انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** غیراہل فن نیک لوگوں کی روایات کہیں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جوگو اپنے حلقہ میں نیک اور بزرگ سمجھے جاتے ہوں؛ مگرعلم وفن سے ناآشنا ہوں، جاہل صوفی آپ کواکثر دینی حلقوں میں ملیں گے، یہ لوگ اپنی جگہ کتنے ہی نیک اور کتنے ہی بزرگ کیوں نہ ہوں ان پرروایت کا مدار نہیں ہوسکتا، یہ لوگ حدیث میں ہرگز سند اور حجت نہیں ہوسکتے نہ ان لوگوں کی روایت قابلِ قبول شمار ہوگی، علم کا حق اہلِ علم ہی ادا کرسکتے ہیں، امام وکیع (۱۹۷ھ) سے ایک روایت کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے دریافت کیا "من یرویہ" (اسے کون روایت کرتا ہے؟) عرض کیا گیا "وھب بن اسماعیل" اس پر آپ نے فرمایا: "ذٰلک الرجل صالح وللحدیث رجال" یہ شخص نیک ہے اور حدیث کے اہل اور لوگ ہوتے ہیں، امام مالکؒ نے ان لوگوں کی فہرست میں جن سے علم نہ لیا جائے یہ بھی لکھا ہے: "وَرَجُلٌ لَهُ فَضْلٌ وَصَلَاحٌ لَايَعْرِفُ مَايُحَدِّثُ"۔ (جامع البیان العلم:۲/۶۰) اور ایسا شخص جو صاحب فضیلت اور نیک ہو لیکن وہ جس حدیث کو بیان کررہاہے اس کو(روایتاً) جانتا نہیں۔ روایت کے علاوہ فتوے میں بھی اہلِ کشف کی بات نہ مانی جائے گی۔ یہاں فقہاء کا اعتبار ہوگا، صوفی قسم کے لوگ بعض اوقات کشف سے کوئی بات کہہ دیتے ہیں اور اس کی بات صحابہؓ تک نہیں پہنچی ہوتی، علماء کے نزدیک دین وہی ہے جوصحابہؓ سے ملے، علماء حقیقت میں صحابہ ہی ہیں اور باقی سب ان سے خوشہ چین ہیں۔ مجاہدؒ (۱۰۰ھ) کہتے ہیں: "اَلْعُلَمَاءُ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔ (جامع بیان العلم:۳۵) حضرت حذیفہ بن الیمان (۳۶ھ) فرماتے ہیں: "کل عبادۃ لم یتعبدھا اصحاب رسول اللہﷺ فلا تعبدوھا"۔ ترجمہ:ہروہ عمل جسے صحابہؓ نے دین نہ سمجھا ہو تم اس راہ سے خدا کے آگے نہ جھکنا اسے دین نہ سمجھنا۔ حضرت امام ربانی شیخ مجدد الف ثانیؒ بھی فرماتے ہیں: "عمل صوفیہ درحل وحرمت سند نیست ہمیں بس است کہ ماایشاں رامعذور داریم وملامت نہ کنیم ومرایشاں رابحق سبحانہٗ وتعالی مفوض داریم اینجا قول امام ابی حنیفہ وامام ابی یوسف وامام محمدمعتبر است نہ عمل ابوبکر شبلی وابی حسن نوری"۔ (مکتوبات امام ربانی فارسی، مکتوب نمبر:۲۶۶، صفحہ نمبر:۳۳۵، لکھنؤ) ترجمہ: صوفی قسم کے لوگوں کا عمل حلال وحرام کے امتیاز میں سند نہیں ہے؛ یہی کافی ہے کہ ہم انہیں معذور سمجھیں اور ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد کریں؛ یہاں توامام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کا قول معتبر ہوگا، ابوبکر شبلیؒ اور ابوحسن نوریؒ (جوگروہِ صوفیاء میں ہیں ان) کا قول معتبر نہ ہوگا۔ سوعلم وہی ہے جوانبیاء علیہم السلام اور ان کے وارثین سے تعلیم وتعلم کے ذریعے جاری ہوا، اس کے سوا بات جس راہ سے بھی آئے اس کا نام علم نہیں ہوسکتا: "لیس العلم المعتبر الاالماخوذ من الانبیاء وورثتھم علی سبیل التعلم"۔ (فتح الباری:۱/۱۶۱) ترجمہ:علم معتبر وہی ہے جوانبیاء علیہم السلام اور ان کے وارثوں سے تعلیم کے طور پر ملے۔ سوکشف وغیرہ سے حاصل شدہ معلومات کا نام علم نہیں اور نہ وہ حجت ہے۔