انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تعمیر کعبہ ابن زبیرؓ اس پر آشوب زمانہ میں بھی مذہبی خدمات سے غافل نہ رہے اس سلسلہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر و تجدید ان کا بہت اہم کارنامہ ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے قبل حوادث زمانہ سے خانہ کعبہ کی امارت بہت بوسیدہ ہوگئی تھی اوراس کے گرجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا چنانچہ اسی زمانہ میں قریش نے چندہ کرکے اس کو از سر نو تعمیر کرادیا تھا، لیکن سرمایہ کی قلت کی وجہ سے اصل بنیاد ِ ابراہیمی کا تھوڑا حصہ جسے اب حطیم کہتے ہیں نا تمام چھوڑدیا گیا تھا۔ عہدِ رسالت میں آنحضرتﷺ کی دلی خواہش تھی کہ حطیم کا چھوٹا ہوا حصہ بھی کعبہ میں شامل کرکے اصل بنیاد ابراہیمی پر از سر نو اس کی عمارت بنائی جائے؛ لیکن عرب نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ،کعبہ کی عمارت گرانے سے ان کے بھڑک جانے کا خطرہ تھا اس لئے آپ ﷺ اس خیال شریعت کو عملی جامہ نہ پہنا سکے، بخاری میں ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے اس خیال کا اظہار فرمایا تھا کہ اگر تمہاری قوم جاہلیت سے قریب نہ ہوتی تو میں کعبہ کی عمارت کو گرا کر اس کا چھوٹا ہوا حصہ بھی اس میں شامل کرادیتا اوراس کا دروازہ زمین سے ملادیتا اورمشرقی ومغربی دروازے کھول دیتا۔ (بخاری کتاب المناسک باب فضل مکہ بینا نہا) اس کے بعد ابن زبیرؓ اوربنی امیہ کی معرکہ آرائی میں آتش زنی اورسنگباری کی وجہ سے اس عمارت کو اور زیادہ نقصان پہنچا اس لئے ابن زبیرؓ نے آنحضرتﷺ کے متخیلہ نقشہ کے مطابق از سر نو اس کی تعمیر کا ارادہ کیا اورحج کے موقع پر جبکہ تمام عالم اسلام کے مسلمان حج بیت اللہ کے لئے جمع ہوتے ہیں، انہوں نے ان کے سامنے اس کی تعمیر کا مسئلہ پیش کیا، ابن عباسؓ نے رائے دی کہ صرف کمزور حصہ کی مرمت کرانی چاہیے باقی حصہ کو بجنسہ اسی حالت پر رہنے دینا چاہئے جس حالت میں وہ عہد رسالت میں تھا اور جس حالت پر لوگوں نے اسلام قبول کیا ؛بلکہ ان پتھروں کو بھی ویسے ہی چھوڑد ینا چاہئے جیسے وہ ظہور اسلام کے وقت تھے۔ ابن زبیرؓ نے کہا اگر تم میں سے کسی کا گھر گرجاتا تو اس کو بنوائے ہوئے بغیر نہ رہتا میں خدا سے تین مرتبہ استخارہ کے بعد اس کی تعمیر شروع کردوں؛چنانچہ تین دن تک انہوں نے اس مئلہ پر غور کیا اور غور کرنے کے بعد مکمل تعمیر کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن دیواروں کے گرانے کا مسئلہ بہت اہم تھا، کیونکہ عوام ان کو کھودنے سے ڈرتے تھے کہ اس کی پاداش میں کوئی بلائے آسمانی نازل نہ ہوجائے، ابھی یہ تذبذب جاری تھا کہ ایک شخص ہمت کرکے دیوار پر چڑھ گیا،(بعض روایتوں میں ہے کہ خود عبداللہ نے پہلا پتھر کھودا تھا) اورایک پتھر اکھاڑ کے گرادیا، اس کو دیکھ کر لوگوں کا خوف جاتا رہا اوران کی ہمت بندھ گئی؛چنانچہ دیواروں کی کھدائی شروع ہوگئی، جب دیواریں زمین کے برابر ہوگئیں، تو ابن زبیرؓ نے اس کے چاروں طرف قناتیں گھیردیں کہ جمال حقیقت کی جلوہ گاہ عام نظروں کا ،تماشہ گاہ نہ بننے پائے اور خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر شروع کرادی، جب بنیادیں بھر چکیں تو ایک مرتبہ پھر لوگوں کے سامنے آنحضرتﷺ کا خیال پیش کرکے کہا کہ میرے پاس روپیہ کی کمی نہیں ہے اور کوئی مزاحمت کرنے والا بھی نہیں ہے اس لئے میں آنحضرتﷺ کے متخیلہ نقشہ کے مطابق بنواؤں گا،یعنی حطیم کا حصہ بھی خانہ کعبہ کی تعمیر میں شامل کردیا جائے گا؛چنانچہ اسی نقشہ کے مطابق انہوں نے تعمیر کرایا۔ قریش نے اپنی تعمیر کے زمانہ میں خانہ کعبہ کا طول اٹھارہ گز اوراندر جانے کے لئے صرف ایک دروازہ رکھا تھا، وہ بھی بلندی پر تھا ،تاکہ ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی شخص اندر داخل نہ ہوسکے، ابن زبیرؓ نے اس میں چھوٹے ہوئے حصہ حطیم کو بھی شامل کرکے پانچ گز اور بڑھایا اورجب یہ بھی ناکافی معلوم ہوا تو پانچ کے بجائے دس ہاتھ کردیا، آنحضرتﷺ کے نقشہ کے مطابق دو دروازے شرقی اورغربی زمین سے ملاکر بنائے تاکہ آنے جانے والوں کو زحمت نہ ہو۔ (مسلم کتاب الحج نقض الکعبہ وبینیانہا) یہ مشہو مقولہ ہے کہ تاریخ اپنے واقعات دہراتی ہے ممکن ہے عام طورپر یہ کلیہ صحیح نہ ہو، لیکن کم از کم خانہ کعبہ کی اس تعمیر کے سلسلہ میں جس طرح تاریخ نے یہ واقعہ دہرایا ہے وہ اپنے اندر بہت بڑا درس عبرت رکھتا ہے، ناظرین میں بہتوں کو معلوم ہوگا کہ آنحضرتﷺ کی ولادت سے پیشتر ابرہہ اشرم شاہ حبش نے اس مقصد سے یمن میں ایک کنیسہ تعمیر کرایا تھا کہ عرب کعبہ کو چھوڑ کر اس کا حج کیا کریں، یہ وہی کنیسہ ہے جس کو ایک کنانی نے جوش غضب میں گندگی سے آلودہ کردیا تھااور ابرہہ جوش غضب میں ہاتھیوں کا غول لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لئے چڑھ آیا تھا، لیکن خدا نے اپنے گھر کو اس سے بچالیا ،سورہ فیل میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ خدا کی قدرت اورزمانہ کی نیرنگی دیکھو کہ کم وبیش ڈیڑھ صدی بعد اسی کنیسہ کو جو کعبہ کے مقابلہ میں بنایا گیا تھا، ابن زبیرؓ نے کھدواکر اس کے ملبہ سے کعبہ کی عمارت تعمیر کرائی، ابرہہ نے یہ کنیسہ بڑے سازو سامان سے بنوایا تھا، سنگ رخام کے ستون تھے، رنگ برنگ کے نقشی پتھر اور خوشرنگ بچہ کاری سنہری پالش اس کی آب و تاب دوبالا کرہی تھی، ابن زبیرؓ نے یہ تمام بیش قیمت سامان کھود کر کعبہ کی عمارت میں لگایا۔