انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت سعدؓ بن عبادہؓ نام ونسب اور ابتدائی حالات سعد نام،ابو ثابت وابو قیس کنیت،سید الخزرج لقب، قبیلۂ خزرج کے خاندان ساعدہ سے ہیں ،سلسلۂ نسب یہ ہے:سعد بن عبادہ بن ولیم بن حارثہ بن حزام بن خزیمہ بن ثعلبہ بن طریف بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج اکبر۔ والدہ کا نام عمرہ بنت مسعود تھا اورصحابیہ تھیں، ۵ھ میں فوت ہوئیں۔ حضرت سعدؓ کے دادا ولیم قبیلۂ خزرج کے سرداراعظم تھے اور مدینہ کے مشہور مخیر تھے، خاندان ساعدہ کی عظمت وجلالت کا سکہ انہی نے بٹھا یا ،مذہبا ًبت پرست تھے اور منات کی پوجا کرتے تھے جو مکہ میں مقام مثلل پر نصب تھا، ہر سال دس اونٹ اس کو نذر چڑھاتے تھے۔ حضرت سعدؓ کے والد عبادہ باپ کے خلف الرشید تھے،اسی شان سے اپنی زندگی بسر کی اور اپنے بیٹے کے لئے مسند امارت دریاست چھوڑگئے۔ تعلیم و تربیت عرب کے قاعدہ کے مطابق تیر اندازی اور تیراکی سکھائی گئی،اگرچہ انصار میں ایک آدمی بھی لکھنا نہیں جانتا تھا، (طبقات ابن سعد:۱۵،مغازی آنحضرتﷺ)لیکن حضرت سعدؓ کی تعلیم میں جو اہتمام ہوا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ جاہلیت میں ہی نہایت عمدہ عربی لکھ لیتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۳/۴۷۵) ان تینوں چیزوں میں اس درجہ کمال بہم پہنچایا کہ استاد ہوگئے اسی بناء پر لوگوں نے "کامل" کا لقب دیا۔ اسلام عقبہ ثانیہ میں اسلام قبول کیا اوران کا شمار بلند پایہ صحابہ میں کیا گیا؛ چنانچہ بخاری میں ہے وقان ذا قدم فی الاسلام یعنی بڑے پایہ کے مسلمان تھے۔ (بخاری) بیعت عقبہ جس شان سے ہوئی انصار کے جس قدر آدمی اس میں شامل ہوئے جن اہم شرائط پر بیعت کا انعقاد ہوا،یہ کام اگرچہ خفیہ اور نہایت خفیہ تھا؛ لیکن پوشیدہ نہیں رہ سکتا تھا، قریش کو ہر وقت آنحضرتﷺ کی فکر لاحق رہتی تھی؛چنانچہ جس وقت آپ رات کے وقت مکہ سے باہر انصار سے بیعت لے رہے تھے جبل ابو قبیس پر کوئی شخص چیخ چیخ کر کہہ رہا تھاو ہ دیکھنا! سعد مسلمان ہوئے تو محمد بالکل نڈر ہوجائے گا۔ قریش کے کان میں اگرچہ یہ آواز پہنچ گئی ،تاہم ان کا خیال ادھر منتقل نہ ہوا وہ قضاعہ اور تمیم کے سعد نامی اشخاص کو سمجھے اس وجہ سے بیعت میں مزاحمت نہ کی۔ دوسری رات کو پھر اسی پہاڑ سے چند شعر سنے گئے،جن میں صاف صاف ان کا نام ونشان موجود تھا، قریش کو سخت حیرت ہوئی اورتحقیق واقعہ کے لئے انصار کے فرودگاہ میں آئے ،عبداللہ بن ابی بن سلول سے کہ قبیلۂ خزرج کا رئیس تھا گفتگو ہوئی،اس نے اس واقعہ سے بالکل لا علمی ظاہرکی یہ لوگ چلے گئے تو مسلمانوں نے یا جج کا راستہ لیا، قریش نے ہر طرف ناکہ بندی کرادی تھی، سعدؓ بن عبادہ اتفاق سے ہاتھ لگ گئے، کافروں نے ان کو پکڑ کر ہاتھ گردن سے باندھ دیئے اور بال کھینچ کھینچ کر زدو کوب کرتے ہوئے مکہ لائے ،مکہ میں مطعم بن عدی نہایت شریف انسان تھا،ابتدائے اسلام میں اس نے آنحضرتﷺ کی بڑی خدمت کی تھی اس نے حارث بن امیہ بن عبد شمس کو ساتھ لیا اور ان کوپہچان کر قریش کے پنجۂ ظلم و ستم سے نجا ت دلائی۔ (طبقات ابن سعد،جلد۱،ق۱:۱۵۰) ادھر انصار میں بڑی کھلبلی پڑی تھی تھی مجلس شوریٰ قائم ہوئی جس میں طے پایا کہ چاہے جانیں خطرہ میں کیوں نہ پڑھ جائیں ؛مگر مکہ واپس چل کر سعد کا پتہ لگانا چاہیے، ان کا یہ ارادہ بھی قوت سے فعل میں نہ آیا تھا کہ سعد آتے ہوئے نظر آئے اور وہ ان کو لے کر سیدھے مدینہ روانہ ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۵۰) غزوات اور عام حالات چند مہینوں کے بعد جناب رسول اللہ ﷺ بھی مدینہ تشریف لائے،اس وقت یثرب کا ہر گلی کوچہ شادمانی اور مسرت کا تماشاہ گاہ تھا دارابی ایوبؓ میں پہنچتے ہی تحفوں اور ہدیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، حضرت سعدؓ کے مکان سے ایک بڑا پیالہ ثرید اورعُراق سے بھراپہنچا۔ (طبقات ابن سعد،جلد۱،قسم۱،صفحہ:۱۶۱) ہجرت سے کچھ مہینوں کے بعد اسلام کی تحریک نشو ونما پانے لگی،صفر ۲ھ میں آنحضرتﷺ ابوارا ایک بستی میں جو مکہ کی طرف واقع تھی،قریش کی فکر میں تشریف لے گئے اس لشکر میں کوئی انصاری نہ تھا،حضرت سعدؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین چھوڑ گئے۔ (ایضاً،صفحہ۳،مغازی آنحضرتﷺ ) اسی سنہ میں بدر کا معرکہ پیش آیا،حضرت سعدؓ کی شرکت میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، بخاری اور مسلم ان کی شرکت ثابت کرتے ہیں؛ لیکن صاحبِ ِ طبقات کو انکار ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ بدر میں شریک نہ تھے ،علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی اسی خیال کی تائید کی ہے اور مسلم کے الفاظ سے اپنے دعویٰ پر نہایت لطیف استشہاد کیا ہے۔ (فتح الباری:۷/۲۲۴) ابن سعد نے طبقات میں ان کا ذکر اس جماعت کے طبقۂ اولیٰ میں کیا ہے ،جو بدر میں شریک نہ تھی اور اس کے ذیل میں لکھا ہے کہ سعدؓ نے غزوہ کا سامان کیا تھا؛ لیکن کتے نے کاٹ کھایا، اور وہ اپنے ارادے سے باز آئے، آنحضرتﷺ نے سنا تو فرمایا کہ افسوس ان کو شرکت کی بڑی حرص تھی، (اصابہ:۳/۸۰) تاہم مال غنیمت میں حصہ لگایا اوراصحاب بدر میں شامل کیا۔ (فتح الباری:۲۲۴) غزوۂ بدر عہد نبوت کے غزوات میں سب سے پہلا مشہور غزوہ ہے،آنحضرتﷺ کو اب تک اگرچہ چار غزوے اورچار سرایا پیش آچکے تھے؛ لیکن انصار کی ان میں سے ایک میں بھی شرکت نہ تھی،اس کا سبب جیسا کہ ظا ہر ہے یہ تھا کہ انصار کی طرف سے بیعت میں صرف اس قدر وعدہ کیا گیا تھا کہ جو مدینہ پر چڑھ کر آئے گا، اس کو وہ روکیں گے مدینہ کے باہر جو معرکے ہوں ان کا اس میں کوئی تذکرہ نہ تھا۔ اس بناء پر آنحضرتﷺ نے اس مہم اعظم کا ارادہ کیا تو انصار کو شریک کرنے کے لئے رائے ومشورہ ضروری سمجھا، ایک مجمع میں جنگ کا مسئلہ پیش ہو، حضرت ابوبکرؓ نے اٹھ کر رائے دی،پھر حضرت عمرؓ اٹھے؛ لیکن آنحضرتﷺ نے التفات نہ کیا، حضرت سعدؓ سمجھ گئے، اٹھ کر کہا کہ شائد ہم لوگ مراد ہیں؟ تو اے رسول اللہ ﷺ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر آپ سمندر کا حکم دیں تو اسے پامال کرڈالیں اور خشکی کا حکم ہو تو برک غماد (یمن کے ایک موضع کا نام ہے) تک اونٹوں کے کلیجے پگھلادیں (مسلم:۲/۸۴) آنحضرتﷺ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور تیاری کا حکم دے دیا۔ تذکرہ نویسوں نے اسی روایت سے شرکت بدر پر استدلال کیا ہے،حالانکہ اس میں مذکور ہے کہ جب ابو سفیان کے آنے کی خبر معلوم ہوئی تو آنحضرتﷺ نے مشوہ کیا، (اصل الفاظ یہ ہیں ان رسول اللہ ﷺ شادرحین بلغہ اقبال ابی سفیان صحیح مسلم:۲/۸۴) اوریہ بالکل مطابق واقعہ ہے؛ لیکن اس کے بعد کا واقعہ وہ ہے جس کو ابن سعد روایت کرتےہیں اس بنا پر طبقات کی روایت صحیح مسلم کے منافی نہیں؛بلکہ اس کے اجمال کی تفصیل اور ابہام کی توضیح ہے۔ بدر کے بعد غزوہ احد واقع ہوا، مشرکین اس سروسامان سے آئے تھے کہ مدینہ والوں پر خوف طاری ہوگیا تھا، شہر میں تمام رات جمعہ کی شب پہرہ رہا اس موقع پر حضرت سعدؓ چند اکابر انصار کے ساتھ مسجد نبوی میں ہتھیار لگائے رسول اللہ ﷺ کے مکان کی حفاظت کررہے تھے۔ (طبقات ابن سعد،صفحہ۲۶،حصہ مغازی) جمعہ کے دن شوال کے ۶ تاریخ کو لڑائی کی تیاریاں ہوئیں،آنحضرتﷺ نے نیزے منگا کر تین پھر یرے لگائے اور خزرج کا علم حضرت سعدؓ بن عبادہ کے سپرد کیا ۔ یہ انتظامات مکمل ہوئے تو آنحضرتﷺ گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے،حضرت سعدؓ بن عبادہ اور حضرت سعدؓ بن معاذ اوس وخزرج کے سردار زرہیں پہنے اورجھنڈے لئے آگے آگے دوڑرہے تھے ،(ایضاً:۲۷) بیچ میں آنحضرتﷺ اور داہنے بائیں مہاجرین وانصار کا لشکر تھا کوکبِ نبوت اس شان سے نمایاں ہوا تو چشم کفر خیرہ ہوگئی اور منافقین کےدل دہل اُٹھے۔ سنیچر کے دن احد کے دامن میں معرکہ قتال برپا ہوا لڑائی اس شدت کی تھی کہ مسلمانوں کے پیر اکھڑ گئے تھے؛ لیکن میدان میں رسول اللہ ﷺ سب کے آگے تھے،مہاجرین اورانصار میں صرف ۴ آدمی آپ کے ساتھ تھے،حضرت سعدؓ کو بھی بعض لوگوں نے انہی میں (زرقانی:۲/۴۰) شامل کیا ہے ،غزوہ مریسیع (مصطلق) میں جو ۵ھ میں ہوا تھا ان کو یہ اعزاز عطا ہوا کہ اوس وخزرج دونوں جماعتوں کا علم ان کو تفویض کیا۔ (طبقات ،صفحہ۴۵،مغازی) غزوہ خندق میں جو اسی سنہ میں ہوا تھا،آنحضرتﷺ نے ان کو اورحضرت سعدؓ بن معاذ کو بلا کر مشورہ کیا کہ عینیہ بن حصن کو میں مدینہ کی پیداوار کا ایک ثلث اس شرط پر دینا چاہتا ہوں کہ قریش کو چھوڑ کر واپس جائے،وہ نصف مانگتا ہے،اب تمہاری کیا رائےہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہﷺ! اگر یہ وحی ہے تو انکار کی مجال نہیں ورنہ اس کی بات کا جواب تو صرف تلوار ہے،خدا کی قسم ! ہم اس کو پھل کی بجائے تلوار کا پھل دیں گے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ وحی نہیں اوروحی آتی تو تم سے پوچھنے کی کیا حاجت تھی عرض کیا تو پھر تلوار ہے ہم نے جاہلیت میں بھی ایسی ذلت کبھی گوارا نہیں کی اور اب تو آپ کی وجہ سے اللہ نے ہم کو ہدایت دی،معزز اورمکرم کیا پھر دبنے کی کیا وجہ ہے؟ آنحضرتﷺ اس گفتگو سے بہت مسرور ہوئے اوردونوں کے لئے دعائے خیر فرمائی۔ (استیعاب:۲/۵۶۳) خندق کے معرکہ میں بھی انصار کا علم حضرت سعدؓ بن عبادہ کے پاس تھا۔ (طبقات ،صفحہ۴۸،حصہ مغازی) ۶ ھ میں آنحضرتﷺ نے نمابہ پر حملہ کیا اور سعد کو ۳۰۰ آدمیوں کا افسر مقرر کرکے،مدینہ کی حفاظت کے لئے چھوڑ گئے۔ (ایضاً:۵۸) وہاں امداد کی ضرورت ہوئی، مدینہ میں خبر پہنچی تو حضرت سعدؓ نے ۱۰ اونٹ اورچھوہاروں کے بہت سے گٹھے روانہ کئے جو رسول اللہ ﷺ کو ذی قرد میں مل گئے۔ (ایضاً:۵۸) ۶ ھ میں غزوہ حدیبیہ اور بیعت رضوان پیش آئی وہ دونوں میں موجود تھے۔ غزوہ خیبر (۷ھ) میں اسلامی لشکر میں تین جھنڈے تھے جن میں سے ایک حضرت سعدؓ کے پاس تھا۔ (طبقات ،صفحہ۷۷،حصہ مغازی) فتح مکہ میں خود رسول اللہ ﷺ کا رایت (فتح الباری:۸/۷،طبقات،صفحہ۹۸،واستیعاب:۲/۵۶۳) (جھنڈا) حضرت سعدؓ کے پاس تھا، فوج اسلام کا ایک ایک دستہ شہر میں جارہا تھا اور ابو سفیان حضرت عباسؓ کے ساتھ کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے، انصار جن کے آگے آگے حضرت سعدؓ تھے اس شان سے گذرے کہ ابو سفیان کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں (بخاری:۲/۶۱۳) پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت عباسؓ نے جواب دیا کہ یہ انصار ہیں، ان پر سعد بن عبادہؓ افسر ہیں اورجھنڈا ابھی ان ہی کے ہاتھ میں ہے،قریب پہنچے تو ابو سفیان کو پکارا دیکھنا! آج کیسی سخت لڑائی ہوگی آج کعبہ حلال ہوجائے گا ،ابو سفیان کا دل اپنی سابق حرکتوں کے سبب سے یو نہیں تھوڑاتھوڑا تھا، حضرت عباسؓ سے کہا آج تو خوب لڑائی ہوگی،حضرت سعدؓ کے بعد خود رسول اللہ ﷺ کا دستہ سامنے سے گذرا تو ابو سفیان پکارا، یا رسول اللہ! اپنی قوم پر رحم کیجئے، آپ کو خدانے رحیم اور نیکو کار بنایا ہے،سعد مجھ کو دھمکا گئے ہیں کہ ملحمۂ عظمیٰ آج ہی ہے،آج قریش کا خاتمہ ہوجائے گا، ابو سفیان کی آواز پر کئی آوازیں اٹھیں، حضرت عثمانؓ اورحضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے کہا ، ہمیں خوف ہے کہ حضرت سعدؓ کا جوشِ انتقام تازہ نہ ہوجائے، ضرار بن خطاب فہری نے چند شعر کہے تھے،ایک شخص کو کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جا اور ان کو پڑھ کر فریاد کر: یا نبی الھدی الیک لجاحی قریش ولات حین لجا حین ضاقت علیھم سعۃ الارضروعاداھم الہ السماء ان سعدا یرید قاصمۃ الظھر با ھل الحجون والبطحاء یا رسول اللہ ﷺ!آپ کے دامن میں قریش نے اس وقت پناہ لی ہے جبکہ ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں جب کہ ان پر فراخی کے باوجود زمین تنگ ہے اورآسمان کا خدا ان کا دشمن ہوگیا ہے سعد اہل مکہ کی پیٹھ توڑنا چاہتا ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے شعر تھے آنحضرتﷺ نے اشعار سنے تو دریائے رحمت موجزن ہوگیا ارشاد ہوا کہ سعد نے جھوٹ کہا ،آج کعبہ کی عظمت دوبالا ہوگی ،آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا، اس کے بعد حضرت علیؓ کوبھیجا کہ سعد سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کو دیدو، حضرت سعدؓ نے انکار کیا اور کہا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے، آنحضرتﷺ نے اپنا عمامہ بھیجا تو انہوں نے بیٹے کے ہاتھ میں جھنڈا دیدیا، لیکن جو خطرہ رسول اللہ ﷺ کو سعدؓ سے تھا ان کو اپنے بیٹے سے ہوا، درخواست کی قیس کے سوا کسی اور شخص کے سپرد کیجئے،آنحضرتﷺ نے حضرت زبیرؓ بن عوام کے سپرد کیا، صحیح بخاری میں جو آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا علم حضرت زبیرؓ کے پاس تھا اس کا یہی مطلب ہے۔ (بخاری:۲/۶۲۳،وفتح الباری:۸/۷،واستیعاب:۲/۵۶۳،۵۶۴، سے یہ واقعات لئے گئے ہیں) فتح مکہ کے بعد حنین کا معرکہ ہوا اس میں قبیلہ خزرج کا علم حضرت سعدؓ کے پاس تھا۔ (طبقات ابن سعد،۱۰۸ حصہ مغازی ) ان غزوات کے علاوہ بھی جو غزوات یا مشاہد عہد نبوی میں پیش آئے ان میں حضرت سعدؓ کی نمایاں شرکت رہی ،میدان جنگ میں انصار کے وہی علمبردار ہوتے تھے۔ سقیفہ ٔ بنی ساعدہ ۱۱ ھ میں آنحضرتﷺ نے وصال فرمایا، مدینہ کا علاقہ انصار کی قدیم ملکیت تھا، اس کے ماسوا آغازِ اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی مدد انصار نے کی تھی جس زمانہ میں کہ اسلام بے خانماں تھا رسول اللہ ﷺ تمام قبائل عرب پر اپنے کو پیش کرتے تھے کہ مجھ کو مکہ سے اپنے وطن لے چلو ؛لیکن قریش کے دبدبہ ورعب کی وجہ سے کوئی حامی نہیں بھرتا تھا، انصار کے ایک مختصر قافلہ نے جو صرف ۷۰ اشخاص پر مشتمل تھا، "عرب و عجم" کی جنگ پر آنحضرتﷺ سے مکہ آکر بیعت کی اور آپ کو اپنے وطن مدینہ میں مدعو کیا۔ عہد نبوت میں جو غزوات پیش آئے، ان میں تعداد ،جاں بازی، فدائیت سب سے زیادہ انہی لوگوں سے ظاہر ہوئی، حضرت قتادہؓ فرمایا کرتے تھے کہ قبائل عرب میں کوئی قبیلہ انصار سے زیادہ شہداءنہ لاسکے گا، میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ احد میں ۷۰ ،بیر معونہ میں ۷۰ اوریمامہ میں ۷۰ انصاری شہید ہوئےتھے۔ (بخاری:۲/۵۸۴) ان باتوں کے ساتھ قرآن مجید اور حدیث میں ان کے فضائل ومناقب کثرت سے بیان کئے گئےہیں، اس بنا پر انصار کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ انصار میں دو بزرگ تمام قوم کے پیشوا اور سردار تسلیم کئے جاتے تھے،حضرت سعدؓ بن عبادہ اورحضرت سعد بن معاذ، حضرت سعدؓ بن معاذ آنحضرتﷺ کے عہد میں انتقال کرچکے تھے، صرف حضرت سعدؓ بن عبادہ باقی تھے، جن کا اوس وخزرج میں وجاہت وامارت کے لحاظ سے کوئی حریف مقابل نہ تھا۔ آنحضرتﷺ نے وفات پائی تو سقیفۂ بنی ساعدہ میں جو انصار کا دارالندوہ اورحضرت سعد بن عبادہؓ کی ملکیت تھا لوگ جمع ہوئے، سعدؓ بیمار تھے، لوگ ان کو لائے وہ کپڑا اوڑھے ہوئے مسند پر آکر بیٹھ گئے اور تکیہ سے ٹیک لگالی اور اپنے اعزہ سے کہا کہ میری آواز دور تک نہ پہنچے گی جو میں کہوں اس کو بآواز بلند لوگوں تک پہنچاؤ، تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ انصار کو جو شرف اور سبقت فی الدین حاصل ہے عرب کے کسی قبیلہ کو حاصل نہیں، آنحضرتﷺ ۱۰ برس سے زیادہ اپنی قوم میں رہے؛ لیکن ان کی کسی نے نہ سنی جو لوگ ان پر ایمان لائے وہ تعداد میں بہت کم تھے، ان میں نہ تو رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی طاقت تھی نہ دین کے بلند کرنے کی قوت وہ تو خود اپنی حفاظت سے عاجز تھے۔ خدا نے جب تم کو فضیلت دینا چاہی تو یہ سامان بہم پہنچایا کہ تم ایمان لائے ،رسول اوراصحاب کو پناہ دی، اپنے سے رسول اللہ ﷺ کو عزیزی سمجھا ان کے اعداء سے جہاد کیا یہاں تک کہ تمام عرب طوعاً یا کرھاً خلافت الہی میں شامل ہوگیا اور بعید وقریب سب نے گردنیں ڈال دیں پس یہ تمام مفتوحہ علاقہ تمہاری تلواروں کا مرہون منت ہے، رسول اللہ ﷺ زندگی بھر تم سے خوش رہے اوروفات کے وقت بھی خوش گئے اس بنا پر تم سے زیادہ خلافت کا کوئی مستحق نہیں۔ تقریر ختم ہوئی تو تمام مجمع نے یک زبان ہوکر کہا کہ رائے نہایت معقول اورصائب ہے ہمارے نزدیک اس منصب کے لئے آپ سے زیادہ کوئی موزوں نہیں ہم آپ ہی کو خلیفہ بنائیں گے۔ اس کے بعد آپس میں گفتگو شروع ہوئی کہ مہاجرین کے دعوائے خلافت کا کیا جواب ہوگا بعضوں نے کہا یہ کہ دو امیر ہوں ایک ہمارا اورایک ان کا سعد کے کان میں آواز پڑی تو بولے کہ یہ پہلی کمزوری ہے۔ ادھر حضرت عمرؓ کو خبر پہونچ گئی تھی وہ حضرت ابوبکرؓ کو لے کر آپہنچے حضرت عمرؓ کی مشتعل طبیعت نے تمام مجمع میں آگ لگادی،انصار کے خطباء بار بار تقریر کرتے تھے حضرت عمرؓ اوران میں سخت کلامی کی نوبت آئی اور اخیر میں تلواریں کھینچ گئیں، حضرت ابوبکرؓ نے رنگ بدلتا دیکھ کر حضرت عمرؓ کو روکا اورخود نہایت معرکۃ الآراخطبہ دیا، اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی فضیلت بیان کی تو تمام انصار پکار اُٹھے کہ "نعوذ باللہ ان نتقدم ابابکر "یعنی ہم خدا سے پناہ مانگتے ہیں کہ ابوبکرؓ سے آگے بڑھیں۔ (مسند:۱/۲۱) تمام مجمع بیعت کے لئے اٹھا تو لوگوں نے شور مچایا کہ دیکھنا!سعد کچل نہ جائیں، حضرت عمرؓ نے کہا اس کو خدا کچلے، سعد اپنی ناکامی پر پہلے سے متاسف تھے،سخت برہم ہوئے اور لوگوں سے کہا کہ مجھ کو یہاں سے لے چلو۔ (بخاری:۲/۱۰۱۰،وطبری،صفحہ۱۸۴۳،واقعات ۱۱ھ) حضرت ابوبکرؓ نے کچھ دنوں بالکل تعرض نہ کیا بعد میں آدمی کو بھیجا کہ یہاں آکر بیعت کریں انہوں نے بیعت سے قطعا ًانکار کیا،حضرت عمرؓ نے کہا کہ ان سے ضرور بیعت لیجئے بشیر بنؓ سعد انصاری بیٹھے تھے، بولے کہ اب وہ انکار کرچکے ہیں، کسی طرح بیعت نہ کریں گے مجبور کیجئے گا تو کشت وخون کی نوبت آئے گی، وہ اٹھیں گے تو ان کا گھر اور کنبہ بھی حمایت کرے گا جس سے ممکن ہے کہ تمام خزرج اٹھ کھڑا ہو اس لئے ایک سوتے فتنہ کو جگانامناسب نہیں ہے ،میرے خیال میں ان کو یوں ہی چھوڑ دیجئے،ایک آدمی ہیں کیا کریں گے؟ اس رائے کو سب نے پسند کیا، حضرت سعدؓ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت تک مدینہ میں مقیم رہے بعد میں ترک وطن کرکے شام کی سکونت اختیار کی اور دمشق کے قریب حوازن کا علاقہ نہایت سرسبز تھا اسی کو اپنے رہنے کے لئے پسند کیا۔ وفات ۱۵ھ میں وفات پائی کسی نے مار کرغسل خانہ میں ڈال دیا تھا گھر کے لوگوں نے دیکھا تو بالکل جان نہ تھی تمام جسم نیلا پڑ گیا تھا،قاتل کی بہت تلاش ہوئی؛ لیکن کچھ پتہ نہ چلا ایک غیر معلوم سمت سے آواز آئی : قتلنا سید الخزرج سعد بن عبادہ رمیناہ بسھمج فلم یخط فوادہ ہم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کیا، ایک تیر مارا جو خالی نہیں گیا۔ چونکہ قاتل نہیں ملا اور آواز سنی گئی بعضوں کا خیال ہوا کہ کسی جن نے قتل کیا ہے۔ اولاد تین اولادیں چھوڑیں ،قیس (بہت بڑے صحابی ہیں) سعید ،اسحاق بیوی کا نام فکیہہ تھا،صحابیہ تھیں اور چچازاد بہن ہوتی تھیں۔ (استیعاب:۲/۵۳۸) مکان اورجائداد جائیداد بہت تھی، جب مدینہ چھوڑا تو بیٹوں پر تقسیم کردی ایک لڑکا پیٹ میں تھا جس کا حضرت سعدؓ نے حصہ نہیں لگایا تھا، جب پیدا ہوا تو حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ نے قیس ؓ سے کہا کہ اپنے باپ کی تقسیم فسخ کردو، کیونکہ ان کے فوت ہونے کے بعد لڑکا پیدا ہوا ہے، قیس نے کہا باپ نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا اس کو بدستور قائم رکھوں گا، میرا حصہ موجود ہے اس کو وہ لے سکتا ہے۔ (ایضا:۵۳۹) حضرت سعدؓ کا مکان بازار مدینہ کی انتہا پر واقع تھا اور جرار سعد کہلاتا تھا ایک مسجد اور چند قلعے بھی تھے ایک مکان بنو حارث میں بھی ان کی ملکیت تھا۔ (خلاصہ الوفاء:۸۸) فضل وکمال حدیث کے ساتھ غیر معمولی اعتنا کیا،صحابہؓ کے زمانہ میں کتابت اگرچہ عام ہوگئی تھی اور قرآن مجید لکھا جاچکا تھا، تاہم حدیث لکھنے کا رواج نہ تھا ،حضرت سعدؓ نے حدیث لکھی تھی ،مسند بن حنبل میں ہے: عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَمْرِو بْنِ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُمْ وَجَدُوا فِي كُتُبِ أَوْ فِي كِتَابِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ یعنی انہوں نے حضرت سعدؓ کی کتابوں یا کتاب میں پایا ہے۔ حدیث لکھنے کے ساتھ اس کی تعلیم کے ذریعہ سے اشاعت بھی کی،چنانچہ ان کے بیٹےحضرت عبداللہ بن عباسؓ، امامہ بن سہل، سعید بن مسیبؓ وغیرہ ان سے حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ اخلاق وعادات حضرت سعدؓ کے مرقع اخلاق میں جو دو سخا کے خال وخط نہایت نمایاں ہیں،اسماء الرجال کے مصنف جب ان کا تذکرہ کرتے ہیں تو لکھتے ہیں ،وکان کثیر الصدقات جدا۔ حضرت سعدؓ مشہور فیاض آدمی تھے اور تمام عرب میں یہ بات صرف انہی کو حاصل تھی کہ ان کی چار پشتیں جو دو سخا میں نام آور ہوئیں ان کے دادا ولیم باپ (عبادہ) خود،بیٹا (قیس ) اپنے زمانہ کے مشہور مخیر تھے۔ ولیم کے زمانہ میں خوانِ کرم اس قدر وسیع تھا کہ معمولا قلعہ پر سے ایک شخص پکارتا کہ جس کو گوشت اورروغن اور اچھا کھانا مطلوب ہو ہمارے ہاں قیام کرے اس سخاوت عام نے آل ساعدہ کو مدینہ کا حاتم بنا رکھا تھا، ولیم کے بعد حضرت سعدؓ رضی اللہ عنہ تک یہی رسم قائم رہی اوران کے بعد قیس نے اس کو اسی طرح باقی رکھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ایک دفعہ حضرت سعدؓ کے مکان کی طرف سے گذرے ،قلعہ نظر آیا، تو نافع سے کہا دیکھو یہ سعد کے دادا کا قلعہ ہے جن کے سخاوت وجود کی تمام مدینہ میں دھوم تھی۔ حضرت سعدؓ کی فیاضی افسانہ بزم وانجمن ہے، بہت سے قصے مشہور ہیں، ہم چند صحیح واقعات اس مقام پر درج کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو حضرت سعدؓ کے ہاں سے برابر کھانا آتا تھا، اصابہ میں ہے، کانت جفنۃ سعد تدور مع النبی ﷺ فی بیوت ازواجہ۔ صحابہؓ میں اصحاب صفہ کی ایک جماعت تھی،جو دوردراز ملکوں سے ہجرت کرکے مدینہ آئی تھی،یہاں اس کا منشاء صرف تحصیل علم اورتکمیل مذہب ہوتا تھا، رسول اللہ ﷺ ان لوگوں کو ذی مقدرت صحابہ کے متعلق کردیتے تھے،چنانچہ اور لوگ ایک دو آدمی اپنے ہاں لے جاتے تھے،لیکن حضرت سعدؓ ۸۰ آدمیوں کو برابر شام کے کھانے میں مدعو کرتے تھے۔ فطری سخاوت ہر جگہ نمایاں ہوتی تھی، ماں نے انتقال کیا تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے کہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں مگر کیا صورت ہو؟ آپ نے فرمایا کہ پانی پلواؤ،سقایہ آل سعد جو مدینہ میں ہے، اسی صدقہ کا نتیجہ ہے۔ (مسند:۵/۲۸۵) حمیت قومی انتہائی درجہ تک پہنچی ہوئی تھی ،قضیہ افک میں آنحضرتﷺ نے منبر پر فرمایا کہ ابن ابی نے میرے گھر والوں (حضرت عائشہؓ ) کو تہمت لگائی جس سے مجھے سخت تکلیف پہونچی کوئی ہے جو اس کا تدارک کرنے پر آمادہ ہو؟ سعد بن معاذؓ کہ اوس کے سردار تھے، بولے کہ میں حاضر ہوں ،جو حکم ہو بجالاؤں،اگر قبیلۂ اوس کا آدمی ہے تو ابھی گردن ماردی جائے اورخزرج کا ہے تو جو فرمائیے بجالانے کو تیار ہوں(خزرج اور اوس میں دیرینہ عداوت تھی، جاہلیت میں بڑے معرکے کی لڑائیاں ہوچکی تھیں، اسلام نے صلح کرائی،تاہم دلوں میں کدورت باقی تھی، اس بنا پر حضرت سعدؓ بن معاذ کی یہ درخواست کہ خزرج کے معاملہ میں ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں ،یہ معنی رکھتی تھی کہ اس پر غلبہ پانے کی ایک صورت نکل آئے ،جو یقیناً خزرج کے لئے ناقابل برداشت تھی) سعدؓ بن عبادہ سردار خزرج نے اٹھ کر کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو تم خزرج کو کبھی نہیں قتل کرسکتے اور نہ اس پر قادر ہو اگر تمہارے خاندان (اشہل) کا معاملہ ہو تا تو زبان سے ایسی بات نہ نکالتے، اسیدؓ بن حضیر نے حضرت سعدؓ بن معاذ کے ابن عم تھے جواب دیا کہ تم یہ کیا کہتے ہو، رسول اللہ ﷺ حکم دیں تو ہم ضرور ماریں گے، تم منافق ہو اور منافق کی طرف سے لڑرہے ہو ،اتنا کہنا تھا کہ دونوں قبیلے جوش میں اٹھ کھڑے ہوئے،آنحضرتﷺ منبر پر تھے، آہستہ آہستہ دھیما کیا، یہاں تک کہ حمیت کا غلغلہ پست ہوگیا۔ (بخاری:۷/۳۳۵،فتح الباری:۸/۳۲۱) حب رسول کا یہ حال تھا کہ اپنے قبیلہ کی پوشیدہ باتیں جو رسول اللہ ﷺ سے متعلق ہوتیں پہنچا دیتے تھے،غزوہ ہوازن میں آنحضرتﷺ نے قریش اورسردارانِ قریش کو غنیمت کی بڑی بڑی رقمیں دی تھیں اور انصار کو کچھ نہ دیا تھا، بعض نوجوانوں کو اس ترجیع پر رنج ہوا، اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ہم قوموں کو دیتے ہیں اور ہم کو محروم کرتے ہیں، حالانکہ قریش کا خون ہماری تلواروں سے اب تک ٹپک رہا ہے حضرت سعدؓ بن عبادہ نے جاکر رسول اللہ ﷺ سے کہہ دیا کہ یہ خیالات ہیں، فرمایا تم کیا کہتے ہو؟ عرض کیا گو میں انصاری ہوں، لیکن یہ خیال نہیں ارشاد ہوا کہ جاؤ اور لوگوں کو فلاں خیمہ میں جمع کرو، اعلان ہوا تو مہاجرین اور انصار دونوں آئے، حضرت سعدؓ نے مہاجرین کو چھانٹ دیا، آنحضرتﷺ نے آکے خطبہ دیا جس کا ایک فقرہ یہ تھا کہ کیا تم لوگ راضی نہیں کہ تمام لوگ مال و دولت لے کر جائیں اور تم خود مجھ کو اپنے ہاں لے چلو، تمام لوگ روپڑے اور باتفاق کہا کہ آپ کے مقابلہ میں ساری دنیا کی دولت ہیچ ہے۔ (بخاری، :۲/۶۲۰،ومسند:۳/۷۶) غزوہ احد میں تمام مدینہ خطرہ میں پڑ گیا تھا لوگ شہر میں پہرہ دے رہے تھے اس وقت حضرت سعدؓ نے اپنا مکان چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کے مکان کا پہرہ دیا تھا۔ آنحضرتﷺ کو ان سے جو محبت تھی اس کا یہ اثر تھا کہ ان کے مکان پر تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ ان کے لئے دعا کی تو فرمایا، اللھم اجعل صلواتک ورحمتک علی آل سعدؓ بن عبادہ۔ ایک مرتبہ فرمایا خدا انصار کو جزائے خیر دے، خصوصا عبداللہ بن عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہؓ کو۔ صدقات کے افسروں کی ضرورت ہوئی تو ان کو بھی منتخب کیا، لیکن جب امارت کی ذمہ داریوں سے واقف ہوئے تو عرض کیا کہ میں اس خدمت سے معذور ہوں، آنحضرتﷺ نے عذر قبول فرمایا۔ (مسند:۵/۲۸۵) ایک مرتبہ بیمار پڑے تو آنحضرتﷺ صحابہ کو لے کر عیادت کے لئے تشریف لائے درد سے بے ہوش تھے کسی نے کہہ دیا کہ ختم ہوگئے بعض بولے ابھی دم باقی ہے، اتنا سننا تھا کہ آنحضرتﷺ روپڑے اور ساتھ ہی تمام مجلس میں ماتم پڑ گیا۔ (بخاری،۱/۱۷۴) نرمی طبع اورامن پسندی ذیل کے واقعہ سے معلوم ہوسکتی ہے۔ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ ان کی عیادت کو تشریف لارہے تھے راستہ میں ابن ابی بیٹھا تھا، اس نے آنحضرتﷺ سے سخت کلامی کی صحابہ کو طیش آگیا اور فریقین لڑنے پر آمادہ ہوگئے، آنحضرتﷺ نے سب کو اس ارادہ سے باز رکھا اور حضرت سعدؓ کے مکان چلے آئے، فرمایا سعد! تم نے کچھ سنا آج ابو حباب (ابن ابی) نے مجھے ایسا کہا، عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس کا قصور معاف کیجئے، بات یہ ہے کہ اسلام سے قبل لوگوں کا خیال تھا کہ اس کو مدینہ کا بادشاہ بنائیں ،لیکن جب اللہ نے آپ کو حق وصداقت کے ساتھ مبعوث کیا تو وہ خیال بدل گیا، یہ اس غم و غصہ کا بخار ہے، آپ نے یہ سن کر معاف کردیا۔ (بخاری:۲/۶۵۶)