انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دین پر استقامت ایمان لانے کے بعد بندے پر اللہ کی طرف سے جو خاص ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ بندہ پوری مضبوطی اورہمت کے ساتھ دین پر قائم رہےاورخواہ زمانہ اس کے لیے کیساہی ناموافق ہوجائے وہ کسی حال میں دین کا سراہاتھ سے چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو، اسی کانام "استقامت" ہے،قرآن شریف میں ایسے لوگوں کے لیے بڑے انعامات اور بڑے درجوں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: "اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیٰــؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَo نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ"۔ (فصلت:۳۰) جن لوگوں نے اقرار کرلیا(اوردل سے قبول کرلیا)کہ ہمارا رب بس اللہ ہے (اورہم اس کے مسلم بندے ہیں)پھر وہ اس پر ٹھیک ٹھیک قائم رہے،(یعنی اس اقرار کا حق ادا کرتے رہےاورکبھی اس سے نہ ہٹے)ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے یہ پیغام لے کر اتریں گے کہ کچھ اندیشہ نہ کرواورکسی بات کا رنج وغم نہ کرو، اور اس جنت کے ملنے سے خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہم تمہارے رفیق ہیں دنیوی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو تمہارے جی چاہے گا اور تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم مانگو گے یہ باعزت مہمانی ہوگی تمہارے رب غفورورحیم کی طرف سے۔ سبحان اللہ!دین پر مضبوطی سے قائم رہنے والوں اور بندگی کا حق اداکرنے والوں کے لیے اس آیت میں کتنی بڑی بشارت ہے سچ تو یہ ہے کہ اگر جان مال سب کچھ قربان کرکے بھی کسی کو یہ درجہ حاصل ہوجائے تو وہ بڑا خوش نصیب ہے، ایک حدیث میں ہے۔ "رسول اللہﷺ سے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے کوئی ایسی کافی وافی نصیحت فرمائیے کہ آپ کے بعد پھر کسی سے کچھ پوچھنے کی حاجت نہ ہو،آپ نے ارشاد فرمایا کہو بس اللہ میرا رب ہے اور پھر اس پر مضبوطی سے جمے رہو(اور اس کے مطابق بندگی کی زندگی گزارتے رہو)"۔ (مسلم، بَاب جَامِعِ أَوْصَافِ الْإِسْلَامِ،حدیث نمبر:۵۵، شاملہ، موقع الإسلام) قرآن شریف میں ہماری ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے اپنے کئی ایسے وفاداربندوں کے بڑے سبق آموز واقعات بیان فرمائے ہیں جو بڑے سخت ناموافق حالات میں بھی دین پر قائم رہے اور بڑے سے بڑا لالچ اورسخت سے سخت تکلیفوں کا ڈربھی ان کو دین سے نہیں ہٹا سکا، ان مین ایک واقعہ تو ان جادوگروں کا ہے جنہیں کافروں نے حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلہ کے لیےبلایاتھا اور بڑے انعام واکرام کا ان سے وعدہ کیا تھا لیکن خاص مقابلہ کے وقت جب موسی علیہ السلام کے دین کی اور ان کی دعوت کی سچائی ان پر کھل گئی تو نہ تو انہوں نے اس کی پروا کی کہ فرعون نے جس انعام واکرام کا اورجن بڑےبڑے عہدوں کا وعدہ ہم سے کیا ہے ان سے ہم محروم رہ جائیں گے اور نہ اس کی پروا کی کہ فرعون ہمیں کتنی سخت سزادے گا،بہرحال انہوں نے ان سب خطروں سے بے پروا ہوکر بھرے مجمع میں پکارکے کہہ دیا کہ:"امنا برب ھارون وموسیٰ"(یعنی ہارون اورموسی جس پروردگار کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں ہم اس پر ایمان لے آئے) پھر جب خدا کے دشمن فرعون ان کو دھمکی دی کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کٹواکے سولی پہ لٹکوادوں گا،توانہوں نے پوری ایمانی جرأت سے جواب دیا: "فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍoاِنَّمَا تَقْضِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاoاِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا"۔ (طٰہٰ:۲۷) تجھے جوحکم دیناہو دے ڈال،تواپنا حکم بس اس چندروزہ دنیوی زندگی ہی میں تو چلاسکتا ہے اور ہم تو اپنے سچے رب پرایمان اس لیے لائے ہیں کہ وہ(آخرت کی ابدی زندگی میں) ہمارے گناہ بخش دے۔ اوراس سے بھی زیادہ سبق آموز واقعہ خود فرعون کی بیوی کا ہے،آپ کو معلوم ہے کہ فرعون مصرکی بادشاہت کا گویا اکیلا مالک ومختار تھا اور اس کی یہ بیوی ملک مصر کی ملکہ ہونے کے ساتھ خود فرعون کے دل کی بھی گویا مالک تھی بس اس سے اندازہ کیجئے کہ اس کو دنیا کی کتنی عزت اورکیسا عیش حاصل ہوگا،لیکن جب موسیٰ علیہ السلام کے دین اور ان کی دعوت کی سچائی اللہ کی اس بندی پر کھل گئی تو اس نے بالکل اس کی پروانہ کی کہ فرعون مجھ پر کیسے کیسے ظلم کرے گا اور دنیا کے اس شاہانہ عیش کے بجائے مجھے کتنی مصیبتیں اورتکلیفیں جھیلنی پڑیں گی،الغرض ان سب باتوں سے بالکل بے پرواہوکر اس نے اپنے ایمان کا اعلان کردیااور پھر حق کے راستہ میں اللہ کی اس بندی نے ایسی ایس تکلیفیں اٹھائیں جن کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور کلیجہ منھ کوآتا ہے پھر اللہ تعالی کی طرف سے ان کو یہ درجہ ملا کہ قرآن شریف میں بڑی عزت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا اور مسلمانوں کے لیے ان کے صبر اور ان کی قربانی کو نمونہ بتلایاگیا ارشاد ہے: "وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّــنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّــنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِــمِیْنَ"۔ (التحريم :۱۱) اورایمان والوں کے لیے اللہ تعالی مثال بیان کرتا ہے،فرعون کی بیوی(آسیہ)کی،جبکہ اس نے دعاکی کہ اے میرے پروردگار تومیرے واسطے جنت میں اپنے قرب کے مقام میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون کے شر سے اور اس کی بداعمالیوں سے نجات دے اور اس ظالم قوم سے مجھے رہائی بخش دے۔ سبحان اللہ! کیا مرتبہ اورکیاشان ہے کہ ساری امت کے لیے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر قیامت تک کے سب مسلمانوں کے لیے اللہ تعالی نے اپنی اس بندی کی استقامت کو مثال اور نمونہ قراردیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ مکہ معظمہ میں جب مشرکوں نے مسلمانوں کو بہت ستایا اور ان کے ظلم حد سے بڑھ گئے تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ:حضور! اب ان ظالموں کے ظلم حد سے بڑھ رہے ہیں لہذا آپ اللہ تعالی سے دعافرمائیں،توحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ:تم ابھی سے گھبراگئے! تم سے پہلے حق والوں کے ساتھ یہاں تک ہوا ہے کہ لوہے کی تیز کنگھیاں ان کے سروں میں پیوست کرکے نکال دی جاتی تھیں اور کسی کے سرپر آرہ چلاکے بیچ سے دوٹکڑے کردئے جاتے تھے،لیکن ایسے سخت وحشیانہ ظلم بھی ان کو اپنے سچے دین سے نہیں پھیر سکتے تھےاوروہ اپنے دین نہیں چھوڑتے تھے"۔ اللہ تعالی ہم کمزوروں کو بھی اپنے ان سچے بندوں کی ہمت اوراستقامت کا کوئی ذرہ نصیب فرمائے اوراگر ایسا کوئی وقت مقدر ہوتواپنے ان وفادار بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔