انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت یزید بن زریع العیشیؒ نام ونسب یزید نام،ابو معاویہ کنیت اوروالد کا اسم گرامی زُریع تھا (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۲۵)بصرہ کے مشہور خاندان بنو عائش سے نسبت رکھنے کے باعث عیشی کہلاتے ہیں اس خاندان کو ائمہ سلف کی ایک بڑی جماعت کے انتساب کا شرف حاصل ہے۔ (اللباب فی الانساب:۳/۱۶۲) ولادت اوروطن ۱۰۱ھ میں بمقام بصرہ پیدا ہوئے۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۴۳۱) فضل وکمال علم وفضل اورمہارت فنی کے اعتبار سے اکابر حفاظ حدیث اورممتاز اتباع تابعین میں شمار کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ تثت واتقان،ثقاہت وعدالت،زہد واتقاء،استغناء وتواضع اور عبادت وریاضت کی بھی ایک اعلیٰ مثال تھے، ابو عوانہ ان کی صحبت فیض اثر سے چالیس سال تک مسلسل مستفید ہوتے رہے وہ اس طویل ترین رفاقت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "یزید کے چراغِ علم سے ہر سال میرے علم و دانش کو جلا اورروشنی ملتی تھی ۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۳) امام احمدؒ کا بیان ہے: کان یزید ریحانۃ البصرۃ ما اتقنہ وما احفظہ (العبر:۱/۲۸) یزید بصرہ کے ناز بوتھے،وہ بڑے ہی متقن اورحافظ تھے۔ ابن عماد حنبلی انہیں "الحافظ الثبت المتقن محدث اھل البصرۃ"علامہ خزرجی: الحفاظ احد العلام اورامام یافعی :الحافظ اللبیب لکھتے ہیں۔ (شذرات :۱/۲۹۸ وخلاصہ:۴۳۱ ومرأۃ الجنان:۱/۳۸۲) حدیث ان کا خاص فن حدیث تھا، اس میں انہیں اتنی مہارت اورقدرت حاصل تھی کہ زبان خلق نے نقارۂ خدا بن کر محدث البصرہ کے خطاب سے سرفراز کیا تھا، انہوں نے ایوب السختیانی،سعید بن ابی عروبہ،حمید الطویل،شعبہ اور سفیان ثوری جیسے نادرۂ زمن محدثین کے خزانہ علم سے بہرہ وافر پایا تھا،ان کے بعض دوسرے ممتاز شیوخ واساتذہ کے نام یہ ہیں ، سلیمان التیمی،سعید بن یزید، عمرو بن میمون،سعید بن ایاس الجریری،ہشام بن حسان،یونس بن عبید، ابن عون،معمر بن راشد،روح بن القاسم۔ خود ان کے آفتاب علم سے مستنیر ہونے والوں کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے؛کیونکہ شیخ یزید کی پوری زندگی تدریس وروایت حدیث میں گزری تھی،ان کے تلامذہ کی طویل فہرست میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، زکریا بن عدی، عبدالاعلیٰ بن حماد، یحییٰ بن یحییٰ النیساپوری،علی بن المدینی ،عباس بن الولید،عمر بن عبدالوہاب الریاحی، محمد بن عبداللہ بندار، قتیبہ اور معلی بن اسد وغیر ہم کے نام نمایاں ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۲۵) ثقاہت واتقان طویل العمر مشغلہ درس کی وجہ سے انہیں حدیث کی صحت و سقم کو پرکھنے کا پورا ملکہ پیدا ہوگیا تھا اور اس میں ان کا تثبت واتقان باتفاق علماء مسلم تھا، بشر الحانیؒ فرماتے ہیں: کان یزید حافظا متقناً ما اعلم انی رأیت مثلہ ومثل صحۃ حدیثہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳۳) شیخ یزید حافظ متفن تھے میں نے ان جیسا صحیح الحدیث نہیں دیکھا۔ یحییٰ بن سعید القطان کا بیان ہے کہ: لم یکن ھٰھُنا احد اثبت منہ (العبر :۱/۲۸۴) ان سے زیادہ ثبت رکھنے والا بصرہ میں کوئی نہیں دیکھا۔ علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان ثقۃ کثیر الحدیث حجۃ (طبقات ابن سعد:۷/۴۴) وہ ثقہ،کثیر الحدیث اورحجت تھے۔ امام احمدؒ شہادت دیتے ہیں کہ: مااتقنہ وما احفظہ صدوق متقن (صفوۃ الصفوۃ:۳/۲۷۷) وہ بہت متقن،حافظ اورصدوق تھے۔ علاوہ ازیں ابن معین، ابو حاتم اوردوسرے بہت سے علماء ان کی ثقاہت کا بصراحت اعتراف کرتے ہیں۔ زُہد واتقاء ان کے والد زریع بصرہ کے والی تھے،اس لیے انہیں راحت وآسائش کے ہر قسم کے سامان فراہم تھے، لیکن یزید مال وزر اورثروت وعزت سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اورغایت تقویٰ کی بنا پر اپنے باپ کے مال میں سے ایک حبہ بھی استعمال نہیں کیا؛بلکہ کھجور کے پتوں کا کام کرکے روزی حاصل کرتے تھے،ابو سلیمان الاشقر بیان کرتے ہیں کہ زریع نے وفات کے وقت پانچ لاکھ درہم وراثت میں چھوڑے تھے،مگر یزید نے اس میں سے ایک درہم بھی نہ لیا۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۲۷) ابن حبان کا قول ہے: کان من أورع اھد زمانہ (صفوۃ الصفوۃ:۳/۲۷۷) وہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے متقی تھے۔ مناقب علمی فضائل وکمالات کے ساتھ ان کی دنیائے عمل بھی آراستہ تھی،خاص طور پر نماز کا بہت اہتمام رکھتے اورنوافل کثرت سے پڑھتے تھے،اسی بنا پر عالمِ بالا میں خدا وند قدوس نے ان کے ساتھ خصوصی معاملہ فرمایا، جیسا کہ نصر بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات یزید بن زریعؒ کو خواب میں دیکھا اوردریافت کیا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیسا معاملہ فرمایا؟ شیخ نے جواب دیا کہ میں جنت میں داخل ہوگیا،عرض کیا کن اعمال کی بنا پر؟فرمایا کثرتِ نماز کی وجہ سے ۔ (مرأۃ الجنان:۱/۳۸۲) وفات ۸شوال ۱۸۲ھ بروز چہارشنبہ بصرہ میں انتقال فرمایا، وفات کے وقت ۸۱ سال کی عمر تھی۔ ( ابن سعد:۴۴،العبر:۱/۵۴،تہذیب :۱۱/۳۲۷)