انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ثابتؓ بن قیس نام ونسب ثابت نام،ابو محمد کنیت، خطیب رسول اللہ لقب، قبیلۂ خزرج سے ہیں ،سلسلۂ نسب یہ ہے، ثابت بن قیس بن شماس بن زہیر بن مالک بن امرء القیسؓ بن مالک اغر بن نعلبہ بن کعب بن خزرج ،والدہ کا نام معلوم نہیں ،اتنا معلوم ہے کہ خاندان طے سےتھیں۔ (اسد الغابہ:۸/۲۲۹) اسلام ہجرت سے قبل مسلمان ہوئے۔ غزوات اوردیگر حالات آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے تو خیر مقدم کے لئے تمام شہر امنڈ آیا تھا، اس موقع پر حضرت ثابت نے جو خطبہ دیا اس کا ایک فقرہ یہ تھا: نمنعك مما نمنع منه أنفسنا وأولادنا فما لنا قال الجنة قالوا: رضينا (الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،باب الثاء بعدھا الألف:۱/۱۳۱) یعنی ہم آپ کی ہر اس چیز کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں،لیکن ہم کو اس کا معاوضہ کیا ملے گا، آنحضرتﷺ نے فرمایا "جنت" تو تمام مجمع پکار اٹھا کہ "ہم سب راضی ہیں" غزوۂ بدر میں شریک تھے،اصحاب ِمغازی نے اگرچہ ان کو اصحاب بدر کے زمرہ میں شامل نہیں کیا ہے،لیکن علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں یہی رائے ظاہر کی ہے ،(اصابہ:۱/۲۰۳) باقی غزوات کی شرکت پر تمام ائمہ فن کا اتفاق ہے۔ غزوہ مریسیع ۵ھ میں حضرت جویریہ ؓ ام المومنین اسیر ہوکر حضرت ثابتؓ اوران کے ابن عم کے حصہ میں آئی تھیں، انہوں نے ۱۹ وقیہ سونے پر مکاتب بنایا، حضرت جویریہؓ نے آنحضرتﷺ سے مدد طلب کی، آپﷺ نے رقم مذکور ادا کرکے ان کو ہمیشہ کے لئے غلامی سے نجات دی اوراپنے عقد میں لے لیا۔ ۹ھ میں بنو تمیم کا وفد آیا اور بدویانہ طریقہ پر آنحضرتﷺ کے دروازے پر آکر آواز دی کہ باہر نکلو، آپﷺ باہر تشریف لائے تو بات چیت کے بعد عطار بن حاجب کو کھڑا کیا کہ تمیم کے رتبہ سے آنحضرتﷺ کو آگاہ کرے ،عطار اس قبیلہ کا مشہور خطیب تھا، اس کی تقریر ختم ہوئی تو آنحضرتﷺ نے حضرت ثابت کو حکم دیا کہ تم اس کا جواب دو، حضرت ثابتؓ نے اس فصاحت و بلاغت سے جواب دیا کہ اقرع بن حابس بول اٹھا کہ اپنے باپ کی قسم ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بہتر ہے۔ اسی سال مسیلمہ کذاب، بنو حنیفہ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مدینہ آیا ،آنحضرتﷺ ثابت بن قیسؓ کو لے کر اس کے پاس گئے،ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، مسیلمہ نے کہا کہ اگر اپنے بعد مجھ کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کرو تو ابھی تمہاری اتباع کرتا ہوں، آنحضرتﷺ نے فرمایا: خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھ کو یہ چھڑی دینا بھی گوارا نہیں کرسکتا ،خدانے تیری نسبت جو فیصلہ کیا ہے وہ ہوکر رہیگا میں تیرے انجام کو خواب میں دیکھ چکا ہوں اور زیادہ گفتگو کی ضرورت ہو تو ثابت موجود ہیں ان سے پوچھ اب میں جاتا ہوں۔ ۱۱ھ میں آنحضرتﷺ نے وصال فرمایا تو انصار سعد بنؓ عبادہ کو خلیفہ بنانے کے لئے سقیفہ بنی سعدہ میں جمع ہوئے ،حضرت ابوبکرؓ کو خبر ہوئی تو حضرت عمرؓ وغیرہ کو لے کر پہنچے، اس موقع پر حضرت ثابت ؓ نے جو خطبہ دیا وہ حسب ذیل تھا۔ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ (بخاری،بَاب رَجْمِ الْحُبْلَى مِنْ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ،حدیث نمبر:۶۳۲۸) یعنی ہم خدا کے مدد گار اوراسلام کی فوج ہیں اور مہاجرین معدددے چند ہیں، تعجب ہے کہ اس پر بھی کچھ لوگ ہم کو خلافت سے محروم کرناچاہتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تم نے جو کچھ کہا بالکل صحیح ہے، لیکن قریش کے سوا دوسرا خلیفہ نہیں ہوسکتا۔ اسی سنہ میں طلیحہ پر فوج کشی ہوئی، حضرت خالدؓ اس مہم کے افسر تھے،انصار حضرت ثابؓت کی ماتحتی میں تھے۔ (طبری:۴/۱۸۸۶) وفات ۱۲ھ میں مسیلمہ کذاب سے مقابلہ ہوا، حضرت ثابتؓ اس میں شریک تھے مسلمانوں کو شکست ہوئی، تو حضرت انسؓ نے آکر کہا چچا! آپ نے دیکھا وہ خوشبو مل رہے تھے،بولے کہ یہ لڑنے کا طریقہ نہیں ہے، لوگ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اس طرح نہیں لڑتے تھے اس کے بعد اٹھے اور خندق کھود کر نہایت پامردی سے لڑے اور آخر شہادت حاصل کی۔ بدن پر زرہ نہایت عمدہ تھی ایک مسلمان نے اتارلی، ایک دوسرے مسلمان نے خواب میں دیکھا کہ حضرت ثابتؓ ان سے کہہ رہے ہیں، فلاں مسلمان میری زرہ اتارلی ہے تم خالد سے کہو کہ اس سے وصول کرلیں اور مدینہ پہونچ کر حضرت ابوبکرؓ سے کہنا کہ ثابت پر اتنا قرض تھا وہ اس زرہ سے ادا کریں، اورمیرا فلاں غلام آزاد کردیں، حضرت خالدؓ نے زرہ لے لی اور حضرت ابوبکرؓ نے اس وصیت پر عمل کیا۔ یہ واقع صحیح بخاری میں بھی مذکور ہے،لیکن مختصر ہے،طبرانی نے نہایت تفصیل سے اس کو حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے۔ اہل وعیال عبداللہ ،اسمعیل،بیوی کا نام جمیلہ تھا جو عبداللہ بن ابی بن سلول سردار خزرج کی بیٹی تھیں۔ (طبقات :۵/۵۹) فضل وکمال بخاری میں ان سے ایک روایت منقول ہے اور بھی چند حدیثیں ہیں جن کو حضرت انسؓ بن مالک ، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ،محمد بن قیس نے روایت کیا ہے۔ حضرت ثابتؓ نہایت فصیح البیان اورزبان آور تھے، انصار نے اسی بنا پر ان کو اپنا خطیب بنایا تھا، آنحضرتﷺ نے بھی دربار نبوت کا ان ہی کو خطیب تجویز فرمایا۔ اخلاق احترام نبوت ان کی سیرت کا جلی عنوان ہے،ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان کو موجودنہ پاکر فرمایا، کوئی ثابت کی خبر لاتا ،ایک شخص نے کہا میں جاتا ہوں گھر میں جاکر دیکھا تو سرنیچے کئے بیٹھے تھے، پوچھا کیا ہے؟ کہا کیا بتاؤں بہت براحال ہے،میری آواز تیز ہے،آنحضرتﷺ کے سامنے چلا کر بولتا تھا،اب میرا سارا عمل باطل ہوگیا اورجہنمی ہوگیا ہوں (یہ اس آیت کی طرف اشارہ تھا جس میں آنحضرتﷺ کے روبرو آہستہ بولنے کی ہدایت نازل ہوئی تھی) اس شخص نے آنحضرتﷺ کو خبر کی،آپﷺ نے فرمایا ان سے جاکر کہو کہ تم جہنمی نہیں میں تم کو جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ (بخاری:۷۱۸) آنحضرتﷺ کو ان سے جو محبت اوراُنس تھا، اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک بار جب وہ بیمار پڑے تو آپ ﷺعیادت کو تشریف لے گئے اوران کی ان الفاظ میں دعا کی۔ اذهب الباس رب الناس عن ثابت بن قيس بن شماس (تہذیب التہذیب ،باب من اسمہ ثابت:۲/۱۱)