انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حجاج بن یوسف کی شقاوت سنگدل اورکینہ توزحجاج کی آتشِ انتقام ابن زبیرؓ کے خون سے بھی نہ بجھی قتل ہونے کے بعد اس نے سر کٹوا کر عبدالملک کے پاس بھجوادیا اورلاش قریش کی عبرت کے لئے بیرون شہر ایک بلند مقام پر سولی پر لٹکوادی، (ابن اثیر:۴/۲۹۰) حضرت اسماءؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ خدا تجھے غارت کرے تونے لاش سولی پر کیوں آویزاں کرائی اس سنگدل نے جواب دیا، ابھی میں اس منظر کو باقی رکھنا چاہتا ہوں، اس کے بعد ستم رسیدہ ماں نے تجہیز و تکفین کی اجازت مانگی لیکن حجاج نے اس کی بھی اجازت نہ دی اوراس اولوالعزم اورحوصلہ مند بہادر کی لاش جس نے زندگی میں سات برس تک بنی امیہ کو لرزہ براندام کئے رکھا تھا شارع عام پر تماشا بنی رہی، قریش آتے تھے،دیکھتے تھے اور عبرت حاصل کرتے ہوئے گذر جاتے تھے ،اتفاقاً ابن عمر کا گذر ہوا، وہ لاش کے پاس کھڑے ہوگئے اور تین مرتبہ لاش سے خطاب کرکے کہا ، ابو حبیب السلام علیک، میں نے تم کو اس میں پڑنے سے منع کیا تھا تم روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑہتے تھے،صلہ رحمی کرتے تھے، حجاج کو اس کی خبر ہوئی تو لاش سولی سے اترواکر یہودیوں کے قبرستان میں پھنکوادی اور ستم بالائے ستم یہ کیا کہ ستم رسیدہ اسماءؓ کو بلا بھیجا، انہوں نے آنے سے انکار کردیا، ان کے انکار پر اس گستاخ نے کہلا بھیجا کہ سیدھی چلی آؤ، ورنہ چوٹی پکڑکے گھسٹوا بلاؤں گا ،صدیق اکبرؓ کی بیٹی نے جواب دیا، خدا کی قسم اب میں اس وقت تک نہ آؤں گی جب تک تو چوٹی پکڑ کے نہ گھسٹوائے گا، یہ جواب سن کر حجاج نے سواری منگائی اورحضرت اسماءؓ کے پاس جاکر کہا، سچ کہنا دیکھا خدانے اپنے دشمن کو کیا انجام دکھایا، دلیر خاتون نے جواب دیا، ہاں تونے ان کی دنیا خراب کی ؛لیکن انہوں نے تیری آخرت برباد کردی تو مجھے ذات النطاقین کہہ کر شرم دلاتا ہے، تجھ کو کیا معلوم یہ کتنا معزز لقب ہے اور کس کا دیا ہوا ہے، نادان یہ لقب رسول اللہ ﷺ کا عطا کردہ ہے میرے پاس دو پٹکے (نطاق) تھے ایک پٹکے سے میں چیونٹیوں سے بچانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کا کھانا ڈھانکتی تھی اور دوسرا اپنے مصرف میں لاتی تھی میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ بنی ثقیف میں کذاب اورمبیر ہوں گے کذاب تو ہم نے دیکھ لیا تھا مبیر باقی رہ گیا تھا وہ تو ہے حضرت اسماءؓ کی یہ بے باکانہ باتیں سن کر حجاج لوٹ گیا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۵۳)