انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مدینہ سے روانگی ابن سعد نے لکھا کہ ۲۵ ذیقعدہ بروز شنبہ آپﷺ روانہ ہوئے اور ذو الحلیفہ کے مقام پر نماز ظہر دورکعت قصر پڑھی ؛لیکن ابن حزم کے مطابق آپﷺ ۲۵ ذیقعدہ بروز جمعرات اور بعد نماز ظہر روانہ ہوئے ، تمام ازواج مطہرات ساتھ تھیں ، مدینہ میں حضرت ابو دجانہؓ ساعدی کو اور بروایت دیگر حضرت سباؓع بن عرفطہ غفاری کو نائب مقرر فرمایا، ذوالحلیفہ میں عصر ، مغرب ، عشاء اور دوسرے دن فجر اور ظہر کی نمازیں ادا فرمائیں ، نماز ظہر کے بعد مُصلّٰی پر بیٹھے بیٹھے تہلیل کی، غسل کر کے لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے اونٹنی " قصویٰ " پر بیٹھ کر احرام باندھا، حضرت عائشہؓ نے عمدہ خوشبو لگائی، جب اونٹنی سیدھی کھڑی ہوگئی تو آپﷺ نے با آواز بلند تلبیہ کہا اور تمام صحابہ کرام کو زور سے تلبیہ کہنے کا حکم دیا، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ احرام باندھنے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہیں وہ حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لیں اور احرام اس وقت تک نہ کھولیں جب تک یہ دونوں کام انجام نہ دیں، مسعودی نے اونٹوں کی تعداد (۶۰) لکھی ہے ، قربانی کے جانور حضرت ناجیہ ؓ بن جندب کے حوالے کئے گئے ، ازواج مطہرات میں (۹) بیویاں اور صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہؓ ساتھ تھیں ، اثنائے سفر میں حضرت ابو بکرؓ کی زوجہ اسماءؓ بنت عمیس کے ہاں ذو الحلیفہ میں لڑکا تولد ہوا جس کا نام محمد بن ابو بکر رکھا گیا، مکہ سے ۶ تا ۱۲ میل کے دوران مقام سرف پر پہنچے تو حضرت عائشہؓ حائضہ تھیں ، انھوں نے روتے ہوئے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اب میں عمرہ کرسکوں گی یا نہیں ، آپﷺ نے فرمایا یہ تو آدم ؑ کی تمام بیٹیوں پر لازم ہے اس لئے وہ سارے کا م کرو جو ہر حاجی کرتا ہے بجز طواف کے ، سر کھول کر بالوں میں کنگھی کرو اور عمرہ کو رہنے دو ، حج کی نیت سے احرام باندھ لو ، جب حج سے فارغ ہو چکیں تو حضرت عائشہؓ کو ان کے بھائی عبدا لرحمن کے ساتھ تنعیم ( مکہ کی میقات ) پر عمرہ کا احرام باندھنے بھیجا ، حضور ﷺ نے فرمایا ، یہ عمرہ اس کے بدلہ میں ہے جو تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا، حضور ﷺ نے مکہ جانے کے لئے وہ راستہ اختیار فرمایاجس میں شجرہ نام کا مقام آتا ہے ، مسجد شجرہ میں آپﷺ نے نماز ادا فرمائی ، فتح مکہ کے سفر میں آپﷺ نے جن جن مقامات پر نمازیں ادا فرمائی تھیں وہاں مساجد تعمیر کر لی گئی تھیں ، آپﷺ نے وہاں نمازیں پڑھیں ، اس موقع پر چاروں طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دے رہے تھے، حضرت عقبہؓ بن عامر کی بہن نے پیدل حج کی نذر مانی تھی ، انھوں نے آپﷺ سے پوچھا تو فرمایا: پیدل بھی چلو اور سوار بھی ہو جاؤ ، ایک بوڑھے شخص نے بھی پیدل حج کی نذر مانی تھی اور وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان سہارے سے چل رہا تھا ، جب حضور ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا :اس سے کہو کہ سوار ہوجائے ،اللہ تعالیٰ اس کی مشقت سے بے نیاز ہے،