہم نہ ہوجایے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ چوٹی شیطان کا اڈا ہے۔ ایک بار اسی وضع کے ساتھ حضرت عبداللہ بن حارثؓ نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ پیچھے کھڑے ہوگئے اور بال کھولنے لگے، وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کہ میرے سر نے آپ کا کیا قصور کیا تھا؟ بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس طرح نماز پڑھتا ہے اس کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہوتی ہے جو نماز پڑھے اور اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب الرجل یصلی عاقصا شعرہ) ایک بار ایک شخص نے جمعہ پڑھا اور اسی جگہ دو رکعت سنت بھی ادا کی، حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے دیکھا تو ڈھکیل دیا اور کہا کہ چار رکعت جمعہ پڑھتے ہو، اس سرزنش کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں سنت پڑھتے تھے اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی اسی کا اتباع کرتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ بعد المعہ) حضرت قیس بن عبادہؓ کا بیان ہے کہ میں پہلی صف میں نماز پڑھ رہا تھا کہ حضرت ابی ابن کعبؓ نے مجھ کو پیچھے سے کھینچ کر ہٹا دیا اورخود میری جگہ کھڑے ہوگئے، نماز سے فارغ ہوکر فرمایا کہ برا نہ مانو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو یہی وصیت فرمائی ہے، اس کے بعد قبلہ رو کھڑے ہو کر تین بار فرمایا خدائے کعبہ کی قسم اہل عقد ہلاک ہوگئے، خدا کی قسم میں عام لوگوں پر افسوس نہیں کرتا، ان پر افسوس کرتا ہوں جنہوں نے لوگوں کو گمراہ کیا ہے قیسؓ ابن عباد نے پوچھا اہل عقد کو ن لوگ ہیں؟ بولے امراء۔ (نسائی کتاب القبلہ) ایک بار حضرت ہشام بن حکیم بن حرام سورۂ فرقان پڑھ رہے تھے، حسن اتفاق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو بھی یہی سورت پڑھائی تھی، حضرت عمرؓ نے سنا تو ان کو قرأت میں اختلاف معلوم ہوا، چنانچہ ان کو چادر سے باندھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور کہا کہ جس طرح آپ نے مجھ کو پڑھایا ہے ان کی قرأت اس کے مخالف ہے ، آپﷺ نے فرمایا قرآن سات حرورف پر نازل ہوا ہے جس طرح ہوسکے پڑھو۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب نزول القرآن علی سبقہ احرف ) ایک بار صحابہ کرام کسی جنازہ کے ساتھ آہستہ آہستہ جارہے تھے، حضرت ابوبکرؓ آئے اور کوڑا اٹھا کر کہا کہ ہم لوگ آپ ﷺکے ساتھ جنازے میں دوڑتے ہوئے چلتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الجنائز باب الاسراع بالجنائز) ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بازار میں زیتوں کا تیل خریدا ،اسی جگہ ایک شخص نے اس کو خریدنا چاہا، نفع ملتا تھا، انہوں نے اس کے ہاتھ فروخت کردیا، اسی حالت میں پیچھے سے ایک شخص نے ان کی کلائی پکڑلی، مڑکر دیکھا تو حضرت زید بن ثابتؓ تھے، فرمایا کہ جہاں خریدا ہے وہیں نہ بیچو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ (ابو داؤد کتاب البیوع باب فی بیع الطعام قبل ان یستوفی) حضرت ابو مسعودؓ انصاری حلقہ قائم کر کے بیٹھے تھے،دو آدمیوں نے کہا اس حلقہ میں کون ہے، جو ہمارا فیصلہ کرے گا؟ ایک شخص نے کہا میں حضرت ابو مسعود انصاریؓ نے کنکری اٹھاکر ماری اورکہا چپ،(ابوداؤد کتاب الاقضیہ باب فی طلب القضاء والنترع الیہ) قضاءت کو جلدی سے قبول کرنا مکروہ ہے۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے ایک بچے کے پاؤں میں گھونگرو دیکھا تو کاٹ ڈالا اور فرمایا کہ آپﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر گھونگرو کے ساتھ شیطان رہتا ہے۔ اسی طرح حضرت عائشہؓ نے بھی ایک لڑکی کے گھونگرو کٹوادیئے۔ (ابوداؤد کتاب الخاتم باب ماجاء فی الجلاجل) ایک بار ان کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمانؓ نہایت باریک ڈوپٹہ اوڑھ کر سامنے آئیں، دیکھنے کے ساتھ ہی غصہ سے دوپٹہ چاک کردیا، پھر فرمایا تم نہیں جانتیں کہ سورۂ نور میں خدا نے کیا احکام نازل کئے ہیں؟ اس کے بعد گاڑھے کا دوسرا دوپٹہ منگواکر اوڑھایا۔ (موطا امام مالک کتاب اللباس ) ایک شخص نے حضرت عثمانؓ کے سامنے ان کی تعریف کی ،حضرت مقداد بن اسودؓ نے اس کے منہ میں خاک اٹھا کر جھونک دی اورکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مدح کرنے والوں کے منہ میں خاک جھونک دو۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی اکراہتہ التماوج) سلاطین وامراء کا احتساب درحقیقت جان کو خطرہ میں ڈالنا ہے؛لیکن صحابہ کرام نے نہایت دلیری اورحق گوئی کے ساتھ اس فرض کو ادا فرمایا۔ عہد نبوت میں یہ دستور تھا کہ عیدگاہ میں ساتھ منبر نہیں جاتا تھا اور آپﷺ نماز عید کے بعد خطبہ پڑھتے تھے، بنوامیہ نے یہ دونوں طریقے بدل دیئے ،چنانچہ ایک بار مروان نے نماز سے پہلے خطبہ پڑھنا چاہا تو ایک شخص کھڑا ہوا اورکہا کہ مروان تم نے سنت کی مخالفت کی ،عیدگاہ میں منبر ساتھ لائے اورخطبہ نماز سے پہلے پڑھا، حضرت ابو سعید خدریؓ بھی موجود تھے بولے یہ کون ہے؟ اس نے اپنا حق ادا کردیا۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب الخطبہ) ایک بار حضرت عثمانؓ نے منٰی میں چار رکعت نماز اد کی، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ٹوکا کہ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس جگہ صرف دورکعت نماز پڑھی ہے ،اس کے بعد تم لوگوں نے اور اور طریقے اختیار کرلئے ہیں ،میں تو دورکعت کو محبوب رکھتا ہوں۔ (ابودؤد کتاب المناسک باب الصلوٰۃ یمنی) ایک بار حضرت یحییٰ بن سعیدؓ بن العاص نے بی بی کو طلاق بائن دی، مروان بن الحکم نے جو مدینہ کا گورنر تھا ان کو گھر سے رخصت کردیا، حضرت عائشہؓ کو معلوم ہوا تو کہلا بھیجا کہ خدا سے ڈرو، عورت کو سسرال ہی میں رہنے دو، مروان بن الحکم نے جواب دیا کہ طلاق باین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو گھر میں نہیں رہنے دیا تھا، بولیں کہ اگر تم فاطمہ کی حدیث پر عمل نہ کرو تو کوئی حرج نہیں ۔ (ابوداؤد کتاب الطلاق باب من افکر ذلک، یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے کہ جس عورت کو طلاق بائن دیجائے اس کو سکنی کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ قرآن مجید میں تصریح ہے کہ اس کو گھر ہی میں عدت گذارنی چاہئے، لیکن فاطمہ بنت قیس کی حدیث اس کے معارض ہے؛لیکن حضرت عائشہ کا خیال یہ تھا کہ فاطمہ کا گھر نہایت سنسان اورالگ تھلگ تھا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دوسرے گھر میں عدت بسر کرنے کا حکم دیا تھا ورنہ قرآن مجید کا اصل حکم اب تک باقی ہے) ایک بار حضرت امیر معاویہؓ نے رومیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، ابھی مدتِ معاہدہ گذرنے نہ پائی تھی کہ حملہ کی تیاری کردی کہ مدت معاہدہ گذرنے کے ساتھ ہی حملہ شروع کردیا جائے، فوج روانہ ہوئی تو حضرت عمروبن عنبسہؓ گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور کہا اللہ اکبر، اللہ اکبر، وفائے عہد کرنی چاہئے بد عہدی جائز نہیں۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الامام یکون بینہ وبین بعد عہد فیسر نحو) ایک بار حضرت ابو ہریرہؓ مروان کے گھر میں گئے، دیکھا کہ مصور تصویر بنارہا ہے، بولے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا کہتا ہے کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو میری طرح مخلوق کو پیدا کرتا ہے، وہ ایک ذرہ، ایک دانہ اورایک جو تو پیدا کرلے۔ (مسلم کتاب اللباس والرہیۃ باب الاتدخل الملایکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ)