انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت محمد بن کعب القرظیؒ آپ کا پورا نام ابوحمزہ یا ابو عبداللہ محمد بن کعب بن سلیم القرظی المدنی ہے، امام بخاری تاریخ کبیر میں فرماتے ہیں ان کے باپ کعب قرظی غزوہ بنی قریظہ کے وقت نابالغ تھے، اس لیے ان کو چھوڑدیا گیا(تہذیب التھذیب:۳۷۴۹) آپ نے حضرت علی ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ اوردیگر صحابہ سے روایات نقل کی ہے اور ابی بن کعب سے بالواسطہ روایت کیا ہے،آپ اپنی ثقاہت،عدالت،ورع وتقوی،کثرت حدیث اورتفسیر قرآن میں شہرت رکھتے تھے ،عون بن عبداللہ کہتے ہیں:میں نے تفسیر قرآن میں قرظی سے بڑا عالم نہیں دیکھا (التفسیروالمفسرون۸۳) عجلی کہتے ہیں: آپ مدنی ہیں تابعی ، ثقہ، نیک آدمی اورقرآن کے عالم ہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث متعدد طرق سے منقول ہے آپ نے فرمایا: "یخرج من احد الکاھنین رجل یدرس القرآن دراسۃ لایدرسھا احد یکون بعدہ قال ربیعۃ فکنا نقول ھومحمد بن کعب والکاھنان قریظۃ والنضیر"۔ (تھذیب التھذیب :۳۷۴۹) دوکاھنوں (مذھبی پیشواؤں) میں سے ایک ایسا آدمی نکلے گا جو قرآن کو ایسی تحقیق اورغوروخوض کے ساتھ پڑھے گا کہ اس کے بعد کوئی اس تحقیق اورغور وخوض کے ساتھ نہیں پڑھ پائے گا۔ ربیعہ کہتے ہیں ہم کہتے تھے وہ آدمی محمد بن کعب ہے اوردوکاھنوں سے مراد قریظہ اورنضیرہے بنوقریظہ اوربنونضیر یہ مدینہ میں یہودیوں کے دو قبیلہ تھے جو پچھلی آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اسی نسبت سے حدیث میں انہیں کاھنان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا، جو مذہبی پیشوا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عبدالرحمن بن مرھب فرماتے ہیں،میں نے محمد بن کعب سے یہ کہتے ہوئے سنا میں رات میں(نماز میں) اذا زلزلت اورالقارعۃ پڑھوں اوراس کو صبح تک دھراتا رہوں اوراس میں غور وفکر اورتدبر کرتا رہوں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ بے سمجھے بوجھے قرآن پڑھوں۔ (تاریخ الاسلام للذھبی:۲۰۲۷) وفات: محمد بن فضیل فرماتے ہیں محمد بن کعب کے ہمنشین جو تفسیر کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے اوروہ سب آپ کی مسجد ربذۃ میں مجتمع تھے کہ اتنے میں ایک زلزلہ آیا جس سے مسجد کی چھت گری اوروہ سب اس کے نیچے دب کر شہید ہوگئے،آپ کا بھی اسی حادثہ میں انتقال ہوگیا،آپ کی سن وفات کے سلسلہ میں بالترتیب تین قول ہیں ۱۰۸ھ ، ۱۱۷ھ ، ۱۲۰ھ ۔ (تاریخ الاسلام للذھبی ۲۵۳۷) تفسیری اقوال (۱)"رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ"۔ (آل عمران:۱۹۳) اے ہمارے پروردگار ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا کہ وہ ایمان لانے کے واسطے اعلان کررہا ہے۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے محمد بن کعب قرظیؓ فرماتے ہیں؛ منادی سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے؛ کیونکہ سارے لوگوں نے نبی کریم ﷺ کی نداء اورآپ کی دعوت کو نہیں سنا؛ بلکہ اس آیت میں "منادی" سے مراد قرآن کریم ہے۔ (تفسیر طبری:۴۸۰۷) (۲)اس آیت: "إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْيُصَلَّبُوا أَوْتُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ"۔ (المائدۃ:۳۳) جو لوگ اللہ تعالی سے اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اورپاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں یا زمین پر سے نکال دیے جائیں۔ کی تفسیر میں کعب محمد بن کعب قرظیؒ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص مسلمانوں میں خوف و دھشت پیدا کرے اور ان کا مال چھین لے؛ لیکن خون نہ بہائے تو اس شخص کی سزا یہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور پیر مخالف سمت سے کاٹ دیے جائیں اور اگر مسلمانوں میں خوف و دھشت پیدا کرنے کے بعد ان کا خون بھی بہائے تو اس جرم میں اسے قتل کیا جائے گا اور تختہ دار پر چڑھا دیا جائے گا اوراگر وہ مسلمانوں کا مال بھی چھین لے اورانہیں قتل بھی کردے تو پہلے اس کے ہاتھ پیر مقابل سمت سے کاٹے جائیں گے؛ پھر اسے قتل کیا جائے گا اور پھر تختہ دار پر چڑھا دیا جائے گا تو گویا تختہ دار پر چڑھانا مثلہ کرنا ہے اور گویا کاٹنا اس آیت کی وجہ سے ہے : "وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا"۔ (المائدہ:۳۸) اورچوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت سودونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ اور گویا قتل کرنا اس ارشاد کی وجہ سے ہے۔"أَلنَّفْسُ بِالنَّفْسِ" (جان کے بدلہ جان لی جائے) اوراگر وہ صرف مسلمانوں میں خوف دہشت پیدا کرے ان کا مال نہ چھینے اور نہ ہی ان کا خون بہائے تب بھی خلیفہ وقت اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس کو تلاش کرے اوراسے پکڑے پھر اس پر کتاب اللہ کا حکم نافذ کرے کہ مسلمانوں کی سرزمین سے کفار کی سرزمین کی طرف جلا وطن کردے۔ (تفسیر طبری:۲۶۱۱۰) (۳)اللہ تعالی کے اس ارشاد: "لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ"۔ ( البقرۃ:۲۷۳) اصل حق ان حاجت مندوں کا ہے جو مقید ہوگئے ہوں اللہ کی راہ میں اور اسی وجہ سے وہ لوگ کہیں ملک میں چلنے پھرنے کا عادۃ امکان نہیں رکھتے ،نا واقف لوگ ان کو مالدار سمجھتے ہیں، ان کے سوال سے بچنے کے سبب ،کی تفسیر کرتے ہوئے محمد بن کعب قرظیؓ فرماتے ہیں کہ اس سے اصحاب صفہ مراد ہیں ان کے مدینہ میں گھر بار نہیں تھے اورنہ ہی خاندان اورقبیلہ کے لوگ تھے تو اللہ تعالی نے لوگوں کو ان پر صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔