انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۹)کتاب ابن عباس ؓ حضرت عبداللہ بن عباسؓ (۶۸ھ) نے بھی حدیث کی ایک مقدار لکھ لی تھی، لوگ دور دور سے آکر ان روایات کی سند لیتے تھے، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ایک دفعہ بعل الطائف سے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے،ان کے پاس آپ کی تحریرات میں سے ایک تحریر تھی،آپ نے انہیں کہا کہ یہ مجھے سناؤ میرا ان کا اقرار کرنا اس طرح ہے گویا؛کہ میں نے تمہیں پڑھ کرسنائین۔ (ترمذی،کتاب العلل:۲/۲۸۳) اس میں آپ نے تعلیم دی کہ تم میرے اقرار کی بنیاد پر بھی اسے میری طرف سے روایت کرسکتے ہو،ضروری نہیں کہ تم نے اس کا لفظ لفظ مجھ سے ہی سنا ہے۔ اس سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اپنی کتاب کے بارے میں بہت محتاط تھے، وہاں اس بات کی بھی شہادت ملتی ہے؛کہ اس دور میں ہی حضرت علیؓ کے نام سے افتراءات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، شیعہ حضرت علیؓ کے نام پر جو کچھ کہتے تھے وہ آپ کی تعلیمات نہ تھیں، سو علماء اہلسنت حضرت علیؓ کی انہی روایات پر اعتماد کرتے تھے جو کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں سے منقول ہوں،کوفہ میں یہی ایک مسند علم ایسی تھی جہاں حضرت علیؓ کی صحیح تعلیمات شیعی تقیہ سے محفوظ رہ سکتی تھیں، حضرت ابن عباسؓ ان پر تنقیدی نظر رکھتے تھے۔