انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت علقمہ بن قیس ؒ آپ کا پورا نام علقمہ بن قیس بن عبداللہ بن مالک النخعی الکوفی ہے آپ کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہی میں ہوچکی تھی آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اورمتعدد صحابہ کرام سے روایات نقل کی ہیں، علقمہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے راویوں میں سب سے زیادہ مشہور ان میں سب سے زیادہ آپ کو جاننے والے اورآپ کے علم وفضل کے سب سے زیادہ باخبر اورآشنا تھے،عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں،عبداللہ بن مسعود کہتے تھے میں جو کچھ پڑھتا اورجانتا ہوں علقمہ بھی اسے پڑھتے اورجانتے ہیں، اصحاب صحاحِ ستہ آپ سے روایت کرنے میں متفق ہیں۔ (التفسیر ولمفسرون:۹۳) آپ تفسیر کی بنسبت علم فقہ میں زیادہ شہرت رکھتے تھے اور اس علم میں آپ کو خوب مہارت حاصل تھی ؛حتی کہ بعض صحابہ بھی آپ سے مسئلہ پوچھتے تھے،قابوس بن ابی ظبیان فرماتے ہیں: میں نےاپنے والد سے دریافت کیا کہ آپ صحابہ کو چھوڑ کر علقمہ کے پاس جاتے ہیں؛ انہوں نے جواب دیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ صحابہ کا زمانہ پایا ہے اور وہ علقمہ سے مسئلہ پوچھتے تھے اور ان سے فتوی طلب کرتے تھے،آپ کی وفات ۶۲ھ میں ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ ۳۰۱) تفسیری اقوال (۱)علقمہؒ اس آیت "فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ" (الشعراء:۱۸۹) (انکو سائبان کے واقعہ نے آپکڑا )کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں قوم شعیب کو سخت گرمی لگی حتی کہ اس گرمی نے ان کو ان کے گھروں میں بے چین کردیا وہ اپنے گھروں سے نکل پڑے ان کے لیے ایک بادل اٹھادیا گیا وہ اس بادل کی طرف چل پڑے (تاکہ اس سے سایہ حاصل کریں) جیسے ہی ان لوگوں نے اسکا سایہ حاصل کیا ان پر (آگ) برس پڑی جس نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا۔ (الدرالمنثور:۱۸۲۵) (۲)اللہ تعالی کے اس ارشاد "مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَه" (التغابن:۱۱) (کوئی مصیبت بغیر حکم خدا کے نہیں پہونچتی اورجو شخص اللہ پر (پورا) ایمان رکھتا ہے اللہ تعالی اس کے قلب کو(صبرورضاء) کی راہ دکھادیتا ہے)کی تفسیر کرتے ہوئے علقمہؒ فرماتے ہیں یہ وہ شخص ہے جس کوکوئی مصیبت پہونچے اوروہ یقینی طورسے یہ بات جانتا ہو کہ یہ مصیبت اللہ کی جانب سے آتی ہے، پھر وہ اللہ کے حوالہ ہوجائے اوراللہ کے فیصلہ پر راضی ہوجائے۔ آپ تفسیر کی بنسبت علم فقہ میں زیادہ شہرت رکھتے تھے اور اس علم میں آپ کو خوب مہارت حاصل تھی ؛حتی کہ بعض صحابہ بھی آپ سے مسئلہ پوچھتے تھے،قابوس بن ابی ظبیان فرماتے ہیں: میں نےاپنے والد سے دریافت کیا کہ آپ صحابہ کو چھوڑ کر علقمہ کے پاس جاتے ہیں؛ انہوں نے جواب دیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ صحابہ کا زمانہ پایا ہے اور وہ علقمہ سے مسئلہ پوچھتے تھے اور ان سے فتوی طلب کرتے تھے،آپ کی وفات ۶۲ھ میں ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ ۳۰۱)