انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قبول مرسل میں ائمہ اربعہ کا اختلاف اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ قبولِ مرسل میں امام شافعیؒ اور امام بخاریؒ کا امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ سے اختلاف دراصل اصول کا اختلاف نہ تھا، حالات کا اختلاف تھا، قبولِ روایت میں اعتماد کوسب ائمہ کے ہاں اصولی درجہ حاصل رہا ہے، جب تک امت میں صداقت اوردیانت غالب تھے؛ گوفتنے پیدا ہوچکے تھے روایات اعتماد پربھی قبول کی جاتی تھیں، جب وہ حالات نہ رہے، فتنوں کا تخم حنظل درخت بن گیا توبعد کے ائمہؒ صحت اسناد اور اتصال رواۃ پر توجہ تیز کردی، اس حد فاصل پر امام شافعیؒ نے مجددانہ کردار ادا کیا، فجزاہ اللہ جزاًء حسناً۔ اس سے یہ بھی پتہ چل گیاکہ پہلے دور کی کتبِ حدیث جیسے مؤطا امام مالک، موطا امام محمد، مصنف عبدالرزاق وغیرہ میں اسانید اس پیرایہ بیان اور اہمیتِ شان سے نہیں ملتیں جس انداز میں ہم انہیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں پاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے دور میں اعتماد غالب تھا، صحابہؓ کی مرسلات جس اصول پر قبول ہوتی تھیں وہ اصول اعتماد اگر کہیں بعد میں بھی کسی بزرگ پرراہ پاگیا تواس کی مرسلات بھی قابلِ قبول سمجھی گئیں، مرسلات حسن، مرسلات ابراہیم، مرسلات زہری وغیرہ پر محدثین نے مستقل آراء قائم کی ہیں، تاہم یہ صحیح ہے کہ جونہی اعتماد میں کمی آنے لگی، محدثین کرام صحت سند اور اتصال رواۃ پر زیادہ زور دینے لگے، حضرت امام شافعی ان دونوں طریقوں کی حدفاصل سمجھے جاتے ہیں اور بعد کے دور کے محدثین پھرتقریباً سب اسی راہ پر چلے، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔ آپ نے قبولیت روایت میں اس وقت کے حالات کے مناسب صحت اسناد اور اتصال رواۃ پر بہت زور دیا، اختلاف الحدیث کے نام سے آپ نے اس موضوع پر ایک کتاب قلمبند فرمائی اور حق یہ ہے کہ آپ نے فن حدیث کا رُخ اسناد کی طرف موڑ دیا، یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ اس میں ہروقت کی ضرورت کے مطابق اصحاب کردار پیدا ہوئے، جنہوں نے وقت کی ضرورتوں کے تحت تحقیقات کے دہانے کا رُخ صحیح سمت کی طرف کردیا۔ اس سے یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ پہلے دور میں اسانید قائم نہ تھیں اور حدیث پوری سند سے روایت نہ ہوتی تھی، احادیث کا سلسلہ پوری اسنادی شان سے قائم تھا اور محدثین صحیح وضعیف میں برابرفرق کرتے تھے، احادیث کواسانید بعد میں فراہم نہیں کی گئیں، جب سے احادیث چلی آرہی ہیں؛ اسی وقت سے سلسلہ اسانید بھی چلا آرہا ہے، ہمارے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ پہلے دور میں روایت کی قبولیت میں سند کا اتصال زیا دہ ضروری نہیں سمجھا گیا عمومی اعتماد بہت حد تک کارفرمار ہا ہے تاہم یہ صحیح ہے کہ سند کی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ موجود تھی۔