انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطنت کے قابل تذکرہ اہلِ کار اور عہدے دار خلافتِ بنواُمیہ ایک فاتح وملک گیر سلطنت تھی، اس کے زمانہ میں عرب قوم فاتح اور تمام اقوام مفتوح سمجھی جاتی تھیں، عربوں میں مذہبی جوش موجود تھا اور قرآن کریم وسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی قانون ان کے لیے واجب التعمیل اور نافذالفرمان نہ ہوسکتا تھا، مسلمان آپس میں بھی لڑتے تھے؛ مگران لڑائیوں اور چڑھائیوں کے باوجود عرب، شام، مصر اور عراق وغیرہ اسلامی ممالک میں باشندوں کی عام زندگی اور قیام امن کسی پیچیدہ نظام سلطنت کی خواہاں نہ تھی، خلیفہ اہم امور میں مشورے لیتا تھا؛ مگرمشورے لینے کے لیے مجبور بھی نہ تھا، خلیفہ کوبلاطلب بھی مشورے دیے جاتے تھے اور بسااوقات اس کووہ منظور بھی کرنے پڑتے تھے، حکومت میں عام طور پرعربی سادگی موجود تھی، معمولی بدوی خلیفہ تک پہنچ سکتے تھے اور ان بادیہ نشینوں کی طاقت لسانی کوخلیفہ کا رُعب حکومت مطلق کم نہیں کرسکتا تھا، خلیفہ صوبوں اور ولایتوں کی حکومت پراپنے نائب مقرر کرکے بھیجتا تھا اور اس کواس صوبہ یاولایت میں کامل شاہانہ اختیارات حاصل ہوتے تھے، خلیفہ جس طرح تمام عالم اسلام کا فرماں روا تھا؛ اسی طرح وہ تمام عالم اسلام کا سپہ سالارِاعظم بھی ہوتا تھا، صوبوں اور ولایتوں کے عامل اپنے صوبہ کے بادشاہ بھی ہوتے تھے اور سپہ سالار بھی، وہی دینی پیشوا اور نمازوں کے امام ہوتے تھے اور وہی قاضی قضاۃ بھی، خلیفہ کوبھی جب کسی دینی مسئلہ کی نسبت شک ہوتا تھا توعلماء سے دریافت کرنے میں مطلق عار نہ تھی؛ اسی طرح عاملوں اور والیوں کوبھی علماء سے رجوع کرنا پڑتا تھا، بعض اوقات صوبوں میں ایک عامل یعنی گورنر مقرر ہوتا تھا اور اسی کے ساتھ ہی دوسرا قاضی یاچیف جج دربارِ خلافت سے مقرر ہوتا تھا، عامل کا کام ملک میں انتظام قائم رکھنا، فوج کشی کرنا، دشمن کی مدافعت کے لیے آمادہ رہنا، رعایا کی حفاظت کرنا اور محاصل ملکی وصول کرکے خزانہ میں جمع کرنا ہوتا تھا اور قاضی کا کام حدودِ شرعیہ کوجاری کرنا، جھگڑوں کے فیصلوں کی خدمات انجام دینا اور احکامِ شرعی کی پابندی کرانا ہوتا تھا، اس حالت میں عامل صرف سپہ سالارِ افواج ہوتا تھا؛ غرض خلافت بنواُمیہ میں سادگی زیادہ تھی، شرعی قوانین سے تمام دقتوں کورفع کردیا جاتا تھا اور رعایا عدل وانصاف کی وجہ سے بہت خوش حال اور فارغ البال تھی، نہ رعایا سے کوئی نامناسب ٹیکس یامحصول لیا جاتا تھا نہ سلطنت کوانتظام ملک کے لیے زیادہ روپیہ خرچ کرنا پڑتا تھا، خلیفہ تمام اسلامی دُنیا کا روحانی پیشوا بھی سمجھا جاتا تھا اور دنیوی بادشاہ بھی، اس لیے ملک میں امن وامان کے قائم رکھنے میں بڑی آسانی ہوتی تھی، کوئی باقاعدہ وزارت کا عہدہ نہ تھا اور ضرورت کے وقت ہرشخص وزارت کے کام انجام دے سکتا تھا۔ خلافتِ عباسیہ میں عربوں کے سوا ایرانیوں اور ترکوں کوبھی فاتح قوم کے حقوق ملنے لگے اور بہ تدریج مفتوح قوم کا اقتدار عرب فاتحین سے بھی بڑھ گیا، اس لیے ملکی انتظام میں پیچیدگی واقع ہوئی؛ اگرعرب، ایرانی اور ترک سب کواحکام اسلام کے موافق مساوی درجہ میں رکھا جاتا اور حقیقی مساوات قائم ہوتی توبنواُمیہ کے زمانہ سے بھی زیادہ سادگی اور خوبی انتظام سلطنت میں نمایاں ہوگی؛ مگربدقسمتی سے ایسی صورتیں پیش آتی رہیں کہ ان قوموں میں محالفت اور رقابت ترقی کرتی رہی، جس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ایرانیوں کوعربوں پرفضیلت دی گئی اور ایرانی وسامانی معاشرت کودربارِ خلافت نے اختیار کرکے عربی راحت رسا سادگی کوحقارت کے ساتھ رد کردیا اور اسی کا یہ نتیجہ ہوا کہ خلافتِ اسلامیہ کوایسی پیچیدگیوں میں مبتلا ہوا پڑا، جس سے اس کا اعتبار واقتدار بہ تدریج کم ہوتے ہوتے فنا ہوگیا؛ بہرحال خلافتِ عباسیہ کے قابل تذکرہ عہدوں کی فہرست پیش کرنا مقصود ہے۔