انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ۶۰۶ء تا ۶۰۹ء تنہائی گو کہ کعبہ تین سو ساٹھ بتوں کی آماجگاہ بن چکا تھا؛ لیکن آنحضرت ﷺنے کبھی بُتوں کے آگے سر نہیں جھکایا اور نہ کبھی دیگر رسوم جاہلیت میں شرکت کی، قریش نے اس بناء پرکہ خود کو عام لوگوں سے ممتاز رہنا چاہئیے یہ قاعدہ قرار دیا تھا کہ ایام حج میں قریش کے لئے عرفات جانا ضروری نہیں اور یہ کہ جولوگ باہر سے آئیں وہ قریش کا لباس اختیار کریں ورنہ ان کو عریاں ہو کر کعبہ کا طواف کرنا ہوگا (ابن ہشام جلد ۱ ، سیرۃ النبی شبلی نعمانی جلد ۱ ) چنانچہ اسی بناء پر طواف عریاں کا عام رواج ہوگیا تھا؛ لیکن آنحضرت ﷺ نے ان باتوں میں کبھی اپنے خاندان کا ساتھ نہ دیا، (سیرۃ النبی جلد اول)عہد جاہلیت میں عرب میں افسانہ گوئی کا عام روا ج تھا ، راتوں کو لوگ تمام کاموں سے فارغ ہو کر کسی مقام میں جمع ہوتے ، ایک شخص جس کو اس فن میں کمال ہوتا تھا داستان شروع کر تا تھا، لوگ بڑے ذوق و شوق سے رات رات بھر سنتے تھے ، بچپن میں ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے بھی اس جلسہ میں شریک ہونا چاہا تھا؛ لیکن اتفاق سے راہ میں شادی کا کوئی جلسہ تھا، دیکھنے کے لئے کھڑے ہو گئے، وہیں نیند آگئی، اٹھے تو صبح ہو چکی تھی، ایک دفعہ اور ایسا ہی اتفاق ہوا، چالیس برس کی مدت میں صرف دو دفع اس قسم کا ارادہ کیا؛ لیکن دونوں دفعہ بھی توفیق الٰہی نے بچا لیا کہ تیری شان ان مشاغل سے بالاتر ہے ۔ (سر ولیم میور - لائف آف محمدﷺ بحوالہ سیرۃ النبی جلد اول) یہ فطرت سلیم اور نیک سرشتی کا تقاضا تھا؛ لیکن ایک شریعت کبریٰ کی تاسیس کے لئے کچھ اور درکار تھا، اسی زمانہ میں دیگر افراد( ورقہ ، زید ، عثمان بن حویرث) تلاش حق میں سرگرداں تھے، ان کے دل میں خیال آیا کہ بتوں کے آگے سر جھکانا حماقت ہے ، چنانچہ سب مذہب حق کی تلاش کے لئے نکلے؛ لیکن ناکامی ہوئی ، ورقہ اور عثمان عیسائی ہو گئے اور زیدیہ کہتے کہتے مر گئے ، ائے خدا ! اگر مجھ کو یہ معلوم ہوتا کہ تجھ کو کس طرح سے پوجنا چاہیے تو میں اسی طریقے سے تجھ کو پوجتا ۔ (شبلی نعمانی-سیرۃ النبی جلد اول) حضور اکرم ﷺ کو بھی ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی کہ کیا انسان اسی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ؟ طبیعت تنہائی کی طرف مائل ہونے لگی، حضرت خدیجہ ؓ آپﷺ کے مزاج کو سمجھتی تھیں، آپﷺ اپنی بے چین فطرت کی آسودگی کے لئے شہر اوران کے ہنگاموں سے دور پہاڑوں کی طرف نکل جانے لگے۔ جبل نور اور غار حرا مکہ سے تین میل دور جبلِ نور واقع ہے جسے زمانہ قدیم میں جبل حِرا کہتے تھے، اس میں ایک غار ہے جہاں آپﷺ جا کرمہینوں قیام کرتے اور مراقبہ فرماتے ، کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے ، وہ ختم ہو جاتاتو گھر تشریف لاتے اور پھر واپس جا کر مراقبے میں مصروف ہو جاتے ، صحیح بخاری میں ہے کہ آپﷺ غارِ حرا میں تحنّث یعنی عبادت کیا کرتے تھے،یہ عبادت کیا تھی ؟ شرح بخاری میں ہے " یہ سوال کیا گیا کہ آپ ﷺ کی عبادت کیا تھی ؟ جواب یہ ہے کہ غور و فکر اور عبرت پذیری" یہ وہی عبادت تھی جو آپﷺ کے دادا ابراہیم علیہ السلام نے نبوت سے پہلی کی تھی، ستاروں کو دیکھا تو چونکہ تجلی کی جھلک تھی ، چاند نکلا ہوا تو اور بھی شبہ ہوا، آفتاب پر اس سے زیادہ، لیکن جب سب نظروں سے غائب ہو گئے تو بے ساختہ پکار اُٹھے، میں فانی چیزوں کو نہیں چاہتا ،میں اپنا منہ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، (سورۃ لانعام : ۷۹) (سیرۃ النبیﷺ ، شبلی نعمانی ) غار حرا میں آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب ماہِ رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، حضور ﷺ کی یہ کیفیت حضرت رقیہؓ کی ولادت کے بعد ہی سے شروع ہو چکی تھی، آپﷺ کا دور تحنُّث پانچ سالوں پر محیط ہے،جس طرح بعض انبیائے ما سبق کی زندگی میں بعض پہاڑوں کی اہمیت ہے اسی طرح حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں د و پہاڑ یعنی جبل نور ( حرا) اور جبل ثور کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے ، جبل حِرا کی اس لئے کہ بعثت سے قبل آپﷺ کا دور ِ تحنّث اسی پہاڑ پر گزرا تھااور غار ثور کی اس سبب سے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے جاتے وقت آپﷺ نے تین دن وہاں قیام فرمایا تھا، سابق انبیا علیہم السلام میں حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہاالسلام کی ملاقات جبل ِ رحمت پر ہوئی تھی، حضرت نوح ؑکی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری ، صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کو حضرت ابراہیمؑ ، حضرت ہاجرہؑ اور اسمعٰیل ؑ سے خاص نسبت ہے، حضرت موسیٰ ؑ کی کوہِ طور سے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی کوہِ زیتون سے خاص نسبت ہے۔ ( سیرت احمد مجتبیٰ) حِرا کے لفظی معنی تلاش و جستجو کے ہیں، غارِ حرا کو بڑی فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ حضور ﷺ نے اپنا دور تحنّث یہیں گزارا اور یہیں حضرت جبریل ؑ آپﷺ پر پہلی وحی لے کر آئے، جبل حِرا میں یہ غار سطح زمین سے تقریباً دو ہزار فٹ کی اونچائی پر ہے ، غار مستطیل شکل کا ہے اور قدرتاً کعبہ رخ ہے ، اندر سے تقریباً چار گز لمبا ، پونے دو گز چوڑا اور اتنا اونچا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر آسانی سے نماز ادا کر سکتا ہے ، مستند روایات اور سوانح نگاروں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روحانی ترقیاتِ مدارج کے سلسلہ میں اولاً آپﷺ کو رویائے صادقہ(سچے خواب) پیش آ نے لگے، رویائے صادقہ کو نبوت کا ۴۶ واں حصہ کہا جاتا ہے، یعنی بارہا ایسے خواب نظر آتے جن کی بعد میں جلد تعبیر نکل آتی ، پھر رفتہ رفتہ بعض وقت آپﷺ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ کوئی درخت یاکوئی پتھر آپﷺ سے مخاطب ہے اور آواز دے رہاہے، رفتہ رفتہ یہ آوازیں با معنی الفاظ کی صورت اختیار کر تی گئیں ، چالیس سال ہونے آئے تو قدرت کی طرف سے وحی و الہام کے لئے تیا ر کیا جانے لگا اور رسولِ اُمی کو رب العالمین نے چاہا کہ رحمتہ للعالمین بنا دے۔