انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت علیؓ سعادت وشرافت کے منبع،فصاحت وبلاغت کے چشمہ،السابقون الاولون میں سر فہرست ،تاجدارِ مدینہا کے اماد محترم ،فاتح خیبر،خلیفہ چہارم حضرت علی مرتضی صکی ذات گرامی عظیم الشان اور اولوالعزم فقہاء صحابہث کے صفِ اول سے تعلق رکھتی ہے، جن کی فقاہت و بصیرت اورمعاملہ فہمی کی خود خاتم النبین انے داد دی،پوری امت نے ان کے سامنے سر تسلیم خم کیا،حتی کہ حضرت فاروق اعظمؓ نے ان عظیم الفاظ میں آپؓ کے خداداد تفقہ و اجتہادخراج تحسین پیش کیا "لولا علی لھلک عمر، اگر علی ؓ نہ ہوتے تو عمرؓ کاانجام براہوجاتا" حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ جیسے فقیہ الامت آپ صکی سلامتیٔ عقل، بلندیٔ فکر اور علوم کے فیضان کو دیکھ کرکہہ اٹھے" علیؓ سا رے صحابہث کے علوم کے سنگم ہیں "حق تعالیٰ شانہ نے اپنے آخری نبی ا کے آخری داماد کو پوری سخاوت کے ساتھ فقہ و سمجھ، عقل وفہم،تفقہ و اجتہاد کی عظیم دولت سے نوازا تھا،آپ صکی سمجھداری ،معاملہ فہمی،ژرف نگاہی ، حقیقت بینی،نظروفکر کی گہرائی و گیرائی بڑے بڑے ہوشیاروں سے اپنا لوہا منوالیتی تھی،آپؓ کے عدالتی فیصلے، ناصحانہ مشورے، حکمت بھرے جملہ،دوراندیشی سے بھرپور کلمے آج بھی عالم انسانیت کے لئے مشعلِ راہ اور فقاہت و بصیرت کی دنیا کے گوہر نایاب ہیں۔ رسول اللہ انے اپنی مبارک حیات میں آپؓ کو ایک علاقہ کا گورنر بناکر بھیجا تھا، آپؓنے وہاں اپنی صوابدیدسے ایسے فیصلے فرمائے جسے رسول اللہؐ نے بھی پسند فرمایا،حضور اکرم ا کی وفات حسرت آیات کے بعد آپ صپہلے کے تینوں خلفاء راشد ین ث کے ہرموقع پرمشیرخاص اور دست راست بن کررہے اور اپنے بہترین مشوروں سے ان حضرات خلفاء برحق کا بھرپور تعاون کرتے رہے،حضرت عثمان غنی صکی شہادت کے بعد جب حضرت علی ص خلیفہ بنے تو آپؓ کی فقاہت کے جوہر اور زیادہ کھل کر سامنے آئے اور آپ ؓ کی بصیرت ودوراندیشی نے عالم کو حیران کردیا،حضرت علیؓ کی سیرت مبارکہ اور آپ کے اقوال حکیمانہ کوپڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کتاب وسنت کے علوم اور قرآن و حدیث کے الفاظ میں غوطہ لگاکر ایسے موتی چن کر لاتے جن سے عقلیں دنگ رہ جاتیں،بڑے بڑے عقلمند انگشت بدنداںروہ جاتے،ایسا محسوس ہوتا کہ آپ کے قلب اطہر میں علم و حکمت کا ایک سمندر ہے جس کی موجیں اٹھ اٹھ کر ساحلِ زباں سے ٹکراتیں اور عقلاء و حکماء کو فیضیاب اور فقہاء اسلام کو سیراب کرتی رہتی ہیں،ذیل میں آپ صکے دریائے فقہ واجتہادکے چندشہ پارے نقل کئے جارہے ہیںجن سے فقہ وفتاوٰی میںآپص کی عظمت و قدرت کا بخوبی ا ندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ قرآن وحدیث میں غور وفکر کرکے ان سے مسائل نکالنا اور عوام کی رہبری کرنا کوئی بدعت نہیں بلکہ عبادت ہے اور فقہ اسلامی کا موجودہ سرمایہ دوسری ،تیسری صدی کے فقہاء کرام کی ایجاد کردہ قرآن و حدیث کے خلاف کوئی نئی شریعت کامجموعہ نہیں بلکہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار کردہ وہ منقولی و معقولی راستہ ہے جس سے اسلام کی عالمگیریت کا حقیقی مفہوم سامنے آ تاہے۔ (۱)حضرت علیؓ سے پوچھا گیاکہ ایک بچے نے کنویں میں پیشاب کردیا ہے اب اس کا کیا کیا جائے؟آپؓ نے فرمایا:کنویں سے پانی نکالا جائے یہاں تک کہ اس کا پانی نکالنے والوں پر غالب آجائے،یعنی سارا پانی نکل نہ سکے توپھر باقی پانی کو نظرانداز کرد یاجائے۔ (مصنف عبدالرزاق: ۸/۱۸۲،مسند زید:۴/۲۰،بحوالہ ،فقہ علیؓ:۶۸۹) شاید آپؓ نے اس موقع پر ارشاد خداوندی "لاَيُكَلّفُ الله نَفْسًا إِلاَّوُسْعَهَا"(البقرۃ:۲۸۶)اللہ تعالے ہر نفس کواس کی طاقت کے بقدرہی احکام کاپابندبناتے ہیں"اور "فَاتَّقُوا اللَّهَ مَااسْتَطَعْتُمْ" (التغابن:۱۶)اللہ سے ڈروجتنی تم کوطاقت ہے ، جیسی نصوص سے استدلال فرمایاہوگا۔ (۲)اگر کنویں میں کوئی جانور چوہا وغیرہ گرکر مرجائے اور پھٹ جائے تو حضرت علیؓ کے نزدیک سات ڈول پانی نکالا جائے گا اور اگر وہ جانور سڑگیا ہوتو اس قدر پانی نکالا جائے گا جس سے بدبو دور ہوجائے(عبدالرزاق:۱/۸۲۔بیہقی:۱/۲۶۸۔ کنزالاعمال،حدیث نمبر:۲۷۵۰۰)ممکن ہے کہ آپؓ کے پیش نظر یہ حدیث رسول ؐ تھی " خلق الماء طھوراً لاینجسہ شئی الاما غیر طعمہ أوریحہ"۔ (مصابیح السنۃ:۱/۲۲۵، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح مع مرقاۃ المفا تیح:۲/۱۶۶) (۳)حضرت علیؓ اس بات کے قائل تھے کہ وضو کے صحیح ہونے کیلئے نیت شرط ہے؛لہٰذا بغیر نیت کے وضو درست نہیں ہوگا ہو سکتا ہے کہ آپؓ نے "انما الأعمال بالنیات" (صحیح بخاری:۱/۱)کے عموم سے استدلال کیا ہو۔ (۴)حضرت علیؓ کے نزدیک امامت کیلئے یہ ضروری تھا کہ امام کی حالت مقتدیوں کی حالت سے کم تر نہ ہو،اسی لئے آپؓ نے تیمم کرنے والے کے پیچھے وضو کرنے والے کی نماز کو جائز قرار نہیں دیا. (مصنف عبدالرزاق:۲/۳۵۲۔کنزالاعمال ، حدیث نمبر:۲۲۹۱۴) آپ ؓ نے رحمت دوعالم ا کی اس حدیث سے استدلال فرمایا ہوگا: انما جعل الامام لیو تم بہ،فلا تختلفو اعلیہ۔ (صحیح مسلم:۱/،الامام ضامن۔ابودائود ،حدیث نمبر:۵۱۷۔ترمذی،حدیث نمبر:۲۰۷۔مسنداحمد،حدیث نمبر:۲/۴۶۱) (۵)حضرت علی صجب سجدہ میں جاتے توپہلے اپنی پگڑی کو پیچھے ہٹادیتے پھر سجدہ فرماتے (المجموع:۳/۴۲۶) آپؓ کا یہ عمل اس حدیثِ رسول سے مستنبط معلوم ہوتا ہے "امرت أن اسجد علی سبعۃ اعظم،علی الجبھۃ ، والیدین، والرکبتین، وأطراف القدمین" ترجمہ:امام الانبیاء ا کا ارشاد گرامی ہے :مجھے یہ حکم دیاگیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں (۱)پیشانی پر(۲/۳)دونوں ہاتھوں پر(۴/۵)دونوں گھٹنوںپر(۶/۷)دونوں قدموں کی انگلیوںپر۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر:۸۱۲۔مسلم شریف،حدیث نمبر:۲۳۰،۴۹۰) (۶)حلال جانوروں مثلاً:بھیڑبکری اور اونٹ وغیرہ کے پیشاب کے متعلق حضرت علیؓ زیادہ تشدد نہیں فرماتے اور لوگوں کوگنجائش دیتے تھے۔ (الروض النضیر:۱/۲۹۲) (۷)اسی طرح بلی کے جھوٹے پانی کو پینے اور اس سے وضو کرنے میں بھی آپؓ کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (الاستذکار:۱/۲۰۸ ۔ کنزا لعما ل :حدیث نمبر ۲۷۵۲۷۔الروض النضیر:۱/۲۵۳) ان دونوں مسئلوں میں آپؓ کی نظر ان نصوص نبویہ پر معلوم ہوتی ہے،اشربوابوالھاوالبانھا(ترجمہ)اونٹوں کادودھ نوش کرو اور ان کا پیشاب استعمال کرو(ترمذی:۱/)انما ھی من الطوافین علیکم اوالطوافات(ترجمہ)بیشک وہ (بلی)تمہارے اردگرد چکر لگانے والے جانوروں میں سے ہے۔ (ابوداؤد:۱/۱۰۔نسائی:۱/۶۳۔ابن ماجہ:۳۱) (۷)حضرت علیؓ سوئے ہوئے آدمی کے تصرفات قولی کا کوئی اعتبار نہیں فرماتے تھے،اس حالت میں دی ہوئی طلاق،ارتداد اور کئے ہوئے معاملات کو درست نہیں مانتے تھے،آپؓ کا ارشاد ہے کہ نیند میں مدہوش انسان مرفوع القلم ہوتا ہے جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۲۵۸) اس مسئلہ کی بنیاد یہ حدیث معلوم ہوتی ہے :آپؐ کا ارشاد مبارک ہے " انہ لا تفریط فی النوم ،انما التفریط فی البقطۃ"۔ (ابوداؤد:۶۳) (۸)حضرت علیؓ نابالغ لڑکے کیلئے بالغوں کی امامت کو درست نہیں سمجھتے تھے،حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں امیر المؤمنین حضرت علیؓ نے منع فرمایا تھا کہ ہماری امامت سوائے بالغ کے اور کوئی کرے۔ (المغنی:۱/۵۷۵) اس مسئلہ میں آپؓ کا حکم اس حدیث سے مستنبط معلوم ہوتا ہے۔ (۹)اگر چلتی کشتی میں دورا نِ سر کا خوف ہوتو آپؓ کے نزدیک بیٹھ کر نماز ادا کرنا درست ہے،آپؓ کا ارشاد ہے:"اگر تم کشتی میںہو اور کشتی چل رہی ہوتو بیٹھ کر نماز ادا کرلو،اگر کشتی کھڑی ہوتو کھڑے ہوکرنماز پڑھو"۔ (الروض النضیر:۲/۳۷۳) حضرت علیؓ کا یہ استنباط حضور اکرمؐ کے درج ذیل ارشاد گرامی سے ہوسکتا ہے: "صل قائماً فان لم تستطع فقاعدًا فان لم تستطع فعلی جنب فان لم تستطیع فمستلقیاًلا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا" (ترجمہ)آپؐ نے ایک صحابی ؓ سے فرمایا:کھڑے ہوکر نماز پڑھو اگر اس کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کرپڑھو اگر اس کی بھی قوت نہ ہوتو پہلو پر پڑھو اگر اس کی بھی ہمت نہ ہوتو چت لیٹ کر پڑھو،اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کی طاقت کے بقدر ہی تکلیف دیتے ہیں۔ (بخاری:۱/۸۳،باب اذالم یطق قاعداً) (۱۰)اگر رمضان یا عید کا چاند دن کی ابتداء میں نظر آئے تو اس کی وجہ سے روزہ رکھنا یا افطار کرنا درست ہوگا اور اگر دن کے آخر میں نظر آئے تو روزہ رکھنا یا افطار کرنا درست نہ ہوگا اور اس چاند کا اعتبار نہ کیا جائیگا،حضرت علیؓ کا یہی مسلک ہے ، چنانچہ آپ ؓ کا قول ہے کہ جب تم ابتدائے نہار(دن)میں چاند دیکھو تو روزہ چھوڑدو،لیکن اگر انتہائے نہار میں چاند نظر آئے تو روزہ نہ چھوڑو،اس لئے کہ سورج اس سے ہٹ جا تا ہے (مصنف عبدالرزاق:۴/۱۶۳۔مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۱۲۷۔کنزالاعمال ۲۴۳۰۴۔مسند زید:۳/۸۵)حضور اکرمؐ کی یہ حدیث حضرت علیؓ کی دلیل ہوسکتی ہے: " صومو الرئویتہ وأفطروالرئویتہٖ" (ترجمہ)چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ (۱۱)اگر کوئی مسلمان مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے تو حضرت علیؓ کے نزدیک اس مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی جائیگی؛ اسی طرح اگر کوئی شخص بھیڑبھاڑ میں دب کر مرجائے تو بھی آپؓ یہی فیصلہ فرما تے تھے؛چنانچہ ایک شخص میدان عرفات کی بھیڑ بھاڑ میں ہلاک ہوگیا اس کے خاندان والے حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے،حضرت عمر ص نے ان سے پوچھا:تمہارے پاس اس کا ثبوت ہے کہ اسے کس نے ہلاک کیا ہے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرما یا : امیرالمؤمنین ایک مسلمان کاخون اس طرح رائیگاں نہیں جانا چاہیے،اگر آپ کو اس کا قاتل معلوم ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کیجئے (المغنی:۸/۶۹)حضرت علیؓ کے دورِخلافت میں بھی ا یک مرتبہ کوفہ کی جامع مسجد میں لوگوں کا ازدحام ہوگیا جب بھیڑ ذار چھٹ گئی تو پتہ چلا کہ ایک آدمی ہلاک ہوگیا ہے،حضرت علی ؓ نے اس کی دیت مسلمانو ں کے بیت المال سے ادا کردی۔ (مصنف عبدالرزاق:۱۰/۵۱۔المحلٰی:۱۰/۴۶۸) حضرت علیؓ کے ان فیصلوں کا دارومدار خا تم الانبیاء تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اس حدیث شریف پر معلوم ہوتا ہے "لا ضرر ولا ضرار،من ضارّ ضارّہ اللہ" (ترجمہ)نہ ابتداء نقصان پہنچائو نہ بدلہ میں، جو کسی دوسرے کو نقصان پہنچائیگا اللہ اس کا نقصان کریں گے۔ (مستدرک حاکم:۲/۵۷،عن ابی سعید الخدری) حضرت علی ص کی دریائے فقہ و اجتھاد کے یہ چند قطرے ہیں جو اوپر بطورِ نمونہ پیش کئے گئے جن کو دیکھنے والا آسانی سے یہ اندازہ لگاسکتا ہے کہ قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے اصول و جزئیات اور دقائق و نکات کی روشنی میں نئے پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنا شریعت میں دخل اندازی والا جرم نہیں جیسا کہ فقہ کی حقیقت سے ناواقف لو گ خیال کررہے ہیں بلکہ صحابہ کرام ث کی سنت ہے اور جدید مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔