انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ صفین کا پہلا حصہ جب صلح کی کوشش ناکام رہی تو مجبوراً لڑائی شروع ہوئی مگر چونکہ دونوں طرف مسلمان اور ایک دوسرے کے عزیز دوست تھے،لہذا دونوں میں جدال وقتال کا ویسا جوش نہ تھا جیسا کفار کے مقابلہ میں ہوا کرتا تھا،عام طور پر لوگ یہی چاہتے تھے کہ یہ لڑائی ٹل جائے اورمصالحت ہوجائے،لڑائی کی صورت یہ تھی کہ ایک ایک آدمی طرفین سے میدان میں نکلتا اورایک دوسرے سے لڑتا، باقی لشکر دونوں طرف سے اس لڑائی کا تماشا دیکھتا،چند روز تک تو روزانہ اس جنگِ مبارزہ ہی کا سلسلہ جاری رہا ،پھر لڑائی نے کسی قدر ترقی اوراشتعال کی صورت اختیار کی تو صرف یہیں تک محدود رہی کہ طرفین سے ایک ایک سردار اپنی اپنی محدود جماعت لے کر نکلتا اوراس طرح ایک جماعت کی دوسری جماعت سے معرکہ آرائی ہوتی، باقی لشکر اپنی جگہ خاموش اورتماشائی رہتا،یہ سلسلہ ایک مہینہ تک جاری رہا، دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک دونوں لشکروں نے آئندہ بڑی خوں ریز جنگ کے لئے آپس میں جنگی مشق کو جاری رکھا،اس ایک مہینے کی معرکہ آرائیوں کو جنگِ صفین کا پہلا حصہ سمجھنا چاہئے،ماہ ذی الحجہ ختم ہوکر جب محرم کا مہینہ شروع ہوا تو یکم محرم ۳۷ ھ تک ایک مہینے کے لئے طرفین نے لڑائی کی بالکل تعطیل کردی، اس ایک مہینہ میں دونوں طرف کی فوجیں بالکل خاموش رہیں،مصالحت کی گفتگو اورسلسلہ جنبانی پھر جاری ہوگئی،اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ محرم کے اس ایک مہینے میں مسلمانوں کی دونوں فوجوں کا ایک دوسرے کے مقابل بلا زور خورد خیمہ زن ہونا ضروری یہ نتیجہ پیدا کردیتا اور یہ خیال خود بخود طاقت پیدا کرلیتا کہ جنگ سے صلح،بہرحال بہتر ہے اور مسلمانوں کو ہرگز آپس میں نہیں لڑنا چاہئے،جب تمام لشکری لوگوں میں یہ کرہ ہوائی پیدا ہوجاتا تو سردارانِ لشکر کو بھی مجبوراً صلح پر رضا مند ہونا پڑتا، لیکن اس سکون اورخاموشی کے ایام میں سبائی جماعت جو شریک تھی اورجس کا کوئی جداگانہ وجود نہ تھا بڑی سرگرمی سے مصروفِ کار رہی،اس نے اپنی انتہائی کوشش اس کام میں صرف کردی کہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت و رعایت مطلق پیدا نہ ہوسکے اورنفرت وعداوت ترقی کرے،سردارانِ لشکر کی حالت یہ تھی کہ حضرت علیؓ کسی طرح خلافت سے دستبردار نہیں ہوسکتےتھے، وہ قاتلینِ عثمانؓ اوربلوائی لوگوں کو بھی سزا نہ دے سکتے تھے کیونکہ مالک اُشتر جیسے زبردست سپہ سالار محمد بن ابی بکرؓ جیسے گور نر اورعمار بن یاسرؓ جیسے محترم صحابی کو سزادینا اورتمام کوفی ومصری لشکر کو باغی و دشمن بنالینا کوئی آسان کام نہ تھا نیز یہ کہ قاتلین اورسازشِ قتل کے شرکاء کا تعین شہادتوں کے ذریعہ امر مشتبہ کی حد سے آگے بڑھ کر یقین کے درجہ تک نہیں پہنچتا تھا، حضرت امیر معاویہؓ کے مقابلے میں وہ یقیناً ہر طرح مستحقِ خلافت تھے۔ اُدھر حضرت امیر معاویہؓ اپنے آپ کو مکہ کے رئیس اوراُحد واحزاب کی عظیم الشان فوجوں کے سپہ سالار اعظم ابو سفیان کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے امیر عرب سمجھتے تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کے بھائی اورکاتبِ وحی ہونے کا بھی شرف رکھتے تھے،حضرت عثمان غنیؓ کے ہم جد اور وارث ہونے کی حیثیت سے خونِ عثمانؓ کا قصاص طلب کرنے میں وہ اپنے آپ کو سراسر حق وراستی پر یقین کئے ہوئے تھے،اتنے بڑے قتل کو مشتبہ قرار دے کر ٹال دینا اور کسی کو بھی زیر قصاص نہ لانا اُن کے نزدیک جیتی مکھی نگلنا تھا اورحضرت علیؓ کی توجیہہ نہ اُن کی سمجھ میں آتی تھی اورنہ وہ سمجھنا چاہتے تھے،حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کے خروج اورمدینہ کے کئی اکابرصحابہ کی بیعتِ علیؓ سے پرہیز کرنے اور عمرو بن عاص وغیرہ حضرات کے تائید کرنے سے اُن کے ارادے اوریقین میں اور بھی زیادہ قوت پیدا ہوگئی تھی،طرفین اپنی اپنی باتوں اورارادوں پر صحیح نظر ڈالنے اوراپنی خواہشوں اوراُمیدوں کے فریب سے بکلی بچ جانے کے قابل ہوجاتے اگر ان کے ساتھی اورلشکری خود صحیح راستے کو اختیار کرکے انہیں مجبور کردیتے اوراس کے لئے یہ محرم یعنی تعطیل کا زمانہ بہترین موقع تھا،لیکن سبائی جماعت اپنی شرارت پاشی کے کام میں خوب مستعد تھی اوروہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئی کہ مسلمان مصالحت کی طرف نتیجہ خیز طور پر متوجہ نہ ہوسکے۔