انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیث پڑھنے کے لیے بڑے احترام سے بیٹھے آنحضرتﷺ اور صحابہؓ تعلیم کے وقت بیٹھ کر حلقے باندھتے، آپ انہیں بیٹھنے کے آداب بتلاتے اور احادیث بھی سناتے تھے، حضرت ابوواقد اللیثی حضورﷺ کے ایک حلقۂ درس کے بارے میں فرماتے ہیں: "ان رسول اللہﷺ بینناھوجالس فی المسجد والناس معہ اذاقبل ثلاثۃ نفر امااحدھما فرای فرجۃ فی الحلقۃ فجلس فیھا وامالآخر فجلس خلفہم واما الثالث فادبر"۔ (صحیح بخاری:۱/۲۶) ترجمہ: آنحضرتﷺ مسجد میں تشریف فرماتھے اور لوگ آپ کے پاس بیٹھے تھے کہ تین آدمی آئے، ایک نے حلقے میں ایک خالی جگہ دیکھی تووہاں بیٹھ گیا دوسرادائرے کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا واپس چلا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ حضورﷺ کے پاس بیٹھ کر حدیث کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے؛ اگرکسی کوبیٹھنے کی جگہ نہ ملے وہ واپس ہوجاتا؛ لیکن کھڑے کھڑے حدیث سننا اس کے نزدیک احترام حدیث کے خلاف تھا، حضرت ابنِ عباسؓ حدیث پڑھاتے توایک تخت پر بیٹھتے (بخاری:۱/۲۰) امام مالکؒ بھی ایک امتیازی شان سے بیٹھتے اور حدیث روایت کرتے (مدارج النبوۃ:۱/۵۴۲) کھڑے ہوکر حدیث سننا ان کے ہاں بہت ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا، ایک دفعہ آپ حضرت ابوحازم کی مجلس حدیث سے اس لیے واپس آگئے کہ وہاں بیٹھنے کی جگہ نہ تھی، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: حضرت مالک ایک روز ابوحازم کے پاس گئے اسوقت وہ حدیث بیان کررہے تھے حضرت امام مالکؒ ادھر سے گذرگئے اور فرمایا میں نے وہاں بیٹھنے کی جگہ نہ پائی اور میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں کہ کھڑے کھڑے حدیث رسولﷺ کوحاصل کروں؛ حالانکہ میں کھڑا ہوسکتا تھا (مدارج النبوۃ:۱/۵۴۱) حافظ بدرالدین العینی رقمطراز ہیں: "ان من حسن الادب ان یجلس المرء حیث انتھیٰ مجلسہ ولایقیم احداً، استحب ان یجلس حیث ینتھیٰ"۔ (عمدۃ القاری:۱/۳۲) ترجمہ: حسنِ ادب یہ ہے کہ انسان وہیں بیٹھ جائے جہاں تک کہ مجلس پہنچ چکی ہے اور کسی کونہ اُٹھائے.... یہ مستحب ہے۔ یہ حدیث کوقبول کرنے، پڑھنے پڑھانے اس کی طلب ودریافت اور طلبہ واساتذہ کے حقوق وآداب کا بیان ہے، فقط۔